مرے معبود‘ آخر کب تماشا ختم ہو گا

گئے دنوں میں ہمارے گلی کوچوں میں بازاروں میں چوراہوں پر کیا کیا رونقیں تھیں کیا کیا کھیل تماشے تھے۔۔۔۔

rmvsyndlcate@gmail.com

یہ جو بازاروں کے بیچ ہفتے کے ہفتے خصوصی بازار سجے نظر آتے ہیں' کوئی اتوار بازار کے نام سے' کوئی جمعہ بازار کے نام سے اور رمضان کے دنوں میں رمضان بازار کے نام سے' ان میں تو خیر سبزی ترکاری سے لے کر ہلدی نمک مرچ تک ہر قسم کا مال بکتا نظر آتا ہے۔ اسی ہلچل میں گزرتے گزرتے ہمیں ہر پھر کر ایک اور قسم کا سودا بکتا نظر آتا ہے۔ بس اچانک ایک بندر والا سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ ایک بندر جس کے گلے میں رسی بندھی ہوئی ہے۔

رسی کا سرا پکڑے ایک آدمی۔ ہماری سمجھ میں پہلے تو کچھ نہ آیا۔ یہ دیکھ کر پہلے تو حیران ہی ہوئے کہ نہ اس کے ہاتھ میں ڈگڈگی ہے۔ نہ بندر کے ساتھ بندریا ہے اور وہ جو اس کے ساتھ ساز و سامان ہوتا تھا' ایک ڈنڈا' ڈگڈگی' تپائی۔ اس ساز و سامان کے ساتھ وہ مداری کہلانے کا مستحق ٹھہرتا تھا اور بندر بندریا کا تماشا دکھا کر تماشائیوں سے پیسے بٹورتا تھا جب ایسا کوئی تماشا ہی نہیں دکھا رہا تو ہم سے کس بات کے پیسے مانگ رہا ہے۔

خیر ہم نے دل میں کہا کہ یہ شخص تو مداری نہیں ہے۔ تماشا دکھاتا نہیں۔ مفت میں پیسے مانگ رہا ہے مگر بندر کو دیکھ کر ہمارا دل پسیج جاتا اور یہ کہہ کر ہم اسے دس کا نوٹ تھما دیتے کہ یہ تمہارا معاوضہ نہیں ہے کیونکہ تم نے تو نہ ڈگڈگی بجائی نہ بندر بندریا کا تماشا دکھایا۔ یہ رقم بندر کے لیے ہے۔ اسی پر خرچ ہونی چاہیے۔

لیکن ابھی پچھلے ہفتے ٹری بیون کے صفحوں میں ایک تصویر ہماری نظر سے گزری۔ ایک بندریا لہنگا پہنے کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ مداری۔ یہ تصویر دیکھ کر ہمیں اطمینان ہوا کہ مداری اپنی ڈگڈگی اور بندر بندریا کے ساتھ ابھی تک ہمارے بیچ موجود ہے۔ ہم جن بازاروں سے گزرتے ہیں وہاں بیشک نظر نہ آئے۔ مگر مال روڈ سے پرے پرانے لاہور کی گلیوں محلوں میں شاید ابھی تک گھوم رہا ہے اور بندر بندریا کا تماشا دکھا کر بچوں بڑوں سے داد اور پیسے وصول کر رہا ہے۔

پھر بھی ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گئے دنوں میں ہمارے گلی کوچوں میں بازاروں میں چوراہوں پر کیا کیا رونقیں تھیں کیا کیا کھیل تماشے تھے۔ اور کیسے کیسے تماشائی تھے۔ سب سے بڑھ کر بچے۔ گھروں پر پڑے پردوں کے پیچھے سے جھانکتی ان کی مائیں بہنیں۔ چلتے چلتے کوئی بزرگ ٹھٹھک گئے۔ وہ بھی بچوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ کس شوق سے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بندر والا ڈگڈگی بجاتا آیا۔ اس نے بندر بندریا کو ہدایات جاری کیں۔ لیجیے بندر میاں' بندریا بیوی۔ میاں بیوی میں کھٹ پٹ ہو گئی۔ میاں نے ڈنڈا پکڑ کر اسے مارا۔ وہ روٹھ کر میکے چلی گئی۔ اب میاں صاحب پریشان ہیں۔ سسرال جا کر بیگم کو مناتے ہیں۔ بیوی کو منا کر لاتے ہیں لیجیے کھیل ختم پیسہ ہضم۔ تماشائیوں نے تالیاں بجائیں اور مداری پر پیسوں کی بارش کر دی۔ بھالو والا آیا۔ اس نے کرتب دکھایا کہ بھالو ناچ رہا ہے اور تماشائی تالیاں بجا رہے ہیں۔

سپیرا بین بجاتا آیا۔ بیٹھ کر تھوڑی دیر بین بجائی۔ پھر پٹاری کھولی۔ پس ترنت کے ترنت کالا ناگ پھن پھیلا کر کھڑا ہو گیا۔ اب بین والا بین بجاتے ہوئے بین کو لہراتا جا رہا ہے اسی حساب سے ناگ اپنے پھن کے ساتھ لہرا رہا ہے۔ بچوں بڑوں کی تالیاں۔ پیسوں کی بارش۔ بھالو والا ڈگڈگی بجاتا آیا۔ بھالو کو نچایا۔ پیسے بٹورے اور چلتا بنا۔ سیربین والا آیا۔ تماشائیوں سے ایک آگے بڑھا' پردے کے اندر منہ دے کر سیربین کو دیکھنا شروع کیا۔ سیربین والا اعلان کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ منظر بدلتا چلا جا رہا ہے۔ بمبئی کا بازار دیکھو۔ تاج بی بی کا روضہ دیکھو۔ بارہ من کی دھوبن دیکھو۔ لندن دیکھو' پیرس دیکھو۔

یہ سب تماشے اب کہاں ہیں۔ ہم اس پر افسوس کر رہے تھے کہ یاروں میں سے ایک ستم ظریف بولا کہ اب ہمیں ان تماشوں کی ضرورت نہیں۔ پھر سعدیؔ کا یہ شعر پڑھا؎

اے تماشہ گاہ عالم روئے تو

تو کجا بہر تماشہ می روی

تیرا چہرہ زیبا تو خود تماشہ گاہ عالم ہے۔ تجھے کس شوق سے ہم دیکھتے ہیں تو کونسا تماشا دیکھنے جا رہا ہے تو میرے بھائی ہم تو خود تماشا بنے ہوئے ہیں۔ تماشوں سے بڑھ کر تماشا۔ ان چھوٹے موٹے تماشوں سے ہماری کیا تسکین ہو گی۔ پھر اس پر ہمیں علامہ اقبال کا ایک مصرعہ یاد آیا ع

تماشہ دکھا کر مداری گیا

ہم نے سوچا کہ مداری تو بیشک چلا گیا۔ مگر تماشا تو بہرحال ہو رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمارے بیچ۔ غالبؔ نے صحیح کہا تھا کہ ع

ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے

پھر ہمیں خیال آیا کہ علامہ نے تو کسی اور ہی تماشے کا ذکر کیا تھا؎

گیا دور سرمایہ داری گیا

تماشہ دکھا کر مداری گیا

جب پورا شعر پڑھا تو ہم سوچ میں پڑ گئے۔ سوچا کہ مداری بیشک چلا گیا ہو یا بدل گیا ہو یا نہ بدلا ہو مگر سرمایہ داری کا تماشا تو جاری ہے۔ مگر علامہ کے حساب سے اس زمانے کا سارا کھڑاک ہی اک تماشا ہے۔ سوشلزم بھی تماشا' سرمایہ داری بھی تماشا۔ جمہوریت بھی تماشا ع

جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو


اور ہم نے تو یہ دونوں ہی تماشے دیکھے۔ اپنی تاریخ میں جلال بادشاہی کا تماشا بھی دیکھا۔ جلال آمریت کا بھی تماشا دیکھا۔ اور ہاں اب آمریت کے جلال سے گزر کر اس کے زوال کا تماشا بھی دیکھ رہے ہیں۔ ارے تُو خیر و عافیت سے رخصت ہو گیا تھا۔ کونسے باولے کتے نے تجھے کاٹا تھا کہ واپس آ گیا۔ مطلب یہ کہ آ بیل مجھے مار۔ اب دیکھ تماشا۔

مگر جمہوریت۔ ارے اس کے تماشوں کی کیا پوچھتے ہو۔ ابھی جمہوریت کی بساط بچھی ہے۔ اور ابھی لپٹ گئی ع

آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور اٹھائے بھی گئے

کب سے ہم یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ جتنی دیر بساط بچھی رہتی ہے اتنی دیر تک بھی کوئی نہ کوئی تماشہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ اور نہیں تو جعلی ڈگریوں کا تماشہ ہی سہی

لیجیے تماشے کا ذکر چل نکلا ہے تو پھر پورا تماشہ دیکھئے۔ یہ افتخار عارف ہیں کہتے ہیں؎

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا

مرے معبود' آخر کب تماشا ختم ہو گا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا

یہ سب کٹھ پتلیاں ہیں رات کی رات

سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے

کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا

دل نا مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا

جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہو گا

لیجیے اب ذرا نظیرؔ اکبر آبادی نے جو تماشا کیا ہے وہ بھی دیکھ لیجیے؎

یوں تو ہم تھے یونہی کچھ مثل انار و مہتاب

جب ہمیں آگ دکھائی تو تماشا نکلا

اور آخر میں ایک انتباہ کہ تماشا خود نہ بن جانا تماشا دیکھنے والے۔
Load Next Story