سوموٹو

تو کیا ایسی سوچ اب اسٹبلشمنٹ کے اندر بھی پیدا ہوئی ہے کہ نہیں ان کو سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے

Jvqazi@gmail.com

میرے اس کالم کے چھپنے تک حالات مزید واضح ہوتے جائیں گے، گو آخری رائونڈ کا شورو غل ابھی رہے گا ، لیکن دکھائی سب ہی دے رہا ہے ، آخر کار خان صاحب کی انارکی دم توڑنے لگی ہے، مگر جو قیمت اس مملکت کو ادا کرنی پڑی ہے، اس کے حجم کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ہم سائوتھ ایشیا ریجن میں ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔

بڑی مشکل سے عدلیہ نے اپنی عزت بنائی تھی،اس وقت جمہوری قوتیں بہت کمزور تھیں، بے نظیر اور نواز شریف جلاوطن تھے۔ پھر وکلاء نکل پڑے، ججوں نے استعفیٰ دے دیے۔ ایل ایف او کے تحت قسم اٹھانے سے انکار کردیا، موقع جان کر جلاوطن قیادت وطن کو لوٹی اور اس جدوجہد میں ہماری بے نظیر نے اپنی جان کا نذرانہ دیا۔

بد نصیبی ہے ہماری کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے اختیارات کے استمال کی اپنی تمام حدیں پار کردیں، سیکڑوں سو موٹو یعنی از خود نوٹس لے لیے گئے۔ مقننہ اور انتظامیہ مفلوج ہو گئی۔ افسران حکومت کو مانتے ہی نہیں تھے، سب ڈرتے تھے کہ عدالت بلا لے گی، آصف علی زرداری صدر تھے جو جنرل ضیاء الحق کے نظریے کے پیرو کاروں کے ساتھ چل رہے تھے۔ یوں انتہا پرستی کا بیانیہ پروان چڑھتا رہا۔

شریف برادران نے خود میمو گیٹ کا آغاز کیا، ہمارے میاں صاحب خود کالا کوٹ پہن کر مدعا بیان کرنے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی پارہ پارہ ہوگیا۔ یہ وہی زمانے تھے جب ایوب خان اور ضیاء الحق کی تیار کردہ اسٹبلشمنٹ عمران خان کو فائنل راؤنڈ کھیلانے کی تیاری کر رہی تھی۔

جب میاں نواز شریف حکومت میں آئے تو ان کو خان صاحب کے ڈی چوک کے دھرنے کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ثاقب نثار کے چیف جسٹس بننے کا انتظار کر رہی تھی۔ سو موٹو ایکشن میں آگیا۔ جتنے سو موٹو (از خود نوٹس) ثاقب نثار نے لیے شاید بعد آنے والوں میں سے کسی نے بھی نہ لیے ہوں۔

بہت سی شکایتیں آنے لگیں، وکیلوں کے رویے کے خلاف، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری میں حکومت کا عمل دخل ختم کردیا گیا بلکہ اس میں پارلیمینٹ کی اہمیت کو بھی بہت کم کردیا گیا اور پھر اس طرح بھی ہوا کہ لوگوں کا آہستہ آہستہ اعتماد یا عزت جو وکیلوں نے اور عدالتوں نے وکلا تحریک میں پائی تھی کم ہونے لگی۔ مگر جو عزت اور وقار عدلیہ نے ثاقب نثار کے زمانے میں گنوایا، پھر نظام عدل کی رسوائی کا جو سامان عمران خان نے پیدا کیا ، اس کی بھی کوئی مثال نہیں۔

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ جو کررہی تھی، وہ بھی ماضی میں نہیں ہوا، اس کی چند جھلکیاں جنرل باجوہ آئے دن منظر پر لاتے رہتے ہیں، جس سے بہت کچھ سمجھ آتا ہے۔ یوں لگتا ہے ہمارے نظام عدل نے خود آئین سے انحراف کیا اور اقتدار کی چادر اوڑھ لی ، یوں عمران خان کی ہائبرڈ حکومت کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔

اب یہ ساری باتیں کھلنے والی ہیں، اسٹیبلشمنٹ سمجھ گئی ہے کہ ملک کو شدید نقصان پہنچا ہے ایسے ایڈونچرز کرنے سے، ایسا دور سجاد علی شاہ کے زمانے میں بھی آیا تھا، اسٹیبلمشنٹ اور سول حکومت کے درمیان لڑائی میں سجاد علی شاہ بھی کود پڑے ، پھر فوج کے سربراہ جہانگیر کرامت پیچھے ہٹ گئے ، صدر فاروق لغاری جو میاں صاحب کے خلاف آرٹیکل 58(2)(b) کا استعمال کرنا چاہتے تھے وہ نہیں کر پائے حالانکہ انھوں نے بے نظیر کی حکومت کے خلاف یہ وار کیا تھا۔ اس وقت چیف جسٹس بھی بڑی حرکت میں آئے تھے، وزیر اعظم کو اپنی عدالت میں کھڑا کردیا ، فاروق لغاری نے جو استعفیٰ دیا تو سپریم کورٹ کی اکثریت چیف جسٹس کو فارغ کرکے بیٹھ گئی۔


ہم آج پھر اس موڑ سے گزر رہے ہیں، عمران خان کے دور کی اسٹیبلشمنٹ کے وہ لوگ جو بااختیار تھے، وہ ریٹائر ہوکر آرام سے نہیں بیٹھے، وہ اب پرائیویٹ انداز میں موجودہ حکومت کو مجبور کر کے صفایا کرنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب جو دو اسمبلیاں تحلیل کر کے بیٹھے ہیں ،وہ اس لیے کہ انارکی ہو، وہ خود 37 سیٹوں پر کھڑے ہوگئے، جب ان کی پارٹی کے بہت سے اراکین قومی اسمبلی کی استعفیٰ منظور کیے گئے۔ جیتنے کے بعد یہ لازم تھا کہ وہ استعفیٰ دیتے سوائے ایک نشست کے۔

یوں کہیے کہ وہ چاہتے تھے کہ افرا تفری کا عالم ہو، جس کو خوب ہمارے باہر بیٹھے مخالفین نے ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں استعمال کیا کہ پاکستان ناکام ریاست ہے، اس کا دیوالیہ ہوگیا ہے ۔

وکیلوں کی من مانیاں ہوں یا پھر بار بار از خود نوٹس ہوں، ان کے خلاف چند سنجیدہ لوگ جو وکلا برادری سے تعلق رکھتے ہیں اب باہر نکل آئے ہیں، لیکن اس وقت کے وکلاء کی طرح نہیں جیسا کہ وکلاء تحریک میں جنرل مشرف خلاف نکلے تھے۔ اس وقت بینچ کو بار کی ضرورت ہے، لیکن بینچ خصوصا سپریم کورٹ جس انداز میں چل رہی ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ آج سپریم کورٹ کے جج صاحبان از خود نوٹس کے خلاف فیصلے صادر کرکے چیف جسٹس کو واضع پیغام دے چکے ہیں کہ ایسے ادارہ نہیں چل سکتا، پے در پے بینچ ٹوٹ رہے ہیں، حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ ایک ایڈمنسٹریٹو آرڈر (سرکولر ) جاری کرکے ججوں کے فیصلے کو رد کیا جا رہا ہے جو انھوں نے سوموٹو کے خلاف دیا تھا۔

پارلیمنٹ عدلیہ کے خلاف نکل آئی ہے اور عدلیہ کے ساتھ کل جو عوام تھے، وکیل تھے، تمام سیاسی پارٹیاں تھیں، آج وہ نہیں ہیں۔ تین ججوں کے بینچ کے جو فیصلے اب آئیں گے ،کیا مقننہ اور انتظامیہ ان پر عمل درآمد کرائے گی ؟

بہرحال پارلیمینٹ اور انتظامیہ ایک طرف ہیں تو عدلیہ دوسری طرف لیکن عدلیہ تقسیم ہے ۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کے حامیان و سرپرست پارلیمنٹ کے ساتھ نہیں ہیں، وہ منقسم عدلیہ میں ایک گروپ کی سوچ کے ساتھ ہیں ۔ اسٹبلشمنٹ اول تو نیوٹرل ہے اور اگر نہیں بھی ہے تو اس کا آئینی و فطری الحاق پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے ساتھ جڑتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس جگہ کھڑی ہے جہاں وہ جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں کھڑی تھی۔

عدلیہ کو یہ دن خان صاحب کی غیرسیاسی، غیرجمہوری سوچ اور جلد بازی کی وجہ سے دیکھنے پڑے ہیں، وہ بہت جلد نتائج چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے نوے دن کے اندر انتخابات والی بات درست ہو لیکن از خود نوٹس لے کر جس طرح سے خان صاحب کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی وہ بالکل غلط ہے ۔ از خود نوٹس (Judicial Activism) کا دوسرا نام ہے۔

ایک ایسا عمل جس کے ذریعے مروج طریقہ کار سے ہٹ کر انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اس عمل سے حقیقی ریلیف ملا ہو بلکہ جمہوریت اور سول ادارے کمزور ہوئے ہیں اور غیر جمہوری قوتیں مضبوط۔ سوموٹو ہے یا خود آرٹیکل 184(3) جس سے اقامہ کا فیصلہ ہوا اور منتخب وزیراعظم کی بساط الٹی گئی، ہائبرڈ نظام، نیم مارشل لاء اس بار ٹرپل ون بریگیڈ نہیں بلکہ آئین کے محافظ لائے، وکلا کی تحریک سے جو یہ طاقت ملی تھی ، وہ سوموٹو کی ٹک ٹکی پر چڑھا دی گئی۔ خود آج عدلیہ کے اندر یہ سوچ بیدار ہوئی ہے کہ اس سو موٹو کو کنٹرول کیا جائے، اسے فرد واحد کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ بھی متحرک ہوئی ہے اور خود سپریم کورٹ بھی۔

تو کیا ایسی سوچ اب اسٹبلشمنٹ کے اندر بھی پیدا ہوئی ہے کہ نہیں ان کو سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ایک خوش آیند عمل ہے، جس سمت یہ ملک چلتا نظر آرہا ہے وہ یقینا دنیا کی مضبوط ریاست بن کے ابھرے گا ،ہمارے ایٹمی طاقت ہونے پر کوئی بھی اس کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا۔
Load Next Story