سیاسی بحران تلے دبی ملکی معیشت
دنیا میں اکیلا پاکستان ہی معاشی بحران کا شکار نہیں ہوا ہے بلکہ پوری دنیا مالی مشکلات کا شکار ہوئی ہے
پاکستان میں افراط زر اور مہنگائی کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے' رمضان المبارک میں تمام قسم کی اشیا کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اخباری رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مارچ کے مہینے میں کنزیومر اینفلیشن 35.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اتنی بلند شرح پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے' افراط زر کی شرح میں اس غیرمعمولی اضافے کی وجہ رمضان المبارک میں کھانے پینے کی اشیا اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار یہی تخمینہ بتا رہے ہیں۔
افراط زر اور مہنگائی میں غیرمعمولی اضافے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں' پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بڑھے ہیں۔
ملک کے درآمد کنندگان یہ جواز بھی پیش کرتے ہیں کہ ایل سیز پوری طرح نہ کھلنے کی وجہ سے بھی درآمدی اشیا اور مقامی طور پر تیار ہونے والی اشیا میں درآمدی خام مال نہیں پہنچ رہا جس کی وجہ سے درآمدی اشیا کی قلت بھی ہے اور ان کے نرخ بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
بجلی اور گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی مینوفیکچررز کی پیدا واری لاگت میں اضافہ ہوا ہے' جس کا اثر بھی مارکیٹ پر پڑا ہے۔ مختلف ان ڈائریکٹ ٹیکسز بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔
یہ تو معاشی اور اقتصادی نوعیت کے انڈیگیٹرز ہیں لیکن پاکستان میں معاشی بحران کو سنگین سے سنگین تر بنانے میں سیاسی بحران کا سب سے بڑا حصہ ہے۔
سیاسی جماعتیں سنگین معاشی اشاریوں کی پروا کیے بغیر محاذ آرائی' تشدد اور گھیراؤ جلاؤ کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ نظام عدل سیاسی پس منظر کی حامل آئینی درخواستوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے' ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں آئین اور جمہوریت کے مسلمہ اصولوں پر چلنے کے بجائے اپنے مفادات کو قانونی لبادہ پہنا کر عدالتوں کے پاس پہنچی ہوئی ہیں۔
پے در پے درخواستوں پر بعض فیصلے ایسے آئے ہیں جنھوں نے سیاسی بحران کو کم کرنے کے بجائے مزید گہرا کر دیا ہے۔ انتظامیہ اپنی جگہ مفلوج نظر آتی ہے اور پارلیمنٹ اپنے آئینی کردار کی تلاش میں سرگرداں نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کا آئینی' سیاسی اور معاشی بحران ملک کے عام طبقوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے' اس بحران کا ایک منظر مفت آٹا تقسیم کے مراکز پر عوام کی بھیڑ اور دھکم پیل کی صورت نظرآ رہا ہے' کئی بزرگ اس دھکم پیل میں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں' ادھر نجی سطح پر خیرات تقسیم کے دوران بھی بھیڑ اور دھکم پیل میں کئی جانیں ضایع ہوئی ہیں۔
پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز کو ان دلخراش مناظر بھی متاثر نہیں کرسکے ہیں۔ صدر مملکت کا ادارہ' عدلیہ اور اپوزیشن مغرب کی طرف رخ کیے بیٹھے ہیں جب کہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ مشرق میں کھڑے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اسٹیک ہولڈرز کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہو چکے ہیں' معاملات اب سیاست' آئین اور جمہوریت کے روایتی اتار چڑھاؤ سے الگ ہو کر باقاعدہ مفاداتی جنگ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے' اس صورت حال ہی نے دراصل پاکستان کی معیشت اور کاروبار کو زوال پذیر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے نظام کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔
بہرحال ان تمام مشکلات کے باوجود امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے' معاملات یقیناً کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ ہی جائیں گے' اتحادی حکومت معیشت کے حوالے سے ماضی کی نسبت درست سمت میں کام کر رہی ہے۔
پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے' عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی معاملات ماضی کی نسبت بہتر انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر جلد دستخط ہو جائیں گے۔
دنیا میں اکیلا پاکستان ہی معاشی بحران کا شکار نہیں ہوا ہے بلکہ پوری دنیا مالی مشکلات کا شکار ہوئی ہے' سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے' سری لنکا تو باقاعدہ طورپر ڈیفالٹ کر گیا' اب کہیں جا کے اس ملک کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہوئے ہیں اور اسے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید امداد ملنے کی توقع ہے۔
امریکا اور یورپی ممالک بھی کساد بازاری کا شکار ہوئے ہیں' پاکستان پہلے کورونا کا شکار ہوا ، پھر غیرمعمولی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوںکے نتیجے میں شدید بارشوں اور سیلاب نے زرعی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ گزرے دو ڈھائی برس کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ ادھر ملک میں سیاسی عدم استحکام مسلسل جاری رہا جو اب خاصا سنگین ہو چکا ہے۔
معیشت کو پرانے طریقے سے نہیں چلایا جا سکتا۔ چھوٹے صوبوں کو بھی اپنے لیے ریونیو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ قوم پرستی' روایت پرستی' لسانیت اور صوبائیت کو سیاسی ایجنڈا بنا کر اپنا سارا مالی بوجھ وفاق پر ڈالنے کی سیاست اور روایت ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
اب یہ سیاسی حربے قابل استعمال نہیں رہے ہیں۔ قوم پرستی اور لسانیت مثبت خطوط پر استوار ہونی چاہئیں نہ کہ کسی دوسری ثقافتی اور لسانی قومیت کے خلاف نفرت اور عناد پر استوار کی جائے۔ معیشت کو دستاویزی بنانے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔
چھوٹے صوبوں کے پاس ماضی کے مقابلے میں آج بہت زیادہ اختیارات ہیں۔ ہر قسم کا صوبائی محکمہ اور ملازمین موجود ہیں' ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ نظر آتی ہے کہ چھوٹے صوبوں کا محکمہ ایکسائز اور ٹیکسیشن پوری طرح فعال نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ چلتی ہے لیکن 80فیصد بغیر نمبر پلیٹ کے ہوتی ہیں اور ان کی محکمہ ایکسائز میں رجسٹریشن بھی نہیں ہوتی۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار دھڑلے سے ہو رہا ہے' اس معاملے میں وفاق کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ پاک افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے والی ہر قسم کی موٹر وہیکلز' الیکٹرانکس کا سامان' اور کباڑ کے نام پر مختلف قسم کی مشینری پر کسٹمز ٹیکس وصول کرے۔
پاک افغان سرحد کراس کر کے جو موٹر وہیکلز' الیکٹرانک کا سامان اور کباڑ کی مشینری پاکستانی علاقے میں آئے' کسٹم ادا کرے اور اس کے بعد رجسٹریشن کا کام متعلقہ صوبہ کرے اور قانون کے مطابق صوبہ اپنا ٹیکس وصول کرے' اس طرح چھوٹے صوبوں کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا اور وفاقی حکومت کو بھی ریونیو ملے گا۔
آج ملک شدید مالی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے لیکن حکمران طبقوں نے اب بھی اپنی روش ترک نہیں کی ہے۔ اب بھی سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔
اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین میں اسقام پیدا کرواتے ہیں' ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ڈالر کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی توڑ دیا جاتا ہے۔
موجودہ معاشی اور سیاسی بحران کی ساری ذمے داری پاکستان کی حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان پر ایک سو چھبیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے تیرہ ارب ڈالر درکار ہیں اور ملک کو ضروری امپورٹس کے لیے ہر ماہ پانچ چھ ارب ڈالر درکار ہیں۔
ملکی بحران کے حل کے دو راستے ہیں ایک راستہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے راستے پر جا کر بجٹ میں توازن لانے، ٹیکس ریونیو ہر صورت میں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سبسیڈیز ختم کی جائیں۔ اس سے ملکی معیشت کی رفتار سست ہو گی اور بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔
اس بحران کے خاتمے کا دوسرا حل یہ ہے کہ تمام خیراتی اداروں اور فلاحی تنظیموں پر عوام سے چندہ وصول کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے' بڑے بڑے ٹرسٹ اور وقف پر بھی عوام سے چندہ اکٹھا کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ رمضان المبارک اور عیدین کے ایام میں نجی طور پر خیرات تقسیم کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے' جس امیر آدمی نے خیرات تقسیم کرنی ہے۔
وہ ضلعی انتظامیہ کو اس کے بارے میں مطلع کرے' ضلعی انتظامیہ اپنی نگرانی میں یہ خیرات تقسیم کرائے۔
اس سے بدنظمی بھی دور ہو گی اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ امیر آدمی نے خیرات پر کتنی رقم خرچ کی ہے۔ضلعی انتظامیہ یہ ریکارڈ ایف بی آر کو بھیجے تاکہ اس کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لیا جا سکے۔
ٹرسٹ اور وقف کے ٹرسٹی حضرات اور اسے چلانے والے اپنی جیب سے خرچ کریں' یہاں بھی ایف بی آر کا نمایندہ موجود ہونا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ کتنا خرچ کیا گیا ہے اور ٹرسٹ چلانے والوں کی آمدنی کتنی ہے۔ اس طریقے سے پاکستان میں معیشت بھی دستاویزی ہو گی اور ریونیو کولیکشن میں بھی بہتری آئے گی۔
اتنی بلند شرح پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے' افراط زر کی شرح میں اس غیرمعمولی اضافے کی وجہ رمضان المبارک میں کھانے پینے کی اشیا اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں مسلسل اضافہ ہونا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار یہی تخمینہ بتا رہے ہیں۔
افراط زر اور مہنگائی میں غیرمعمولی اضافے کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں' پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات بڑھے ہیں۔
ملک کے درآمد کنندگان یہ جواز بھی پیش کرتے ہیں کہ ایل سیز پوری طرح نہ کھلنے کی وجہ سے بھی درآمدی اشیا اور مقامی طور پر تیار ہونے والی اشیا میں درآمدی خام مال نہیں پہنچ رہا جس کی وجہ سے درآمدی اشیا کی قلت بھی ہے اور ان کے نرخ بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
بجلی اور گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی مینوفیکچررز کی پیدا واری لاگت میں اضافہ ہوا ہے' جس کا اثر بھی مارکیٹ پر پڑا ہے۔ مختلف ان ڈائریکٹ ٹیکسز بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔
یہ تو معاشی اور اقتصادی نوعیت کے انڈیگیٹرز ہیں لیکن پاکستان میں معاشی بحران کو سنگین سے سنگین تر بنانے میں سیاسی بحران کا سب سے بڑا حصہ ہے۔
سیاسی جماعتیں سنگین معاشی اشاریوں کی پروا کیے بغیر محاذ آرائی' تشدد اور گھیراؤ جلاؤ کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ نظام عدل سیاسی پس منظر کی حامل آئینی درخواستوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے' ایسا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں آئین اور جمہوریت کے مسلمہ اصولوں پر چلنے کے بجائے اپنے مفادات کو قانونی لبادہ پہنا کر عدالتوں کے پاس پہنچی ہوئی ہیں۔
پے در پے درخواستوں پر بعض فیصلے ایسے آئے ہیں جنھوں نے سیاسی بحران کو کم کرنے کے بجائے مزید گہرا کر دیا ہے۔ انتظامیہ اپنی جگہ مفلوج نظر آتی ہے اور پارلیمنٹ اپنے آئینی کردار کی تلاش میں سرگرداں نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کا آئینی' سیاسی اور معاشی بحران ملک کے عام طبقوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے' اس بحران کا ایک منظر مفت آٹا تقسیم کے مراکز پر عوام کی بھیڑ اور دھکم پیل کی صورت نظرآ رہا ہے' کئی بزرگ اس دھکم پیل میں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں' ادھر نجی سطح پر خیرات تقسیم کے دوران بھی بھیڑ اور دھکم پیل میں کئی جانیں ضایع ہوئی ہیں۔
پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز کو ان دلخراش مناظر بھی متاثر نہیں کرسکے ہیں۔ صدر مملکت کا ادارہ' عدلیہ اور اپوزیشن مغرب کی طرف رخ کیے بیٹھے ہیں جب کہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ مشرق میں کھڑے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اسٹیک ہولڈرز کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہو چکے ہیں' معاملات اب سیاست' آئین اور جمہوریت کے روایتی اتار چڑھاؤ سے الگ ہو کر باقاعدہ مفاداتی جنگ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے' اس صورت حال ہی نے دراصل پاکستان کی معیشت اور کاروبار کو زوال پذیر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے نظام کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔
بہرحال ان تمام مشکلات کے باوجود امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے' معاملات یقیناً کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ ہی جائیں گے' اتحادی حکومت معیشت کے حوالے سے ماضی کی نسبت درست سمت میں کام کر رہی ہے۔
پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے' عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی معاملات ماضی کی نسبت بہتر انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر جلد دستخط ہو جائیں گے۔
دنیا میں اکیلا پاکستان ہی معاشی بحران کا شکار نہیں ہوا ہے بلکہ پوری دنیا مالی مشکلات کا شکار ہوئی ہے' سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے' سری لنکا تو باقاعدہ طورپر ڈیفالٹ کر گیا' اب کہیں جا کے اس ملک کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہوئے ہیں اور اسے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید امداد ملنے کی توقع ہے۔
امریکا اور یورپی ممالک بھی کساد بازاری کا شکار ہوئے ہیں' پاکستان پہلے کورونا کا شکار ہوا ، پھر غیرمعمولی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوںکے نتیجے میں شدید بارشوں اور سیلاب نے زرعی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ گزرے دو ڈھائی برس کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا۔ ادھر ملک میں سیاسی عدم استحکام مسلسل جاری رہا جو اب خاصا سنگین ہو چکا ہے۔
معیشت کو پرانے طریقے سے نہیں چلایا جا سکتا۔ چھوٹے صوبوں کو بھی اپنے لیے ریونیو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ قوم پرستی' روایت پرستی' لسانیت اور صوبائیت کو سیاسی ایجنڈا بنا کر اپنا سارا مالی بوجھ وفاق پر ڈالنے کی سیاست اور روایت ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
اب یہ سیاسی حربے قابل استعمال نہیں رہے ہیں۔ قوم پرستی اور لسانیت مثبت خطوط پر استوار ہونی چاہئیں نہ کہ کسی دوسری ثقافتی اور لسانی قومیت کے خلاف نفرت اور عناد پر استوار کی جائے۔ معیشت کو دستاویزی بنانے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔
چھوٹے صوبوں کے پاس ماضی کے مقابلے میں آج بہت زیادہ اختیارات ہیں۔ ہر قسم کا صوبائی محکمہ اور ملازمین موجود ہیں' ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ نظر آتی ہے کہ چھوٹے صوبوں کا محکمہ ایکسائز اور ٹیکسیشن پوری طرح فعال نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ چلتی ہے لیکن 80فیصد بغیر نمبر پلیٹ کے ہوتی ہیں اور ان کی محکمہ ایکسائز میں رجسٹریشن بھی نہیں ہوتی۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار دھڑلے سے ہو رہا ہے' اس معاملے میں وفاق کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ پاک افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے والی ہر قسم کی موٹر وہیکلز' الیکٹرانکس کا سامان' اور کباڑ کے نام پر مختلف قسم کی مشینری پر کسٹمز ٹیکس وصول کرے۔
پاک افغان سرحد کراس کر کے جو موٹر وہیکلز' الیکٹرانک کا سامان اور کباڑ کی مشینری پاکستانی علاقے میں آئے' کسٹم ادا کرے اور اس کے بعد رجسٹریشن کا کام متعلقہ صوبہ کرے اور قانون کے مطابق صوبہ اپنا ٹیکس وصول کرے' اس طرح چھوٹے صوبوں کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا اور وفاقی حکومت کو بھی ریونیو ملے گا۔
آج ملک شدید مالی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے لیکن حکمران طبقوں نے اب بھی اپنی روش ترک نہیں کی ہے۔ اب بھی سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔
اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین میں اسقام پیدا کرواتے ہیں' ٹیکس ایمنسٹی کے نام پر ٹیکس چوری کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ڈالر کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی توڑ دیا جاتا ہے۔
موجودہ معاشی اور سیاسی بحران کی ساری ذمے داری پاکستان کی حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے۔ پاکستان پر ایک سو چھبیس ارب ڈالر کے قرضے واجب الادا ہیں۔ ہر سال قرض کی ادائیگی کے لیے تیرہ ارب ڈالر درکار ہیں اور ملک کو ضروری امپورٹس کے لیے ہر ماہ پانچ چھ ارب ڈالر درکار ہیں۔
ملکی بحران کے حل کے دو راستے ہیں ایک راستہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے راستے پر جا کر بجٹ میں توازن لانے، ٹیکس ریونیو ہر صورت میں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سبسیڈیز ختم کی جائیں۔ اس سے ملکی معیشت کی رفتار سست ہو گی اور بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔
اس بحران کے خاتمے کا دوسرا حل یہ ہے کہ تمام خیراتی اداروں اور فلاحی تنظیموں پر عوام سے چندہ وصول کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے' بڑے بڑے ٹرسٹ اور وقف پر بھی عوام سے چندہ اکٹھا کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ رمضان المبارک اور عیدین کے ایام میں نجی طور پر خیرات تقسیم کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے' جس امیر آدمی نے خیرات تقسیم کرنی ہے۔
وہ ضلعی انتظامیہ کو اس کے بارے میں مطلع کرے' ضلعی انتظامیہ اپنی نگرانی میں یہ خیرات تقسیم کرائے۔
اس سے بدنظمی بھی دور ہو گی اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ امیر آدمی نے خیرات پر کتنی رقم خرچ کی ہے۔ضلعی انتظامیہ یہ ریکارڈ ایف بی آر کو بھیجے تاکہ اس کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لیا جا سکے۔
ٹرسٹ اور وقف کے ٹرسٹی حضرات اور اسے چلانے والے اپنی جیب سے خرچ کریں' یہاں بھی ایف بی آر کا نمایندہ موجود ہونا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ کتنا خرچ کیا گیا ہے اور ٹرسٹ چلانے والوں کی آمدنی کتنی ہے۔ اس طریقے سے پاکستان میں معیشت بھی دستاویزی ہو گی اور ریونیو کولیکشن میں بھی بہتری آئے گی۔