ادرک کی جمع پوچھی تو ادراک بتایا
اُردو زبان اپنی گوناگوں محاسن ہی سے کشش کی حامل ہے۔ یہ زبان جتنی نازک ہے اتنی ہی قوی بھی
جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی) کے سابق پروفیسر خالد محمود معروف ہی نہیں ایک امتیازی تشخص کے حامل ادیب و شاعر بھی ہیں۔
اخبار کے لیے انھوں نے ایک انٹرویو میں پندرہ برس قبل بتایا تھا،جب میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو اسی دوران ایک بزرگ رشتے دارخاتون کا میرے گھرآنا ہوا اور انھوں نے میرے اِرد گرد اُردو کی کتابیں بکھری ہوئی دیکھیں تو اُن کی زبان سے برجستہ جو جملہ نکلا وہ ناقابلِ فراموش ہے، کہنے لگیں۔
''ابھی تک تم اُردو ہی میں پڑے ہوئے ہو؟''
مندرجہ بالااس جملے میں اُردو زبان ، اپنے ادب وغیرہ کے تعلق سے ہمارے ہاں کس درجہ احساسِ کمتری مخفی ہے۔
''اُردو مَر رہی ہے۔''
درج بالا یہ جملہ حال ہی میں بھارتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر اور سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل کَپل سبل نے کہا، جو سوشل میڈیا پر بے طرح وائرل ہوا، اس جملے کا پس منظر یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک بحث کے دوران ایک وکیل نے مشہور شاعربشیر بدر کا یہ شعرپڑھا تھا۔
مَیں چُپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں
وہ بھی سُنا ہے اُس نے جو میں نے کہا نہیں
ایسا نہیں کہ یہ شعر خوانی کسی بڑے ادارے میں پہلی بار ہوئی، ہماری پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی میں یہ' بیت بازی' گاہے گاہے ہوتی رہتی ہے۔ یہ شعر ایک غیرمسلم وکیل نے پڑھا تھا، جس پر سپریم کور ٹ کے جج نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ شعر اقبال کا ہے؟
ان باتوں سے یہ تو واضح ہے کہ ہمارے بڑے اور اہل علم حضرات اُردو زبان اور اس کی شاعری وغیرہ سے کس قدر واقف ہی نہیں بلکہ اس کی کشش اور قوت کے زیر اثر ہیں مگر وہ جو بات کپل سبل نے کہی وہ بعض افراد کو عجب لگی بلکہ ان کا ردِ عمل بھی شدید تھا مگر زمینی سطح پر غائر نظر کی جائے تو کپل سبل کی بات حقائق سے دور نہیں، البتہ ہمارے بعض حضرات اس جنون میں مبتلا ہیں کہ اگر کسی نے اسے مُردہ کہا تو اس کی گردن ناپ دی جائے گی۔ یعنی کہیے مت بلکہ اس کی لاشوںکی تعداد بڑھاتے رہیے ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دہلی میںجامعہ ملیہ اسلامیہ مسلمانوں کی بنائی ہوئی ایک اہم یونیورسٹی ہے، جس سے متعلق کوئی ستّر سا لہ قدیم ایک اُردو اشاعتی ادارہ بھی ہے جس کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے، یہ ادارہ ''مکتبہ جامعہ لمیٹڈ'' کے نام سے ہند ہی میں نہیں پاکستان کے علمی حلقوں میں بھی معروف ہے، دہلی کے ساتھ جس کی علی گڑھ اورممبئی جیسے شہروں میںبرانچیںہیں، ا س ادارے نے نہ جانے کتنی کلاسک اور دور ِجدیدکی بیشمار اُردو کی ادبی کتابیں چھاپی ہیں،اِسی اُردو ادارے سے ' کتاب نما' جیسا موقر ماہنامہ بھی شایع ہوتا ہے، اب افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اس کے حالات بتا رہے ہیں کہ عجب نہیں کہ یہ ادارہ عنقریب بند ہوجائے کہ اس میںبرسہا برس سے کام کرنے والے باقاعدہ ملازمین کی تنخواہیں کوئی ڈیڑھ برس سے ادا نہیں ہو سکی ہیں،دیگر اداروں کے بھی حالات کچھ' یوں ہی ' سے ہیں۔
ہماری عمر کے لوگ ممبئی کے چالیس پچاس برس اُدھر کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ یہاں کیا مسلم اور کیا غیرمسلم علاقوں میں قوالی اور مشاعرے ایک عام سی بات تھی، اُس زمانے کا معمولی سا آدمی بھی شعر و ادب کا اعلیٰ فہم رکھتا تھا یا نہیں مگراُس کا ذوق مسلمہ تھا، کوئی ساٹھ برس اُدھر قوالی کی ایک محفل یاد آتی ہے جس میں اُس دَور کے قوالوں کی مشہور جوڑی 'شنکر شمبھو' اپنے کلاسک فن سے محفل لوٹ رہے تھے کیا خاص، کیا عام اُن کے شعری انتخاب اور ان کی گائیکی پر سَر دُھن رہا تھا ، شارق اَیرا یانی کی غزل کا مطلع تھا:
احسان ِ ناخدا سے طوفاں بُرا نہیں ہے
ممنون ِ غیر ہونا کیا ڈوبنا نہیں ہے!
اب دورِ حاضر میں عام کیا، خواص کی زبان سے بھی ہم '' ممنون ِ غیر ہونا'' نہیں سنتے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ ایسی زبان سے لطف لینے والے وقت کے تغیر و تبدل میں ڈوب گئے، بلکہ نئی نسل میں ''ممنون ِ غیر '' کے سمجھنے والے بھی شاید و باید ہی ملیں۔
اُردو زبان میں ایک دونہیں نجانے کتنے ہنود گزرے ہیں جو اسلام کے رموز و نکات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس کے خاصے عالم بھی تھے، آنجہانی مالک رام کی شخصیت اُردو کے محقق اور ادیب کے طور پرمسلمہ تھی وہ اپنی وضع قطع اور روزمرہ میں ایک مثالی اُردو شخص تھے۔ جس نے اُنھیں صرف دیکھا اور سُنا وہ انھیں مالک رام نہیں بلکہ ایک نظر میں مالک الدین ہی سمجھتا تھا ، اُن کی چالیس اُردو کتابوں میں سے صرف تین کے نام ہم درج کر رہے ہیں :اسلامیات۔المرآ فی الاسلام ،عورت اور اسلامی تعلیم۔ مسلمانوں میں ہندو دھرم اور ہندی و سنسکرت کے جاننے والوں کی بھی کئی مثالیں ہیں جن کا ذکر پھر کبھی۔ اپنی اخباری ملازمت کا بیس برس پرانا واقعہ بھی یہاںبیان ہوتا ہے کہ ایک دن ہمارے دو سینئر سب ایڈیٹرز کسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، ہم اِن دونوں کی پشت پر بیٹھے کام کر رہے تھے کہ ایک نے دوسرے سے کہا: ''ارے بھئی! وہ تو غَبِی تھا۔''
دوسرے نے پہلے والے سے ذرا حیرانی اور ماتھے پر تیوریوں کے ساتھ پوچھا:'' غبی... کاکیا مطلب؟'' پہلے وا لا(یعنی جس نے کہا تھا کہ''ارے بھئی! وہ تو غَبِی تھا...'') ہماری طرف پلٹ کر یہ کہتے ہوئے تیزی سے دفتر سے باہر نکل گیا :
''ندیم صاحب ! یہ بھی غبی ہے۔''
اُردو زبان اپنی گوناگوں محاسن ہی سے کشش کی حامل ہے۔ یہ زبان جتنی نازک ہے اتنی ہی قوی بھی ، چونکہ اس کی بنیاد میں عربی اور فارسی جیسی بلیغ زبانیں اپنے تمام رنگ و رنگینی اور نزاکت و قوت کے ساتھ موجود ہیں، سو، اس زبان کے شاعر،ادیب، اُستاد اورصحافی کو عربی و فارسی کی شُد بُد ضرور ہونی چاہیے ورنہ ہم '' غبی'' جیسی پھبتی کے مستحق ہونگے۔
دیکھیے کسی شاعر نے اُردو زبان کی نزاکت ہی کو تصویر نہیں بنایا بلکہ خواص اور نام نہاد اُستادوں کی بھی خبر لی ہے ۔
اُستاد بنے آپ مگر خاک بتایا
ادرک کی جمع پوچھی تو ادراک بتایا
اخبار کے لیے انھوں نے ایک انٹرویو میں پندرہ برس قبل بتایا تھا،جب میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو اسی دوران ایک بزرگ رشتے دارخاتون کا میرے گھرآنا ہوا اور انھوں نے میرے اِرد گرد اُردو کی کتابیں بکھری ہوئی دیکھیں تو اُن کی زبان سے برجستہ جو جملہ نکلا وہ ناقابلِ فراموش ہے، کہنے لگیں۔
''ابھی تک تم اُردو ہی میں پڑے ہوئے ہو؟''
مندرجہ بالااس جملے میں اُردو زبان ، اپنے ادب وغیرہ کے تعلق سے ہمارے ہاں کس درجہ احساسِ کمتری مخفی ہے۔
''اُردو مَر رہی ہے۔''
درج بالا یہ جملہ حال ہی میں بھارتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر اور سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل کَپل سبل نے کہا، جو سوشل میڈیا پر بے طرح وائرل ہوا، اس جملے کا پس منظر یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک بحث کے دوران ایک وکیل نے مشہور شاعربشیر بدر کا یہ شعرپڑھا تھا۔
مَیں چُپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں
وہ بھی سُنا ہے اُس نے جو میں نے کہا نہیں
ایسا نہیں کہ یہ شعر خوانی کسی بڑے ادارے میں پہلی بار ہوئی، ہماری پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی میں یہ' بیت بازی' گاہے گاہے ہوتی رہتی ہے۔ یہ شعر ایک غیرمسلم وکیل نے پڑھا تھا، جس پر سپریم کور ٹ کے جج نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ شعر اقبال کا ہے؟
ان باتوں سے یہ تو واضح ہے کہ ہمارے بڑے اور اہل علم حضرات اُردو زبان اور اس کی شاعری وغیرہ سے کس قدر واقف ہی نہیں بلکہ اس کی کشش اور قوت کے زیر اثر ہیں مگر وہ جو بات کپل سبل نے کہی وہ بعض افراد کو عجب لگی بلکہ ان کا ردِ عمل بھی شدید تھا مگر زمینی سطح پر غائر نظر کی جائے تو کپل سبل کی بات حقائق سے دور نہیں، البتہ ہمارے بعض حضرات اس جنون میں مبتلا ہیں کہ اگر کسی نے اسے مُردہ کہا تو اس کی گردن ناپ دی جائے گی۔ یعنی کہیے مت بلکہ اس کی لاشوںکی تعداد بڑھاتے رہیے ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دہلی میںجامعہ ملیہ اسلامیہ مسلمانوں کی بنائی ہوئی ایک اہم یونیورسٹی ہے، جس سے متعلق کوئی ستّر سا لہ قدیم ایک اُردو اشاعتی ادارہ بھی ہے جس کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے، یہ ادارہ ''مکتبہ جامعہ لمیٹڈ'' کے نام سے ہند ہی میں نہیں پاکستان کے علمی حلقوں میں بھی معروف ہے، دہلی کے ساتھ جس کی علی گڑھ اورممبئی جیسے شہروں میںبرانچیںہیں، ا س ادارے نے نہ جانے کتنی کلاسک اور دور ِجدیدکی بیشمار اُردو کی ادبی کتابیں چھاپی ہیں،اِسی اُردو ادارے سے ' کتاب نما' جیسا موقر ماہنامہ بھی شایع ہوتا ہے، اب افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ اس کے حالات بتا رہے ہیں کہ عجب نہیں کہ یہ ادارہ عنقریب بند ہوجائے کہ اس میںبرسہا برس سے کام کرنے والے باقاعدہ ملازمین کی تنخواہیں کوئی ڈیڑھ برس سے ادا نہیں ہو سکی ہیں،دیگر اداروں کے بھی حالات کچھ' یوں ہی ' سے ہیں۔
ہماری عمر کے لوگ ممبئی کے چالیس پچاس برس اُدھر کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ یہاں کیا مسلم اور کیا غیرمسلم علاقوں میں قوالی اور مشاعرے ایک عام سی بات تھی، اُس زمانے کا معمولی سا آدمی بھی شعر و ادب کا اعلیٰ فہم رکھتا تھا یا نہیں مگراُس کا ذوق مسلمہ تھا، کوئی ساٹھ برس اُدھر قوالی کی ایک محفل یاد آتی ہے جس میں اُس دَور کے قوالوں کی مشہور جوڑی 'شنکر شمبھو' اپنے کلاسک فن سے محفل لوٹ رہے تھے کیا خاص، کیا عام اُن کے شعری انتخاب اور ان کی گائیکی پر سَر دُھن رہا تھا ، شارق اَیرا یانی کی غزل کا مطلع تھا:
احسان ِ ناخدا سے طوفاں بُرا نہیں ہے
ممنون ِ غیر ہونا کیا ڈوبنا نہیں ہے!
اب دورِ حاضر میں عام کیا، خواص کی زبان سے بھی ہم '' ممنون ِ غیر ہونا'' نہیں سنتے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ ایسی زبان سے لطف لینے والے وقت کے تغیر و تبدل میں ڈوب گئے، بلکہ نئی نسل میں ''ممنون ِ غیر '' کے سمجھنے والے بھی شاید و باید ہی ملیں۔
اُردو زبان میں ایک دونہیں نجانے کتنے ہنود گزرے ہیں جو اسلام کے رموز و نکات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس کے خاصے عالم بھی تھے، آنجہانی مالک رام کی شخصیت اُردو کے محقق اور ادیب کے طور پرمسلمہ تھی وہ اپنی وضع قطع اور روزمرہ میں ایک مثالی اُردو شخص تھے۔ جس نے اُنھیں صرف دیکھا اور سُنا وہ انھیں مالک رام نہیں بلکہ ایک نظر میں مالک الدین ہی سمجھتا تھا ، اُن کی چالیس اُردو کتابوں میں سے صرف تین کے نام ہم درج کر رہے ہیں :اسلامیات۔المرآ فی الاسلام ،عورت اور اسلامی تعلیم۔ مسلمانوں میں ہندو دھرم اور ہندی و سنسکرت کے جاننے والوں کی بھی کئی مثالیں ہیں جن کا ذکر پھر کبھی۔ اپنی اخباری ملازمت کا بیس برس پرانا واقعہ بھی یہاںبیان ہوتا ہے کہ ایک دن ہمارے دو سینئر سب ایڈیٹرز کسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، ہم اِن دونوں کی پشت پر بیٹھے کام کر رہے تھے کہ ایک نے دوسرے سے کہا: ''ارے بھئی! وہ تو غَبِی تھا۔''
دوسرے نے پہلے والے سے ذرا حیرانی اور ماتھے پر تیوریوں کے ساتھ پوچھا:'' غبی... کاکیا مطلب؟'' پہلے وا لا(یعنی جس نے کہا تھا کہ''ارے بھئی! وہ تو غَبِی تھا...'') ہماری طرف پلٹ کر یہ کہتے ہوئے تیزی سے دفتر سے باہر نکل گیا :
''ندیم صاحب ! یہ بھی غبی ہے۔''
اُردو زبان اپنی گوناگوں محاسن ہی سے کشش کی حامل ہے۔ یہ زبان جتنی نازک ہے اتنی ہی قوی بھی ، چونکہ اس کی بنیاد میں عربی اور فارسی جیسی بلیغ زبانیں اپنے تمام رنگ و رنگینی اور نزاکت و قوت کے ساتھ موجود ہیں، سو، اس زبان کے شاعر،ادیب، اُستاد اورصحافی کو عربی و فارسی کی شُد بُد ضرور ہونی چاہیے ورنہ ہم '' غبی'' جیسی پھبتی کے مستحق ہونگے۔
دیکھیے کسی شاعر نے اُردو زبان کی نزاکت ہی کو تصویر نہیں بنایا بلکہ خواص اور نام نہاد اُستادوں کی بھی خبر لی ہے ۔
اُستاد بنے آپ مگر خاک بتایا
ادرک کی جمع پوچھی تو ادراک بتایا