عالمی معاشی عدم استحکام

امریکا جو ایک بہت بڑی عالمی معاشی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے شرح سود میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے


Zamrad Naqvi April 03, 2023
www.facebook.com/shah Naqvi

اس وقت پوری دنیا معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ کہیں پر یہ کم کہیں پر زیادہ لیکن معاشی عدم استحکام سے کوئی ملک بھی نہیں بچا ہوا۔ پاکستان میں بھی معاشی بحران تشویش ناک حدوں کو چھو رہا ہے۔

مالیاتی عدم استحکام کا یہ عالم ہے کہ امریکا جو ایک بہت بڑی عالمی معاشی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے شرح سود میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ جب شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے تو مہنگائی میں اضافہ اورپیداواری سرگرمیاں کم ہونے سے بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔

یہ ایک ایسا منحوس چکر ہے جو ملک اس کی لپیٹ میں آجائے اس کا اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ امریکا کے دو بڑے بینک دیوالیہ ہو گئے ہیں۔

سیاحوں کی جنت سوئٹزر لینڈ میں کریڈٹ سوئس بینک کو فروخت کرنے کی نوبت آگئی ہے دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ترقی پذیر ممالک شرح سود بڑھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

معاشی بحران کی وجہ سے فرانسیسی حکومت پینشن اصلاحات کرنے پر مجبور ہو گئی جس کے نتیجے میں وہاں اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے کہ برطانیہ کے بادشاہ کنگ چارلس کو اپنا دورہ فرانس منسوخ کرنا پڑا ہے۔ جرمنی میں اسی معاشی عدم استحکام کی وجہ سے 31سال بعد اتنی بڑی ہڑتال ہوئی جس سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔

آئی ایم ایف کی سر براہ کرسٹالینا جیوا گزشتہ دنوں بیجنگ کے دورے پر تھیں انھوں نے چین ڈویلپمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے اس صورتحال کے پیش نظر خبردار کیا ہے کہ بینکنگ سیکٹر میں حالیہ اتھل پتھل کے باعث مالیاتی استحکام کو خطرات بڑھ گئے ہیں۔ جسے روکنے کے لیے دنیا کو چوکس رہنے کی ضروری ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ 2023 کو ایک اور مشکل سال کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین جنگ ،مالیاتی سختیوں اور وبائی امراض کی وجہ سے عالمی شرح نمو 3فیصد تک سکڑ گئی ہے ۔

بے یقینی کی کیفیت غیر معمولی طور پر بڑھی ہے جس سے معاشی عدم استحکام کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور اس سے عالمی معیشت کے کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔

قرضوں کی بلند سطح کے دوران شرح سود میں تیزی سے ہونے والے اضافے سے مالیاتی دباؤ اور کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ خود پاکستان میں شرح سود آئی ایم ایف کے دباؤ پر بیس فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔

دنیا اس وقت جس آفت سے دوچار ہے چاہے وہ غذائی قلت ہو یا توانائی کی کمیابی صرف ایک شخص کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے وہ ہے یوکرین کا صدر جو ماضی میں کامیڈین اداکار رہا ہے۔

اب بھی وہ پوری دنیا کے ساتھ کامیڈی کر رہا ہے امریکی سازش کا آلہ کار بن کر ۔ کیونکہ امریکا کی سرتوڑ کوشش یہی ہے کہ کسی طرح روسی قوت کا خاتمہ کرتے ہوئے روس کو توڑ دیا جائے چاہے دنیا تباہ ہو جائے اور اس کام میں سب سے بڑا امریکا کا مددگار برطانیہ ہے۔

روسی صدر پیوتن بار بار امریکا اور نیٹو کو خبردار کر چکے ہیں کہ اگر روس کی بقا ء کو خطرات لاحق ہوئے تو ایٹمی جنگ ناگزیر ہو جائے گی۔

جب کہ روس اپنی ہمسایہ ریاست بیلاروس میں پیش بندی کے طور پر چھوٹے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار نصب کرنے جا رہا ہے۔ یعنی ہر گزرتا دن دنیا کو ایٹمی جنگ کے قریب لے جا رہا ہے۔ حال ہی میں چین کے صدر نے ماسکو کا دورہ کیا جس میں سب سے اہم موضوع گفتگو روس یوکرین جنگ بندی تھا۔

چینی صدر نے کہا کہ امریکی اقدامات سے دنیا عدم استحکام کا شکار ہو گئی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین چاہتا ہے کہ روس یوکرین جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہوں لیکن امریکا نے یوکرین کو ان مذاکرات سے روک رکھا ہے۔

مختلف یورپی ملکوں میں یوکرین جنگ کے معاملے میں امریکا کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جو اس جنگ اور اس کی طوالت کا ذمے دار امریکا کو ٹھہرا رہے ہیں۔ چین اس وقت ہمارے خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ثالثی میں بیجنگ میں ہونے والے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بحال ہونے والے سفارتی تعلقات ہیں ۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق گزشتہ ہفتے ایران سعودی وزرائے خارجہ کے درمیان مزید دو مرتبہ ٹیلی فونک رابطے ہوئے ہیں جس میں یہ طے پایا ہے کہ رمضان المبارک میں ہی دونوں شخصیات مزید پیش رفت کے لیے ملاقات کریں گی۔

واضع رہے کہ سعودی عرب ایران سفارتی تعلقات کی بحالی پر امن دشمن دہشت گرد تخریب کار قوتیں گہرے صدمے سے دوچار ہیں۔ ان کے غم و اندوہ کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ اربوں کھربوں کے ان کے سیاسی معاشی اسلحی مفادات ڈوب کر رہ گئے ہیں۔

گزشتہ برس کا جاری سیاسی اور آئینی بحران 4-5 اپریل اور 7-8-9اپریل کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |