قرضے۔۔۔امداد۔۔۔۔مانیٹرنگ

بجلی کی قلت کا مسئلہ سال دو سال میں حل ہونے والا نہیں اس کے لیے ابھی سے جامع منصوبہ بندی کی جائے ۔۔۔۔


Zaheer Akhter Bedari April 17, 2014
[email protected]

2013ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد جب سے مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا ہے اس کے رہنما بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے، مہنگائی میں کمی لانے، روزگار کے مواقعے بڑھانے اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ملک کے اندر اور ملک کے باہر تیزی سے نقل و حرکت کرتے نظر آتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سمجھ بوجھ اور تیزی اور طراری کے حوالے سے شہباز شریف دوسرے تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے بھی بہت زیادہ متحرک ہیں شریف برادران کی اس بھاگ دوڑ سے اخباری اطلاعات کے مطابق کئی ملکوں کے سرمایہ کار پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے آمادہ ہو رہے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں حکومت نے یورو بانڈ کا اجرا کیا یہ ایک طرح کا قرض ہے جو بیرونی سرمایہ کاروں سے سود پر لیا جاتا ہے۔ اس قرض کے حصول میں ہماری حکومت اپنی توقعات سے بہت بڑھ کر کامیاب رہی ہے لیکن ناقدین اور معاشی ماہرین یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ قرض 8 فیصد سود کے بدلے حاصل کیا گیا ہے جب کہ سری لنکا، بنگلہ دیش وغیرہ جیسے چھوٹے ملک 5 سے 6 فیصد سود کے عوض قرض حاصل کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ قرض حاصل کرنے کی رفتار یہی رہی تو بہت جلد پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ قرض لینے والے ملک کا اعزاز حاصل کر لے گا۔

ہم اس فضول بحث میں پڑے بغیر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران میاں برادران نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بجلی کی سی تیزرفتاری سے کم کرنے، مہنگائی اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کے جو وعدے اپنے ووٹروں سے کیے تھے ان کا کیا ہوا؟ بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ صرف جاری ہے بلکہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی کی قیمتوں میں ناقابل یقین اضافہ بھی کر دیا گیا ہے مہنگائی 10 ماہ پہلے کے مقابلے میں ڈبل ہو گئی ہے نجکاری یا سرمایہ دارانہ نظام کی حرام کاری کی بدولت بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے اورکرپشن کی ترقی کا عالم یہ ہے کہ افراد، خاندان اور ادارے اربوں روپوں کی کھلے عام کرپشن کا ارتکاب کر رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ کارنامے صرف موجودہ حکومت کے ہی نہیں ہیں ماشا اللہ پچھلی حکومتوں نے اس میدان میں ایسے ایسے ریکارڈ قائم کیے ہیں جس کی مثال پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔

بجلی کی قلت کا مسئلہ سال دو سال میں حل ہونے والا نہیں اس کے لیے ابھی سے جامع منصوبہ بندی کی جائے تو اگلے پانچ سات سال میں کہیں بجلی کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے سیاسی اہلکار محض غریبوں کے ووٹ بٹورنے کے لیے ایسے ایسے جھوٹے وعدے کرتے ہیں کہ بڑے بڑے مستند جھوٹے اپنا سر شرم سے جھکا لیتے ہیں۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ پچھلے دس ماہ کے اندر 4 سے 6 فیصد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک یہ کہ آئی ایم ایف عرف عالمی قصاب اتنی کڑی شرطوں پر قرض دیتا ہے کہ یہ شرائط حکومت کو ہر قیمت پر پوری کرنا پڑتی ہیں۔ مثلاً سبسڈی ختم کرنا، بجلی، گیس، پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں ناقابل یقین اضافہ اور سود۔ یہ وہ عوامل ہیں جو مہنگائی میں حیران کن اضافہ کرتے ہیں اور عام آدمی براہ راست اس سے متاثر ہوتا ہے۔

مہنگائی میں بے لگام اضافے کی دوسری وجہ بے شرمانہ حد تک منافع خوری ہے ملک میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو اس بے لگام مہنگائی کے منہ میں لگام دے سکے۔ پرائس کنٹرول کمیشن کی جب سب سے بڑی ترجیح ''کمیشن'' بن جائے تو اس کی حیثیت تاجروں، صنعتکاروں کے ایجنٹ اور محافظ سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے؟حکومت کے ناقدین عموماً ان مسائل پر تبصرے اور تنقید فرماتے ہیں جو اسکرین پر نظر آتے ہیں ان مسائل پر ان حضرات کی نظر کم ہی جاتی ہے ، جو اسکرین کے پیچھے ہوتے ہیں مثلاً پچھلے دنوں سعودی عرب کی طرف سے دیے جانے والے تحفے کی ڈیڑھ ارب کی رقم پر تو ہر پہلو سے روشنی ڈالی جا رہی ہے لیکن کوئی اہل، عقل اہل، خرد اہل دانش، سیاستدان، ماہر معاشیات یہ نہیں پوچھ رہا ہے کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں خرچ ہوئے یا کہاں خرچ ہوں گے۔

آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے قرض مل رہے ہیں کوئی ماں کا لعل یہ سوال نہیں کر رہا ہے کہ یہ اربوں کہاں خرچ ہو رہے ہیں کون خرچ کر رہا ہے، امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے صحت، تعلیم سمیت کئی شعبوں کے لیے اربوں ڈالر کی امداد مل رہی ہے کوئی ماہر معاشیات کوئی دانشور اپوزیشن کا کوئی سورما یہ سوال نہیں کرتا کہ امداد کے نام پر ملنے والے اربوں ڈالر کہاں جا رہے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو سے تعاون کی قیمت کے نام پر جو اربوں ڈالر امریکا دے رہا ہے کوئی سیاسی پہلوان یہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے کہ یہ کوئلیشن فنڈ کہاں جا رہا ہے۔ ملک میں زلزلے یا سیلاب آتے ہیں تو باہر سے اربوں ڈالر کی امداد آتی ہے لیکن کسی کے منہ میں ایسی زبان نہیں کہ پوچھے حضور! یہ اربوں روپے کون سے زلزلے زدگان ، کون سے سیلاب زدگان کو دیے گئے۔

ان اربوں ڈالر کے علاوہ ملک کے مختلف ترقیاتی کاموں پر جو اربوں روپے دیے جاتے ہیں وہ کہاں خرچ ہو رہے ہیں کیسے خرچ ہو رہے ہیں، کوئی اس کا پوچھنے والا نہیں ابھی پچھلے دنوں قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے ''داسو ہائیڈرو پاور منصوبے ''پر عملدرآمد کے لیے 486 ارب روپوں کی منظوری دی اس کے ساتھ ساتھ ہارپو ہائیڈرو پروجیکٹ کے لیے 9 ارب 50 کروڑ روپوں کی بھی منظوری دی ان 496 ارب کے لگ بھگ روپوں کے خرچ کی مانیٹرنگ کا کوئی ادارہ کوئی ایماندار غیر جانبدار کمیٹی موجود ہے؟

بلاشبہ موجودہ حکومت بے شمار بڑے بڑے منصوبوں کے لیے کھربوں روپے خرچ کر رہی ہے لیکن یہ کھربوں روپے کہاں خرچ ہو رہے ہیں کیسے خرچ ہو رہے ہیں کون خرچ کر رہا ہے اس کی ایماندارانہ مانیٹرنگ کے بغیر اس کھربوں روپوں کے صحیح یا غلط استعمال کا پتہ کیسے چلے گا؟ باہر کے ملکوں سے اربوں ڈالر کے جو معاہدے ہو رہے ہیں کیا یہ ٹرانسپیرنٹ ہیں کیا ان معاہدوں میں اربوں کے ہیر پھیر کے امکانات نہیں ہیں۔ ماضی میں اس قسم کے سودوں میں اربوں روپوں کی ہیر پھیر کی داستانیں میڈیا میں آتی رہی ہیں کیا یہ سب کرپشن نہیں ہے، سوئس بینک کا کیس کس زمرے میں آتا ہے میاں برادران کے خلاف 7-6 ریفرنس کس کھاتے میں جاتے ہیں ہمارے دو سابق وزرائے اعظم پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور نیب اس کی تحقیق کر رہا ہے۔

ایک سابق بیورو کریٹ توقیر صادق پر 86 ارب روپوں کی کرپشن کے حوالے سے کیس زیر سماعت ہے ہر قومی ادارے پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں۔جب کھربوں ڈالر کی یہ قومی دولت جس کے اصل مالک اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام ہیں یوں لوٹی جاتی رہی تو غریب کی زندگی میں کیسے بہتری آئے گی، مہنگائی بے روزگاری کیسے کم ہو گی؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب عوام مانگ رہے ہیں اگر عوام کو درست جواب نہ ملیں تو پھر کیا وہ دمادم مست قلندر پر نہیں اتر آئیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو پھر لٹیرے اور لوٹی ہوئی قومی دولت کا کیا ہو گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں