عمران خاں کی تحریر اور تقدیر

اسداللہ غالب


ایکسپریس July 11, 2012
اسد اللہ غالب

عمران خان کو سمجھنے کے لیے ایک تو اس کی کتاب موجود ہے، دوسرے اس پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، حق میں بھی اور مخالفت میں بھی، عمران اپنی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، کس طرح۔اس پر بحثیں ہوتی رہیں گی، الزامات لگتے رہیں گے، وضاحتیں پیش کی جاتی رہیں گی۔عمران ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، اس کا ظاہر اور باطن ایک ہے، اس نے کبھی کچھ چھپایا نہیں جو اچھا کیا ، اسے سب اچھا کہتے ہیں، کوئی بشری کمزوری ہے تو عمران نے اس پر ہمیشہ ندامت کا اظہار کیا، وہ اس پر کبھی اترایا نہیں ، اس کا جوا زپیش کرنے کے لیے وہ کوئی الٹی سیدھی دلیل نہیں دیتا ۔کہتا ہے اﷲ تعالی گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، ان کا ڈھندوراکیوں پیٹتے ہو۔ن لیگ سب سے زیادہ رد عمل کا اظہار کر رہی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔بات سامنے ہونی چاہیے اور صاف ہونی چاہیے، ن لیگ کے ورکر ، اس کے لیڈر ، ارکان اسمبلی، سینیٹرز سبھی اپنی اچھی بری رائے کے اظہار میں آزاد ہیں۔

کبھی خود میاں نواز شریف اور میاں شہبازشریف بھی بولیں یا لکھیں تو کیا مزہ آ جائے۔مگر یہ بری بات ہے کہ پنجاب کے قومی خزانے سے تنخواہ لینے والے لوگ عمران خان کے خلاف قلم آزمائی کریں ۔یہ کام کرنے کا شوق ہے تو صوبائی حکومت کے عہدے سے استعفے دیں اور ن لیگ کے میڈیا سیل میں شامل ہو جائیں ۔میں نے قلم تو اٹھایا تھا کہ عمران کی کتاب کا حاصل مطالعہ پیش کروں مگر درمیان میں ایک جملہ معترضہ آن پڑا۔عمران کی کتاب کا میں نے کوئی دو مرتبہ مطالعہ کیا ہے، یہ اردو ترجمہ ہے۔ میں نے ابھی اس کی اصل انگریزی کتاب پر نظر نہیں ڈالی۔مگر ترجمہ بے حد رواں ہے، اصل کا گمان گزرتا ہے۔ کتاب پڑھ کر میرا پہلا تائثر یہ ہے کہ اسے کچھ مختصر ہونا چاہیے تھا۔جوباتیں چار سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں ، انھیں دو سو صفحات میں محدود کیا جا سکتا تھا، اختصار ہو تو دلیل میں زیادہ وزن ہوتا ہے۔

اب بھی اس کتاب کا ایک خلاصہ چھاپنے کی ضرورت موجود ہے۔میرا دوسرا تائثر یہ تھا کہ عمران کو اس میں اپنی کمزوریوں کو نہیں اچھالنا چاہیے تھا،ان پر پردہ ہی پڑا رہتا تو بہتر تھا لیکن اب میری رائے بدل رہی ہے ، عمران ایک عام گوشت پوست کا انسان ہے، وہ نہ تو فرشتہ ہے، نہ ولی ، نہ صوفی، نہ فقیر،نہ عالم، نہ زاہد۔بس وہ جو کچھ ہے اس کتاب میں نظر آتا ہے۔اس نے اپنی ذات پر ملمع کاری نہیں کی۔ایک عام آدمی کی طرح پولیس نے پنجاب یونیورسٹی میںاس کا گھیرائو کیا ، پھر اس کے خلاف روائتی ہتھکنڈے آزمائے گئے۔جیل کی کال کوٹھڑی اس کا مقدر ٹھہری، بالکل ایسے جیسے پچھلے دنوں نوجوان ڈاکٹروں کے ساتھ مجرمانہ اور بہیمانہ سلوک کیا گیا، یہ ایک الگ موضوع ہے مگر عمران کی کہانی سے جڑا ہوا ضرور ہے ، عمران نے یہ ظلم دیکھا ہے اوریقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وقت آنے پر وہ کسی کے ساتھ ا یسا ظلم نہیں کرے گا۔کتاب کے صفحات پلٹتے جائیے ،

آپ دیکھیں گے کہ عمران اس احساس کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے کہ ہم شروع ہی میںملک کے اساسی نظرئیے سے ہٹ گئے حالانکہ پاکستان بننے کے بعد ہم اسلامی اصول نافذ کرنے کے لیے آزاد تھے۔ مساوات، سماجی اور اقتصادی انصاف کا خواب ، جمہوریت ، ملائیت نہیں، جیسا کہ قائد اعظم نے کہا تھا، یہ تھے ہمارے خواب مگر وقت کے ساتھ ہم ان سپنوں سے دور ہوتے گئے۔عمران کو دکھ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت پروان نہ چڑھ سکی تھی کہ قائد اعظم انتقال کر گئے۔ملک اپنے محور سے محروم ہو گیا۔ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک افغان نے شہید کیا جو کہ کشمیر میں جنگ بندی کے خلاف تھا۔قاتل کا خیال تھا کہ پاکستان کو جنگ جاری رکھنی چاہیے۔عمران سمجھتا ہے کہ 1947 ہی میں کشمیر کے تنازع پر بھارت سے لڑائی کا آغاز ہو گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ فوج کو اس کے تناسب سے زیادہ اختیار مل گیا اور پنجاب کو بھی۔

دوسری طرف انگریز کی تربیت یافتہ افسر شاہی کو جمہوریت گوارا نہ تھی۔اور پہلا موقع پاتے ہی سول ملٹری افسر شاہی نے جمہوریت کو ٹھوکر مار دی۔1971 کا المیہ طویل فوجی اقتدار کا ثمر تھا۔عمران انڈر 19 ٹیم کے ساتھ ڈھاکا سے آنے والی آخری پرواز سے واپس آیا تھا۔ شکست سے چوبیس گھنٹے پہلے اس کے قبیلے کے جنرل نیازی نے بی بی سی کو انٹرویو دیاکہ آخری آدمی تک مقابلہ کریں گے پھر ہتھیار ڈالنے کا منظر ، اذیت سے دوچار کرنے والی پست ہمتی،اور قلق لے کر آیا۔

عمران کی زندگی میں مذہب کا عمل دخل کیسے ہوا۔وہ خود کہتاہے کہ میرا اسلام اتنا ہی تھا کہ کبھی کبھار مسجد چلا جاتا تھا ۔میری ماں مجھے قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کی تلقین کرتیں تا کہ میں اسے سمجھ پائوں اور اس سے رہنمائی حاصل کروں۔آکسفورڈ میں داخلے کے بعد عمران داخلی کشمکش کا شکار ہو گیا، لاہور اور آکسفورڈ کے ماحول میں بہت فرق تھا ، پھر بھی عمران نے پرانا ماحول برقرار رکھنے کی اپنی سی کوشش کی۔ وہاں ایک بھارتی وکرم مہتہ سے اس کے گاڑھی چھننے لگی۔بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر وہ تکون کی شکل اختیار کر گئے۔ہر اتوار کو تینوں بے نظیر بھٹو کے کمرے میں اکٹھے ہوتے، بے نظیر پنیر اور سینڈ وچ سے تواضع کرتیں۔اور لوگ بھی اس ضیافت میں شریک ہوتے۔بینظیر یونیورسٹی یونین کی صدارت حاصل کرنے کے عزم سے سرشار تھی۔عمران اور وکرم کو الیکشن سے قطعی دلچسپی نہ تھی مگر وہ بے نظیر کی تائید کرتے، اسی کیمپس میں ٹونی بلیئر بھی مقیم تھے ۔

مدتوں بعد اسلام آباد کی ایک تقریب میںٹونی بلیئر نے عمران سے کہا: جناب، تب آپ کو ہماری کوئی پروا نہ تھی۔برطانیہ میں جب عمران اپنی زندگی سنوارنے کی کوشش میں لگے تھے تو پاکستان بھی تبدیلی کے عمل سے دوچار تھا۔بھٹو اقتدار میں آچکے تھے۔انھوں نے اپنی کرشماتی شخصیت کا سارا زور ملک کا وقار بحال کرنے پر صرف کر دیا۔ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک حاکم نے عام آدمی سے کہا کہ اس کی بھی کوئی حیثیت ہے۔بھٹو نے کشمیر کے موضوع پر سلامتی کونسل سے خطاب کیا تو عمران کو اس پر فخر کا احساس ہوا۔جب انھوں نے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔مگر عمران نے بعد میں محسوس کیا کہ بھٹو کی غیر معمولی ذہانت اور کرشماتی شخصیت بھی پاکستان کو دلدل سے نہ نکال سکی۔جنرل ضیاالحق کے ساتھ کرکٹ کے کپتان کے مراسم بہت اچھے تھے۔

جب کوئی میچ جیت جاتے تو جنرل، فون پر عمران سے بات کرتے۔ انھی کی اپیل پر عمران نے کھیل سے ریٹائر منٹ کا فیصلہ واپس لیا مگر جنرل کا اقتدار ختم ہو جانے کے بعد ہی عمران کو اس دور کے تباہ کن اثرات کا اندازہ ہوا۔جنرل محمد ضیا الحق کی بد تریں وراثت یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے مخالف سیاسی گروہوں کی سرپرستی کی گئی۔اور سیاست میںفوج کا رسوخ بڑھا دیا گیا۔یہی وہ زمانہ تھا جس میں نواز شریف ایسالیڈر اُبھرا جو دو بار ملک کا وزیر اعظم رہا ۔عمران کی زندگی میں مایوسیوں نے کئی بار ڈیرہ ڈالا، اس کی انتہا یہ تھی جب اسے پنڈلی پر زخم آیا اور اڑھائی برس تک وہ بائولنگ کے قابل نہ رہا۔وہ بے بسی کا شکار تھا ، سارے سپنے ٹوٹ گئے۔

اس نے گوشہ نشینی اختیار کر لی،اور اسے ایک ذہنی بحران نے آن لیا۔کتنے ہی کھلاڑیوں نے ایسی بے بسی کی کیفیت میں خود کشی کر لی تھی،عمران خاں کا اعتماد بھی متزلزل ہونے لگا۔وہ اپنے آپ سے سوال کرتا : اﷲ جانے اب کیا ہو گا ، کیا میں کبھی کھیل سکوں گا یانہیں، مگر اسی عمران خان نے ایک انگڑائی لی اور اس نے قوم کو ورلڈ کپ جیت کر دکھایا۔عمران نے اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے خود لکھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں