آلودہ

ظاہر اور باطن میں فرق رکھنے والا اور ایک سے زیادہ انداز کی زندگیاں گزارنے والا کبھی عادل نہیں ہو سکتا

mjgoher@yahoo.com

عدل کا میدان بڑا وسیع ہے۔ یہ انسان کی تنہائی سے شروع ہو کر میدان حشر تک پھیلا ہوا ہے جو شخص اپنی تنہائی سے عدل نہیں کرتا، وہ زندگی کے معاملات میں کیا عدل کرے گا۔ یعنی کہ خیال عادل نہ ہو تو عدل عادل نہیں ہو سکتا، کبھی نہیں۔

ظاہر اور باطن میں فرق رکھنے والا اور ایک سے زیادہ انداز کی زندگیاں گزارنے والا کبھی عادل نہیں ہو سکتا۔ عادل تو ہمہ وقت اور ہمہ جہت عادل ہے۔ اس کی بات عدالت، اس کی خاموشی عدالت، اس کی گواہی عدالت، اس کے فیصلے عدالت، اس کی زندگی عدالت اور اس کی موت بھی ایک بہت بڑی عدالت ہوتی ہے۔

حکم ہے کہ عدل میں ڈنڈی نہ مارو، حق کو باطل کا لباس نہ پہناؤ، حق بات کا برملا اظہار کرنے سے قطعاً نہ ہچکچاؤ۔ حق حق ہے، اسے بیان ہونا چاہیے۔ حق پر پردہ ڈالنے والے کب تک کتمان کریں گے۔ آخر سورج نے نکل آنا ہے، سچ اور جھوٹ کو ملا کر بولنے والا خوب صورت مکانوں میں عذاب کی زندگی بسر کرتا ہے۔ عدل کرنا صرف خوف خدا اور فضل خدا ہی سے ممکن ہے ورنہ یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔

عادلانہ زندگی بسر کرنا اور لوگوں کے درمیان عدل قائم کرنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ عادل کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقوق اور حدود سے آشنا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا ہے، عادل کے لیے لازم ہے کہ اسے پتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، کس کے بارے میں کہہ رہا ہے، کیوں کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔

کلام کے پیچھے کلیم کی شخصیت چھپی ہوتی ہے۔ عدل یہ ہے کہ کلام کو کلیم کی عظمتوں کے حوالے سے سمجھو، ورنہ یہ تو عام مشاہدہ ہے کہ میٹھی زبانوں میں تقریر کرنے والے سماجی زندگی کی شریانوں میں زہر گھول رہے ہوتے ہیں۔

طرفہ تماشا یہ کہ لوگ سیاست میں معمولی مقام حاصل کرنے کے لیے قرآن کے حوالے دیتے ہیں، احادیث بیان کرتے ہیں، اقبال اور رومی کے فرمودات پیش کرتے ہیں اور عوام کو سبز باغ دکھانے کے لیے فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں۔ مقصد صرف اور صرف ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کیا یہ عدل ہے؟ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ قول و عمل کا تضاد نہیں ہے؟


ہمیشہ سچ بولنے والی زبان مشکل کے لمحات میں بھی سچ ہی بولے گی عدل کرنے والے اپنی گفتگو اپنے عمل اور اپنے فیصلوں میں بھی ہمیشہ عدل کرتے ہیں، کسی منصف کے لیے عدل صرف ایک فیصلے کا نام نہیں بلکہ عدل اس کے نزدیک پوری زندگی کا نام ہے۔ اس کی زبان ہمیشہ عدل بولتی ہے، گھر ہو یا عدالت، وہ صرف عدل کرتا ہے۔ عادل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھ جائے تاکہ خیالات کے آنے اور جانے کا اسے لمحہ لمحہ علم ہوتا رہے کہ یہی عدل کا تقاضا ہے۔

ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ زندگی کے کسی شعبے میں عدل نظر نہیں آتا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیاست سے عدالت تک، صحافت سے تجارت تک اور قیادت سے امامت تک قومی نظام زندگی کا ہر شعبہ عدل کا متضاد نظر آتا ہے۔ یہاں ہر فرد، ادنیٰ و اعلیٰ اپنی مرضی کا عدل چاہتا ہے، جو اس کے حق میں ہو، اس کے مفادات کا محافظ ہو اور اس کی ذات کو اونچا کر دے وہی فیصلہ اس کے لیے قابل قبول اور وہی اس کے نزدیک ''عدل'' ہے بلکہ نظام عدل کی ''نظیر'' بن جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا نظام سیاست بری طرح اس ''لت'' میں مبتلا ہو چکا ہے، اگر سیاست میں عدل آجائے تو ملک کے ہر گوشے میں امن قائم ہو جائے، یہ ہلچل، بے یقینی، بے چینی، آئین و قانون شکنی اور منافقانہ و منتقمانہ طرز عمل کا خاتمہ ہو جائے، لیکن یہاں کا باوا آدم نرالا ہے، ہمارے سیاسی بابے، عدل کے خوگر نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست میں سب کچھ جائز ہے، کبھی ''ادھر ہم اُدھر تم'' کا نعرہ اور اب ''ہم نہیں یا تم نہیں'' کا تازہ بیانیہ سیاست، صحافت، عدالت اور قیادت کو آلودہ اور رسوا کر رہا ہے۔

قدرت کا بھی ایک نظام انصاف ہے جسے ہم بھول چکے ہیں۔ جب کوئی معاشرہ باغی اور مجرم ہو جائے تو اسے تباہ کردیا جاتا ہے۔ پرانی امتیں اسی طرح نیست و نابود ہو گئیں، کسی کو آواز نے آ لیا، کوئی آندھی کی زد میں آگیا، کسی کو رعد، کسی برق کا عذاب دیا گیا، کسی کو زمین نگل گئی اور کسی کو آسمان کھا گیا۔

سارے واقعات، تاریخی حقائق اور حالات نظر کے سامنے ہونے کے باوجود ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا۔ حضرت علیؓ کا قول صادق ہے کہ معاشرہ کفر پر تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن عدل کے بغیر نہیں۔ انصاف کی فراہمی کے بغیر ہر معاشرے میں بے چینی، بے یقینی اور انتشار و افراتفری کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔

اس پہ مستزاد جب عدالتی فیصلوں اور منصفوں کے کردار پر سوالیہ نشانات لگ جائیں اور ایوان عدل میں بھی تقسیم اور خلیج پیدا ہو جائے اور معاملات اس حد تک سنجیدہ ہو جائیں کہ جب محترم و معزز ججز صاحبان ایک ہی بینچ میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے خلاف اختلاف رائے کی حدود و قیود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صریحاً احکامات صادر فرمانے لگیں تو پھر ان کے فیصلوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

آئینی و قانونی موشگافیوں کا دروازہ کھل جاتا ہے، بحث و تکرار کا ایک ایسا محاذ کھل جاتا ہے کہ پھر ہر آئینی، قانونی اور سیاسی ''ماہر'' اپنی اپنی عینک سے عدالتی فیصلوں و احکامات کے بخیے ادھیڑنے لگتا ہے۔ یہی سب کچھ گزشتہ 70 سالوں سے ہو رہا ہے اور آج اس طرز عمل شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ آج ہمارا آئین، قانون، انصاف، عدالت، صحافت اور سیاست سب تضادات سے آلودہ ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے کے گندے کپڑے اعلانیہ بیچ چوراہے پر دھو رہے ہیں۔
Load Next Story