لوک سبھا کے انتخابی مرحلے

لوک سبھا کے موجودہ انتخاب سے کوئی خاص امید وابستہ نہیں کی جا سکتی


Kuldeep Nayar April 17, 2014

بھارت لوک سبھا کے انتخابی عمل کے وسط سے گزر رہا ہے اس وقت تک دو عوامل منظر عام پر آ چکے ہیں: ذات پات اور روپیہ پیسہ۔ مجھے ذات پات والے معاملے پر بہت مایوسی ہوئی ہے میں یہ تصور کیے ہوئے تھا کہ آزادی کے تقریباً سرسٹھ (67) سال بعد تو ہماری قوم اتنی بالغ نظر ضرور ہو چکی ہو گی کہ اس قسم کے جبلی مغالطوں سے نجات پا جاتی۔ تاہم بعد میں تو بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) نے اس میں مذہب کا تڑکہ بھی لگا دیا ہے۔

1950ء کی دہائی میں مذہب کے نام پر اپیل کرنا قابل فہم تھا کیونکہ اگست 1947ء میں تقسیم ہی مذہب کے نام پر عمل میں آئی تھی۔ اس موقع پر دنیا کا سب سے بڑا ہولوکوسٹ (یعنی قتل عام) وقوع پذیر ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ عوام کو گھر سے بے گھر ہونا پڑا۔ آبادی کے تبادلے کو بھارت کی قومی کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے ہی مسترد کر دیا تھا کیونکہ اس وقت ملک کا مستقبل ان دونوں کے ہاتھ میں تھا۔ پہلے مہاتما گاندھی اور اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اس بات کا دھیان رکھا کہ مذہب کو سیاست سے گڈمڈ نہ کیا جائے۔ یہ صرف چند سال تک کارگر ثابت ہو سکا۔ 1960ء کی دہائی میں چینیوں کے ہاتھ سے بھارت کی شکست انتخابی موضوع بن گئی۔ رائے دہندگان کی تمام تر توجہ نہرو کی اس غفلت پر لگی تھی کہ انھوں نے ملک کے دفاع کے لیے کیوں کوئی تیاری نہیں کی تھی۔

1970ء کے عشرے میں قوم نے اندرا گاندھی کی خود سری کا مظاہرہ دیکھا جس نے آئین کو بھی معطل کر دیا تھا اور ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے حراست میں لے لیا تھا۔ اس کی کانگریس پارٹی کا شمالی ہند میں مکمل صفایا ہو گیا۔ 1980ء میں اقتدار میں اندرا کی واپسی اس کی جگہ پر آنیوالی جنتا پارٹی کے داخلی خلفشار کا نتیجہ تھی۔ اس میں اندرا کو کوئی فتح یابی نہیں ہوئی تھی بلکہ قوم نے جنتا کو مسترد کر دیا تھا۔ لہذا اسمیں ذات پات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ جنہوں نے ذات پات کا نعرہ بلند کیا وہ بالعموم شکست کھا گئے۔ جہاں تک مال و دولت کا تعلق ہے تو یہ عنصر روز اول سے ہی کارگر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 1951ء میں ایک انتخابی امید وار کے اخراجات کی حد چالیس لاکھ روپے تک مقرر کی تھی جب بھارت میں پہلے عام انتخابات ہوئے تھے تاہم اب یہ رقم ستر لاکھ تک بڑھا دی گئی ہے لیکن اب بھی یہ امیدواروں کے اوسط اخراجات سے بے حد کم ہے۔ اس وقت لوک سبھا کے ایک عام امیدوار کو اوسطاً تین کروڑ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں جب کہ زیادہ تر امیدواروں کے اخراجات اس سے تین چار گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

اگرچہ الیکشن کمیشن نے اخراجات کے حوالے سے قواعد و ضوابط بنا رکھے ہیں لیکن پھر بھی آج تک کسی امیدوار کو طے شدہ حد سے تجاوز کرنے پر نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں خود کسی قانون قاعدے کی پابندی نہیں کرتیں کہ ان کو اخراجات کی حد کے اندر رہنے کا پابند کیا جا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں ہی بددیانت ہیں اور یہی اصل مسئلہ ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے اخراجات کو کسی حد میں رکھنے کی قائل نہیں کیونکہ ان سب نے اپنی داخلی کارکردگی پر حق معلومات (Right to Information) کے قانون کا اطلاق متفقہ طور پر مسترد کر دیا ہے۔

اگر انتخابی اخراجات پر کوئی قدغن عائد کرنا ہو تو اس کے لیے احتساب لازم ہے لیکن الیکشن کمیشن اس حوالے سے کافی نرم رویہ رکھتا ہے لہذا ایک احتسابی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے اور چونکہ اراکین اسمبلی کو ہی اس بارے میں قانون سازی کرنا ہوتی ہے چنانچہ وہ کبھی بھی کسی ایسے مسودہ قانون کو منظور نہیں ہونے دیں گے جو کہ ان پر روک ٹوک لگانے والا ہو۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی بلا دریغ اخراجات کرتی ہیں۔ اس معاملے میں بی جے پی سب سے آگے ہے کیونکہ اس پارٹی کے پیچھے کارپوریٹ سیکٹر کا ہاتھ ہے جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم نریندر مودی ہی ہو گا جو ان کے لیے میدان کھول دے گا۔

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو وہ اب قدرے پس منظر میں چلا گیا ہے۔ مودی کی بے حد زہر آلود تقاریر ''ہندو توا'' کے گرد ہی گھومتی رہی ہیں۔ مگر اس مرتبہ مودی نے اس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ سیکولر ازم میں ایک عوامی کشش موجود ہے۔ یہ حقیقت کہ Rashtriya Swayamsevak Sangh راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا(RSS) انتخابی مہم میں کھلم کھلا شریک ہے حالانکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف ایک ثقافتی تنظیم ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت الیکشن کمیٹیوں میں بیٹھ کر بی جے پی کے امیدواروں کا چنائو کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے یہ بدشگونی ہے۔

مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ اب سیاست کے ساتھ مذہب کا تذکرہ بڑھ جائے گا۔ گو کہ کانگریس پارٹی سیکولر ازم کی خدمت نہیں کرتی حتیٰ کہ بی جے پی بھی نہیں۔ البتہ بی جے پی کے منشور میں سیکولر ازم کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود بی جے پی تحریک آزادی کی بات کرتی ہے اور تحریک آزادی کے رہنمائوں کی قربانیوں کو نظرانداز نہیں کرتی جن میں کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور عبدالغفار خان بھی شامل ہیں۔ لیکن بلی تھیلے میں سے جب نکلتی ہے کہ ان رہنمائوں میں نہرو کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ جدوجہد آزادی میں وہ ایک نمایاں مشعل بردار تھے۔ بی جے پی کے منشور میں تمام مصیبت زدہ ہندوئوں کو ملک میں آنے کی اجازت کا ذکر ہے جو کہ ویسی ہی پالیسی ہے جیسی اسرائیل نے اختیار کر رکھی ہے کہ یہ ہر یہودی کا وطن ہے جو جب چاہے جہاں سے چاہے اسرائیل میں آ سکتا ہے۔

اس موقف کے برعکس یہ بات حیران کن نہیں کہ یہ پارٹی مودی کے خاص آدمی امیت سنگھ کی بھی حمایت کر رہی ہے جس نے کہا تھا کہ اترپردیش (یو پی) لوک سبھا کے انتخاب میں انتقام لے گا۔ اگرچہ اس نے لفظ مسلمان استعمال نہیں کیا لیکن ہر ایک کو سمجھ آ گئی کہ وہ کن سے انتقام لینے کی بات کر رہا ہے۔

سماج وادی پارٹی کے اعظم خان مسلمانوں کے مودی بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں اس بات کی کوئی خجالت نہیں کہ وہ مسلح افواج کو بھی فرقہ واریت میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے نہ اپنے الفاظ واپس لیے ہیں اور نہ اس بارے میں کوئی معذرت کی ہے۔ ان کا یہ تبصرہ کہ کارگل کی چوٹیوں پر صرف بھارتی مسلمان سپاہی پکڑے گئے ہندوئوں کو کچھ نہیں کہا گیا۔ اس بات سے ان کی آلودہ سوچ کی غمازی ہوئی ہے۔ ان کو یہ تک پتہ نہیں کہ لڑائی میں فوج کی رجمنٹیں حصہ لیتی ہیں جن میں تمام مذاہب کے فوجی شامل ہوتے ہیں۔ یہ رجمنٹ ہی ہے جو جیتتی ہے یا ہارتی ہے۔ کسی مخصوص مذہب کے فوجی ہار جیت کے ذمے دار نہیں ہوتے۔

امیت سنگھ جیسے لوگوں کو تو انتخاب لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا جانا چاہیے لیکن الیکشن کمیشن نے ان پر یو پی میں تقریر کرنے کی پابندی عائد کر دی ہے جب کہ ان دونوں کا تعلق اسی ریاست سے ہے۔ میرے خیال میں تو ان کو زیادہ سخت سزا دی جانی چاہیے۔ ذات پات کے معاملے نے انتخاب پر ضرور اثر ڈالا ہے بالخصوص دلتوں کی اپنی بہت سی ذاتیں ہیں جن کے بااثر حلقے حکومت پر حکم چلاتے ہیں۔ اوپر والی ذاتوں میں مراٹھے' راجپوت' جاٹ اور دیگر شامل ہیں۔ آج اس برادری کے اراکین جمہوری معاشرے میں اپنے انتخاب کی نفی کر رہے ہیں۔ یہ بات کہ ہم ذات پات کے عفریت کے خلاف کس کامیابی سے لڑ سکتے ہیں یہی حقیقی معنوں میں ایک جمہوری اور اجتماعیت پر مبنی معاشرے کی بنیاد قائم کرے گا اور سیاسی پارٹیاں اس قسم کی غلط روش کو کمزور کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں اس کا ثبوت وقت آنے پر ملے گا۔

لوک سبھا کے موجودہ انتخاب سے کوئی خاص امید وابستہ نہیں کی جا سکتی کیونکہ انتخابی امیدوار کسی بھی قیمت پر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں تک روپے پیسے کے استعمال کا تعلق ہے تو اس کا کسی حد تک پتہ لگایا جا سکتا ہے خواہ یہ کام کتنا مشکل ہی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ مذہبی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کو بھی روکا جا سکتا ہے لیکن ذات پات کے تعلق کو روکنا ممکن نہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ ہم اس قسم کی ترجیحات سے کس طرح بالاتر ہو سکتے ہیں۔ جب تک ہم نہ ہو سکیں تو کم از کم ہمیں جمہوری اقتدار کا ضرور خیال رکھنا چاہیے لیکن اس طرح نہیں جس طرح کہ مغربی جمہوریتیں کرتی ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے لیڈر جو ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتے ہیں اور طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں ان کے بارے میں ہم کیا کر سکتے ہیں یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں