دہشت گردی کی لہر

اس وقت پاکستان کی شمال مغربی سرحد ایسے گروپوں سے پاک نہیں ہے

اس وقت پاکستان کی شمال مغربی سرحد ایسے گروپوں سے پاک نہیں ہے (فوٹو : فائل)

پاکستان کو شمال مغربی سرحدوں کی جانب سے دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستانی علاقوں میں تسلسل سے کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا ان کا خاص نشانہ ہے، ان کی حکمت عملی میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ بلوچستان میں دیگر شرپسند گروہوں کا افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے تعلق بھی قائم ہے۔ بلوچستان میں بھی آئے روز سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی بلوچستان میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں سیکیورٹی فورسز کے چار جوان شہید ہوئے ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ایران کی جانب سے دہشت گردوں کے ایک گروپ نے ضلع کیچ کے جلگئی سیکٹر میں پاکستان ایران سرحد کی نگرانی پر مامور پاکستانی سیکیورٹی فورسز معمول کے سرحدی گشت پر تھی کہ دہشت گردوں نے ان پر حملہ کر دیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق اس حملے میں نائیک شیر احمد، لانس نائیک محمد اصغر، سپاہی محمد عرفان اور سپاہی عبدالرشید سمیت 4 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔ مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کے لیے ایران سے ضروری رابطہ کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جاسکے۔

ایران کی سرحد کے ساتھ دہشت گردی کا یہ واقعہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہاں بھی دہشت گرد سرحد پار آتے اور جاتے ہیں۔ پاکستان نے ایرانی حکام سے رابطے کیا ہے تاہم ان روابط کا فائدہ جب ہی ہے جب پاک ایران سرحد مکمل طور پر محفوظ ہو۔ کسی ملک میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے سرحدی علاقے جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گرد گروپوں سے پاک ہوں۔

اس وقت پاکستان کی شمال مغربی سرحد ایسے گروپوں سے پاک نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت برملا تحریک طالبان کی حمایت کر رہی ہے اور اسے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ طالبان کی عبوری حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ افغانستان میں امن قائم کر سکے کیونکہ وہاں بھی داعش صوبہ خراسان میں پوری طرح متحرک ہے اس لیے پاکستان کو پاک افغان سرحد پر فوجی نگرانی کا عمل مزید سخت کرنا چاہیے کیونکہ دو روز قبل بھی شمالی وزیرستان میں ایک سیکیورٹی اہلکار شہید ہوا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان کے ضلع میر علی کے عمومی علاقے میں دہشت گردوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں سیکیورٹی فورسز کا ایک جوان شہید ہوگیا، آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز دہشتگردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔

ادھر خیبرپختونخوا کے شہر تخت بھائی کے علاقے جہانگیرآباد خٹکو کلی میں کالعدم تنظیم کے ایک مبینہ رکن کی فائرنگ سے سی ٹی ڈی کا اہلکار شہید ہو گیا، سی ٹی ڈی کی جوابی کارروائی سے وہ مبینہ دہشت گرد بھی ہلاک ہوگیا، اس کا تعلق کالعد تنظیم داعش سے بتایا جاتا ہے، ہلاک دہشت گرد سیکیورٹی اداروں کو درجنوں مقدمات میں مطلوب تھا۔ اسی روز بلوچستان میں سبی کے جنوبی علاقے نوشمان میں دہشت گردوں کے ایک گروپ کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا۔

اس آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ایک دہشت گردہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔ دہشت گرد علاقے میں شہریوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ کوئلہ کان کے مالکان کو ہراساں کرتے تھے۔ پنجاب میں بھی سی ٹی ڈی مسلسل دہشت گردوں کا پیچھا کر رہی ہے اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری ہے۔

گزشتہ دنوں سی ٹی ڈی پنجاب نے صوبہ بھر کے مختلف اضلاع میں 21 آپریشنز کیے۔ دوران آپریشن کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 9 مبینہ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے اسلحہ اور بھاری رقوم برآمد کر لی ہے۔گرفتار دہشت گردوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے بتایا گیا ہے۔

ترجمان سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ گرفتار دہشت گردوں نے صوبہ بھر میں تخریب کاری کا منصوبہ بنا رکھا تھا اور وہ اہم تنصیبات،دہشت گردانہ کارروائی اور مذہبی مقامات کو ٹارگٹ کرنا چاہتے تھے۔ چند روز قبل جنوبی وزیرستان کے علاقہ انگور اڈا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو لیڈ کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر شہید ہوگئے تھے جب کہ سات سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔


خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ کھتی کی پولیس چیک پوسٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ تبادلے میں تین دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا جب کہ اس دوران پاک فوج کے تین جوان بھی شہید ہوگئے۔

دہشت گردی کی اس مسلسل لہر سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مختلف قسم کی دہشت گرد اور شرپسند تنظیموں کے درمیان رابطہ کاری بھی ہے اور ایک دوسرے سے مالی اور معلومات کا تعاون بھی کیا جا رہا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو دہشت گرد گروپوں کے اتحاد کے خلاف کارروائی کرنا پڑ رہی ہے۔ اس سارے منظرنامے میں ملک کی سیاسی جماعتوں، مذہبی قیادت اور سول سوسائٹی کا کردار انتہائی کمزور اور لاتعلقی والا ہے۔

کچھ سیاسی ومذہبی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہی ہیں۔ اپنے بیانیے میں اگرمگر اور چونکہ چنانچہ کا استعمال کر کے دہشت گردوں کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور حمایت بھی جاری رکھتے ہیں۔ اس قسم کے بیانیے کے حامل گروہوں نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور پاکستان کے عوام میں نظریاتی خلفشار اور ابہام پیدا کیا۔ افواج پاکستان دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اتنے برسوں میں سرکاری مشینری، اداروں، سیاسی ومذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور گروپوں نے دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ان کے مالی مددگاروں اور انھیں معلومات فراہم کرنے والے آلہ کاروں کو جاننے، پہچاننے اور ان کے خلاف کارروائی ممکن بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟

فوجی آپریشن اس مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہے لیکن جب تک سویلین حکومت اور عوامی ادارے دہشت گردوں اور انتہاپسندی کے خلاف دوٹوک مؤقف اختیار نہیں کریں گے، دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ممکن نہیں ہے۔ فوج کی تربیت دشمن سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے اصول پر کی جاتی ہے لیکن نظریاتی بنیادوں پر دہشت گردوں کو شکست دینا سیاسی جماعتوں، مذہبی جماعتوں، اہل علم، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی اولین اور حتمی ذمے داری ہوتی ہے۔

فوج اتنا تو کر سکتی ہے کہ کسی جگہ موجود دہشت گردوں کو گرفتار یا ختم کر کے علاقے کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کروا لے ، لیکن جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والی وجوہات باقی رہیں گی، یہ مسئلہ بھی باقی رہے گا۔

کچھ عرصہ قبل بنوں میں ''سی ٹی ڈی '' کی عمارت پر دہشت گردوں قبضہ کر لیا تھا۔ دنیا حیران تھی کہ سیکیورٹی فورس کی عمارت پر 25 سے 30 دہشت گردوں نے کیسے قبضہ کر لیا اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا اور لوگوں کو یرغمال بنا لیا اور بعد میں جب افواج پاکستان اور اداروں نے ان کا گھیراؤ کیا تو وہ یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان کو افغانستان فرار ہونے کے لیے کھلا راستہ مہیا کیا جائے جس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ افغان طالبان حکومت اس کارروائی میں شامل ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔

سابقہ حکومت کی نرم پالیسی سے فائدہ اٹھا کر کچھ طالبان اگست 2022میں باجوڑ، دیر اور سوات میں داخل واپس آ گئے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تنظیم سازی پر بھرپور توجہ دی۔ اب تک ان کی یہ کوشش ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کریں تاکہ ریاست کو زمین بوس کیا جا سکے۔ کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے، جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔

پاکستان مخالف قوتیں ملک میں شرپسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں، پہلے مرحلے میں معیشت کو تباہ کرنا تاکہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے اور عالمی معاشی نظام سے کٹ جائے، خاکم بدہن ایسا ہو جائے تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ صورت حال دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کے لیے آئیڈیل ہو گی۔

ملکی قوانین میں ضروری قانون سازی نہایت اہم ہے جس کے ذریعے دہشت گردوں کو گرفتار کر کے فوری سزائیں دی جاسکیں۔ بِلاتخصیص تمام مذہبی مدارس کے نصاب اور ملک بھر کے نصابِ تعلیم میں بعض تبدیلیاں لانا ناگزیرہو چکی ہیں۔

دہشت گرد حملہ کرنے سے پہلے شہری علاقوں میں کئی کئی روز قیام کرتے ہیں۔ کوئی پراپرٹی ڈیلر کمیشن کے لالچ میں اور کوئی نہ کوئی مالک مکان چند سو روپے زیادہ کرایہ کے لالچ میں بغیر تحقیق کیے ان ملک دشمن عناصر کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے۔ شاید ہمارے خیال میں یہ جنگ یا تو پولیس اور ایجنسیوں کی ذمے داری ہے یا فوج کی۔ ان کی ذمے داری اپنی جگہ لیکن جب تک عوام میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا کہ دہشت گرد کسی کے دوست نہیں ہیں، اس وقت تک دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کامیاب نہیں ہو گا۔
Load Next Story