عروج کو زوال ہے
یہ لوگ اس فانی زندگی میں کتنا عرصہ جئیے، 5 سال، 10 سال، 20 سال،100سال؟ اور پھر سب کچھ ختم
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھر مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا، بھینسا بیل شتر کیا کوئی پلا سر بھارا
کیا گیہوں، چاول، موٹھ مٹر کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زر
جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر
نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن
ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن
اس جنگل میں پھر آہ نظیر اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
سید ولی محمد نظیر اکبر آبادی کی یہ نظم انسان کی بے ثباتی کے حوالے سے اس قدر حقیقت مندانہ ہے کہ ہر دور کی عکاسی خوبصورتی کے ساتھ کرتی نظر آتی ہے آج کے دور کے لیے نشان عبرت ہے، صاحب اختیار اور مقتدر حضرات ہمیشہ سے سچ کے چہرے پر کالک ملتے چلے آ رہے ہیں مگر وہ جھوٹ کی ملمع کاری میں ناکام رہے۔
یہ لوگ اس فانی زندگی میں کتنا عرصہ جئیے، 5 سال، 10 سال، 20 سال،100سال؟ اور پھر سب کچھ ختم، اندھیری کوٹھڑی اور سیاہ نامۂ اعمال، بس پھر کیا دوزخ کی کھڑکی کھلے گی، بھڑکتی ہوئی آگ، سانپ بچھو اس کا استقبال کریں گے وہ دروغ گو شخص مدد کو پکارے گا، لیکن اس کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں ہوگا بالکل اسی طرح جب اس نے دنیا میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا اور وہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس خوبصورت اور پرکشش دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے، موت اسے نہیں آئے گی، وہ حساب کتاب سے بری الذمہ ہوگا۔ وہ جس قدر ظلم کرلے کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے، بہت جلد ظالم اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات نشان عبرت بنے ہوئے ہیں ابواحمدالمستعصم باللہ بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے، وہ بغداد کا حاکم تھا، لیکن یہ اس کی بدنصیبی ہی تھی کہ اس کے ارد گرد جمع ہونے والے اس سے مخلص نہیں تھے اس کا وزیر محمد بن علقمی اس سے خصوصی دشمنی رکھتا تھا لہٰذا اس نے مستعصم کو اپنی چالاکی اور چاپلوسی کی بنا پر غلط مشورے دینا شروع کردیے، اس نے ملک کو کمزور کرنے کے لیے فوج کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور یہ کام مستعصم کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا۔
مستعصم مکار وزیر پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کیا کرتا تھا اس نے وزیر سے یہ بھی کہنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ فوج کو ہٹانے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ دوسرے ذرایع سے دولت حاصل کریں اور وہ دولت تاتاریوں سے مدافعت کے کام آئے گی۔ چونکہ کسی بھی ملک کی حفاظت کے لیے فوج کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
مستعصم عیش پسند حکمران تھا، سیر و تفریح اور ناچ گانے کا رسیا امور سلطنت سے ناواقف اور اپنے مخالفین سے بے خبر اسی وجہ سے جو اسے بتایا جاتا وہ من و عن یقین کرلیتا، اس کے وزیر محمد بن علقمی نے اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھایا اس کی ایک خاص وجہ ابن علقمی خلافت بغداد سے تعصب رکھتا تھا مزید نفرت اس وقت اور بڑھی جب بغداد میں فتنہ انگیزی اختلاف جنگ و جدال سے حکومت کا سارا نظام ابتر ہو گیا، عباسی حکومت کی آمدنی اتنی کم ہوگئی کہ اس کے مصارف پورے ہونے مشکل ہو گئے۔
مستعصم باللہ نے ابن علقمی کے غلط اور منافقانہ مشوروں پر آنکھ بند کرکے عمل کیا اور فوج کے ایک حصے کو برخاست کر دیا اور باقی فوج اور دوسرے عمال حکومت کی تنخواہوں کے مصارف تاجروں اور کاشتکاروں پر پھیلا دیے اس عمل سے حالات مزید خراب ہوگئے، مختلف فرقوں کے درمیان نفرت بڑھتی چلی گئی اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے نئے نئے طریقے استعمال کیے جانے لگے۔
مستعصم کو یہ بات ناگوار گزری کہ اس کے مذہب کے لوگوں کو علقمی کی شے پر تنگ کیا جا رہا ہے چنانچہ اس نے بھی اپنے بیٹے ابوبکر اور امیر نوالدین کو بھیج کر کرخ کا محلہ لٹوا دیا۔ ابن علقمی نے اس واقعے کے بعد عباسی حکومت کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیا چنانچہ اس نے عباسی فوج کے بقیہ حصے کو بھی مستعصم کو اعتماد میں لے کر فارغ کردیا کہ اس عمل سے جو پیسہ بچے گا وہ تاتاریوں کی مدافعت کی مد میں کام آئے گا۔ جیسے ہی ملک بے آسرا اور کمزور ترین ہو گیا اس نے مختلف ذرایع سے تاتاریوں کو بغداد پر حملے کی دعوت دی۔
بغداد کی اہمیت اسلامی حکومت کی وجہ سے مسلم تھی مسلمانوں کو اس سے مذہبی عقیدت حاصل تھی، خلافت عباسیہ کے مذہبی تقدس نے ہلاکو خان کو خوف زدہ کیا ہوا تھا وہ اس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا لیکن علقمی اپنے دوسرے ذرایع کو آزما رہا تھا، اس نے مشہور فلسفی اور عالم ریاضی خواجہ ریاض الدین طوسی کے ذریعے اپنے مقصد کو کامیابی میں بدل دیا اور زور کا رن پڑا بغداد میں فوج نہ ہونے کی وجہ سے تاتاریوں کا پلڑا بھاری رہا۔تاتاریوں نے بچی کچھی فوج تہ تیغ کردی اور بغداد کا محاصرہ کرلیا۔
ابن علقمی نے ہلاکو سے اپنی جان کی بخشش کا وعدہ لیا اس نے مستعصم اور اس کے ساتھیوں جن میں بغداد کے علما فقہا و مدرسین اکابرین داعیان کو اس بات کا یقین دلا یا کہ ان کی جانیں سلامت رہیں گی اور خلیفہ کا منصب برقرار رہے گا، ساتھ مستعصم کے بیٹے ابوبکر سے ہلاکو خان اپنی بیٹی کی شادی کردے گا۔ تاتاریوں نے اس وقت علما دین کو بے دردی سے قتل کردیا اور مستعصم کو تشدد کرکے اس کی لاش کو پیروں سے مثلہ کردیا۔
اس کے بعد وحشی تاتاری بغداد میں پھیل گئے اور کئی دنوں تک قتل عام جاری رکھا، تاتاریوں نے اس عظیم شہر کو لوٹ کر کھنڈر بنادیا، اس سلسلے میں ابن خلدون کا بیان ہے کہ صرف شاہی محلات سے انھوں نے جتنی دولت اور جس قدر ساز و سامان لوٹا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، عباسی حکومت کی تمام کتابوں کو دجلہ میں ڈبو دیا، مقتولین کی تعداد سولہ لاکھ تھی۔ دولت پیسے کی چاہت ہمیشہ ذلت اور عبرت ناک موت سے ہمکنار کرتی ہے۔
تاریخ کے یہ واقعات ایسے ہیں جن سے دانا، عاقل وبالغ سبق حاصل کرسکتا ہے، آج ہمارا ملک انارکی، قتل و غارت اور بربریت کی حالت میںہے ، گرانی سے بچنے کے لیے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اپنے معصوم بچوں کو زہر دے رہے ہیں، اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں حکومت وقت کا فرض تو یہ تھا کہ شہریوں کو بنیادی ضرورتیں مہیا کرتے جس میں پانی،بجلی، گیس، تعلیم اور علاج و معالجہ شامل تھا۔
سرکاری اسکولوں میں تعلیم مفت اور اسپتالوں میں مفت علاج لیکن یہ تو ہو نہیں سکا بلکہ زندہ رہنے کے لیے پیٹ کا ایندھن ضروری تھا، وہ بھی چھین لیا گیا۔ اب اگر حکومت آٹا مفت فراہم کر رہی ہے تو اس کا طریقہ کار قابل افسوس ہے، بے چارے بھوکے، پیاسے مرد و خواتین دھوپ میں قطار لگانے پر مجبور ہیں اور جب آٹا مطلوبہ جگہ پر پہنچتا ہے تو بھگدڑ مچ جاتی ہے، آٹے کی طالب وہ خواتین جو معصوم بچوں کی مائیں تھیں، بھائیوں کی بہنیں تھیں رش اور دھکم پیل کے باعث پیروں تلے کچلی گئیں اور عورت جو وفا اور محبت کا نام ہے اپنے گھر کے فاقہ کش لوگوں کی خاطر جان سے گئیں۔ کس قدر عبرت ناک حالات ہیں جو ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، وہاں یہ محرومی اور ستم؟
اقتدار کی کرسی پر ہمیشہ کوئی نہیں بیٹھ سکا ایک دن اترنا ضرور ہوتا ہے، بہتر یہی ہے کہ حق دار کو اس کا حق دے کر عزت کے ساتھ رخصت ہو جائے، ہونا تو یہی ہے ''سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا'' زندگی تو ہوتی ہی مختصر ہے، سب کچھ ادھر ہی رہ جائے گا۔
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا، بھینسا بیل شتر کیا کوئی پلا سر بھارا
کیا گیہوں، چاول، موٹھ مٹر کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زر
جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر
نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن
ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن
اس جنگل میں پھر آہ نظیر اک تنکا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
سید ولی محمد نظیر اکبر آبادی کی یہ نظم انسان کی بے ثباتی کے حوالے سے اس قدر حقیقت مندانہ ہے کہ ہر دور کی عکاسی خوبصورتی کے ساتھ کرتی نظر آتی ہے آج کے دور کے لیے نشان عبرت ہے، صاحب اختیار اور مقتدر حضرات ہمیشہ سے سچ کے چہرے پر کالک ملتے چلے آ رہے ہیں مگر وہ جھوٹ کی ملمع کاری میں ناکام رہے۔
یہ لوگ اس فانی زندگی میں کتنا عرصہ جئیے، 5 سال، 10 سال، 20 سال،100سال؟ اور پھر سب کچھ ختم، اندھیری کوٹھڑی اور سیاہ نامۂ اعمال، بس پھر کیا دوزخ کی کھڑکی کھلے گی، بھڑکتی ہوئی آگ، سانپ بچھو اس کا استقبال کریں گے وہ دروغ گو شخص مدد کو پکارے گا، لیکن اس کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں ہوگا بالکل اسی طرح جب اس نے دنیا میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تھا اور وہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس خوبصورت اور پرکشش دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے، موت اسے نہیں آئے گی، وہ حساب کتاب سے بری الذمہ ہوگا۔ وہ جس قدر ظلم کرلے کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے، بہت جلد ظالم اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات نشان عبرت بنے ہوئے ہیں ابواحمدالمستعصم باللہ بھی اسی تاریخ کا حصہ ہے، وہ بغداد کا حاکم تھا، لیکن یہ اس کی بدنصیبی ہی تھی کہ اس کے ارد گرد جمع ہونے والے اس سے مخلص نہیں تھے اس کا وزیر محمد بن علقمی اس سے خصوصی دشمنی رکھتا تھا لہٰذا اس نے مستعصم کو اپنی چالاکی اور چاپلوسی کی بنا پر غلط مشورے دینا شروع کردیے، اس نے ملک کو کمزور کرنے کے لیے فوج کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور یہ کام مستعصم کو اعتماد میں لینے کے بعد کیا گیا۔
مستعصم مکار وزیر پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کیا کرتا تھا اس نے وزیر سے یہ بھی کہنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ فوج کو ہٹانے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ دوسرے ذرایع سے دولت حاصل کریں اور وہ دولت تاتاریوں سے مدافعت کے کام آئے گی۔ چونکہ کسی بھی ملک کی حفاظت کے لیے فوج کا ہونا نہایت ضروری ہے۔
مستعصم عیش پسند حکمران تھا، سیر و تفریح اور ناچ گانے کا رسیا امور سلطنت سے ناواقف اور اپنے مخالفین سے بے خبر اسی وجہ سے جو اسے بتایا جاتا وہ من و عن یقین کرلیتا، اس کے وزیر محمد بن علقمی نے اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھایا اس کی ایک خاص وجہ ابن علقمی خلافت بغداد سے تعصب رکھتا تھا مزید نفرت اس وقت اور بڑھی جب بغداد میں فتنہ انگیزی اختلاف جنگ و جدال سے حکومت کا سارا نظام ابتر ہو گیا، عباسی حکومت کی آمدنی اتنی کم ہوگئی کہ اس کے مصارف پورے ہونے مشکل ہو گئے۔
مستعصم باللہ نے ابن علقمی کے غلط اور منافقانہ مشوروں پر آنکھ بند کرکے عمل کیا اور فوج کے ایک حصے کو برخاست کر دیا اور باقی فوج اور دوسرے عمال حکومت کی تنخواہوں کے مصارف تاجروں اور کاشتکاروں پر پھیلا دیے اس عمل سے حالات مزید خراب ہوگئے، مختلف فرقوں کے درمیان نفرت بڑھتی چلی گئی اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے نئے نئے طریقے استعمال کیے جانے لگے۔
مستعصم کو یہ بات ناگوار گزری کہ اس کے مذہب کے لوگوں کو علقمی کی شے پر تنگ کیا جا رہا ہے چنانچہ اس نے بھی اپنے بیٹے ابوبکر اور امیر نوالدین کو بھیج کر کرخ کا محلہ لٹوا دیا۔ ابن علقمی نے اس واقعے کے بعد عباسی حکومت کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیا چنانچہ اس نے عباسی فوج کے بقیہ حصے کو بھی مستعصم کو اعتماد میں لے کر فارغ کردیا کہ اس عمل سے جو پیسہ بچے گا وہ تاتاریوں کی مدافعت کی مد میں کام آئے گا۔ جیسے ہی ملک بے آسرا اور کمزور ترین ہو گیا اس نے مختلف ذرایع سے تاتاریوں کو بغداد پر حملے کی دعوت دی۔
بغداد کی اہمیت اسلامی حکومت کی وجہ سے مسلم تھی مسلمانوں کو اس سے مذہبی عقیدت حاصل تھی، خلافت عباسیہ کے مذہبی تقدس نے ہلاکو خان کو خوف زدہ کیا ہوا تھا وہ اس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا لیکن علقمی اپنے دوسرے ذرایع کو آزما رہا تھا، اس نے مشہور فلسفی اور عالم ریاضی خواجہ ریاض الدین طوسی کے ذریعے اپنے مقصد کو کامیابی میں بدل دیا اور زور کا رن پڑا بغداد میں فوج نہ ہونے کی وجہ سے تاتاریوں کا پلڑا بھاری رہا۔تاتاریوں نے بچی کچھی فوج تہ تیغ کردی اور بغداد کا محاصرہ کرلیا۔
ابن علقمی نے ہلاکو سے اپنی جان کی بخشش کا وعدہ لیا اس نے مستعصم اور اس کے ساتھیوں جن میں بغداد کے علما فقہا و مدرسین اکابرین داعیان کو اس بات کا یقین دلا یا کہ ان کی جانیں سلامت رہیں گی اور خلیفہ کا منصب برقرار رہے گا، ساتھ مستعصم کے بیٹے ابوبکر سے ہلاکو خان اپنی بیٹی کی شادی کردے گا۔ تاتاریوں نے اس وقت علما دین کو بے دردی سے قتل کردیا اور مستعصم کو تشدد کرکے اس کی لاش کو پیروں سے مثلہ کردیا۔
اس کے بعد وحشی تاتاری بغداد میں پھیل گئے اور کئی دنوں تک قتل عام جاری رکھا، تاتاریوں نے اس عظیم شہر کو لوٹ کر کھنڈر بنادیا، اس سلسلے میں ابن خلدون کا بیان ہے کہ صرف شاہی محلات سے انھوں نے جتنی دولت اور جس قدر ساز و سامان لوٹا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، عباسی حکومت کی تمام کتابوں کو دجلہ میں ڈبو دیا، مقتولین کی تعداد سولہ لاکھ تھی۔ دولت پیسے کی چاہت ہمیشہ ذلت اور عبرت ناک موت سے ہمکنار کرتی ہے۔
تاریخ کے یہ واقعات ایسے ہیں جن سے دانا، عاقل وبالغ سبق حاصل کرسکتا ہے، آج ہمارا ملک انارکی، قتل و غارت اور بربریت کی حالت میںہے ، گرانی سے بچنے کے لیے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اپنے معصوم بچوں کو زہر دے رہے ہیں، اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں حکومت وقت کا فرض تو یہ تھا کہ شہریوں کو بنیادی ضرورتیں مہیا کرتے جس میں پانی،بجلی، گیس، تعلیم اور علاج و معالجہ شامل تھا۔
سرکاری اسکولوں میں تعلیم مفت اور اسپتالوں میں مفت علاج لیکن یہ تو ہو نہیں سکا بلکہ زندہ رہنے کے لیے پیٹ کا ایندھن ضروری تھا، وہ بھی چھین لیا گیا۔ اب اگر حکومت آٹا مفت فراہم کر رہی ہے تو اس کا طریقہ کار قابل افسوس ہے، بے چارے بھوکے، پیاسے مرد و خواتین دھوپ میں قطار لگانے پر مجبور ہیں اور جب آٹا مطلوبہ جگہ پر پہنچتا ہے تو بھگدڑ مچ جاتی ہے، آٹے کی طالب وہ خواتین جو معصوم بچوں کی مائیں تھیں، بھائیوں کی بہنیں تھیں رش اور دھکم پیل کے باعث پیروں تلے کچلی گئیں اور عورت جو وفا اور محبت کا نام ہے اپنے گھر کے فاقہ کش لوگوں کی خاطر جان سے گئیں۔ کس قدر عبرت ناک حالات ہیں جو ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، وہاں یہ محرومی اور ستم؟
اقتدار کی کرسی پر ہمیشہ کوئی نہیں بیٹھ سکا ایک دن اترنا ضرور ہوتا ہے، بہتر یہی ہے کہ حق دار کو اس کا حق دے کر عزت کے ساتھ رخصت ہو جائے، ہونا تو یہی ہے ''سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا'' زندگی تو ہوتی ہی مختصر ہے، سب کچھ ادھر ہی رہ جائے گا۔