منافع خوروں کی موجیں
عوام دشمن تاجروں، دکانداروں اور خصوصاً دودھ، پھل اور سبزی فروشوں نے رمضان میں لوٹ مار کی انتہا کردی ہے
اٹھارویں ترمیم کے بعد جب سے امن و امان اور ملک میں مہنگائی پر کنٹرول کے مکمل اختیارات صوبائی حکومتوں کو ملے ہیں تب سے ان نا اہل مگر بااختیار صوبائی حکومتوں نے بدامنی اور مہنگائی بڑھاکر عوام کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے کیوں کہ انھیں اب وفاقی حکومت اس سلسلے میں پوچھنے کا اختیار بھی نہیں رکھتی اور صوبائی حکومتیں اب مہنگائی اور امن و امان کے سلسلے میں وفاقی حکومت کو جوابدہ نہیں ہیں۔
2008میں اقتدار میں آنے والی پیپلزپارٹی کی حکومت اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے 18ویں ترمیم کرائی تھی جس میں مسلم لیگ ن بھی شامل تھی۔
اس وقت ملک کے سب سے بڑے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مکمل اور کے پی اور بلوچستان میں اتحادی حکومتیں تھیں جو سب کی سب مکمل صوبائی اختیارات کی خواہاں تھیں۔
صدر آصف علی زرداری نے میاں رضا ربانی کو ترامیم متفقہ طور پر منظور کرانے اور صوبوں کو بااختیار بنانے کی ذمے داری سونپی تھی جس کے تحت وفاقی حکومت کے اختیارات کم کرکے صوبوں کے اختیارات اور فنڈز بڑھائے گئے تھے اور دیگر اختیارات کے ساتھ بلدیاتی معاملات ، امن و امان برقرار رکھنے اور مہنگائی پر کنٹرول کی مکمل ذمے داری وفاق سے لے کر صوبوں کو دی گئی تھی جس کی سزا ملک کے عوام بھگت رہے ہیں مگر وفاق اور وفاق کے بعد اہم ادارے اس سے خوش نہیں ہیں اور ملک میں اعلیٰ عدلیہ اور صوبائی حکومتیں ہی خوش اور با اختیار ہیں۔
کہتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کو اندازہ تھا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وفاق میں پیپلزپارٹی کی آخری حکومت ہو اس لیے انھوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دلائے تھے جس کے بعد دس سالوں میں وفاق میں پی پی کی حکومت نہیں بن سکی۔
البتہ 15 سالوں سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی مسلسل حکومت ہے جب کہ پنجاب دس سال بعد ن لیگ کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا یا جان بوجھ کر نکلواکر 2018 میں وہاں پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی تھی جب کہ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں میں بھی پیپلزپارٹی کوشش کے باوجود اپنی حکومت نہیں بنواسکی تھی اور وہاں مسلم لیگ ن کے ہی وزرائے اعلیٰ منتخب ہوتے رہے تھے اور صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے وزیراعظم ہوتے ہوئے کچھ عرصہ کے لیے ن لیگ کی حکومت ختم کراکر پی پی اور مسلم لیگ جونیجو گروپ کی حکومت بنائی تھی مگر وزیر اعلیٰ منظور وٹو بنے تھے اور راتوں رات مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ وائیں کی حکومت ختم کرائی گئی تھی کیوں کہ اس وقت صدر اسحاق مکمل با اختیار اور 58-2/B کے حکومت ہٹانے کے اختیارات کے حامل تھے جب کہ 2013میں صدر زرداری بھی بااختیار تھے نہ ان کے ہاتھ میں حکومت برطرف کرنے کا اختیار تھا جو نواز شریف نے پہلے ہی ختم کرادیا تھا۔
اس لیے یہ کہنا حقائق کے برعکس ہے کہ صدر آصف زرداری نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دیے تھے۔ ایسا نہیں تھا پارلیمنٹ تو پہلے بھی عدلیہ کے ہاتھوں بے بس تھی اور اب بھی ہے اور صوبوں کے پاس اختیارات اور فنڈز وفاق سے زیادہ ہیں اور اسی لیے وزیراعظم عمران خان 18ویں ترمیم کے خلاف تھے مگر ان کی پنجاب اور کے پی کی حکومتیں بااختیار تھیں اور انھوں نے اقتدار میں آنے کے لیے بالاتروں کے سامنے اپنی یہ خواہش رکھی تھی کہ پنجاب میں اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ ن کے بجائے پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی جائے جس کی تعمیل میں پنجاب کے ارکان اسمبلی توڑ کر اکثریت نہ رکھنے والی پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی تھی۔
عمران خان صوبوں سے زیادہ وفاق کے بااختیار ہونے کے حامی ہیں کیوں کہ وفاق سے متعدد اہم محکمے اور اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں اور اب صوبوں میں وفاق کی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی چلتی ہے جس کی وجہ سے چاروں صوبوں میں مختلف بلدیاتی نظام قائم ہیں اور صوبائی اختیارات کی وجہ سے چاروں صوبوں میں بدامنی بڑھی ہے اور مہنگائی بڑھنے کے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں مگر وفاق بے بس ہے مگر مہنگائی اور بدامنی کی وجہ سے عوام کی گالیاں وفاق حکومت کھاتی ہے اور صوبائی حکومتیں موج میں ہیں حالاں کہ وہ اس سلسلے میں مکمل بااختیار ہیں مگر کچھ نہیں کررہیں۔
اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کو من مانی، کرپشن اور وزرائے اعلیٰ کو صوبائی آمریت قائم کرنے سرکاری محکموں میں بغیر ضرورت سیاسی بھرتیاں کرنے، رشوت اور سیاسی وجوہات پر نئی تقرریوں اور تبادلوں کے من مانے اختیارات تو ملے ہوئے ہیں مگر وہ جان بوجھ کر اپنے صوبوں میں امن و امان برقرار رکھنے، بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت اختیارات اور فنڈز دینے اور عوام کو درپیش مہنگائی کے اہم مسئلے کو مکمل طور پر نظر انداز کیے ہوئے ہیں اور ہر جگہ صوبائی حکومتیں مہنگائی پر کنٹرول اور سرکاری مقررہ نرخوں پر اشیاء کی خرید و فروخت ممکن بنانے میں نہ صرف مکمل ناکام ہیں بلکہ صوبائی حکومتیں اور انتظامیہ غفلت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
اس سلسلے میں کمشنر کراچی کی غفلت کا اعتراف تو گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بھی کیا ہے اور گورنر اس سلسلے وزیراعلیٰ سندھ سے زیادہ فعال اور متحرک ہیں مگر آئینی طور پر گورنر مکمل طور پر بے اختیار اور بے بس ہیں دیگر صوبوں میں بھی یہی حال ہے۔
گورنروں کی مصروفیات وزرائے اعلیٰ سے کم ہیں اس لیے گورنر اگر رمضان المبارک ہی میں مارکیٹوں اور بازاروں کے دورے کرلیں تو عوام کو لوٹنے کے عادی لٹیروں میں کچھ خوف پیدا ہوسکتا ہے کہ جنھوں نے عوام کو لوٹنے کی انتہا کر رکھی ہے اور انھیں اﷲ کا خوف ہے نہ رمضان المبارک کا احساس۔ ان عوام دشمن تاجروں، دکانداروں اور خصوصاً دودھ، پھل اور سبزی فروشوں نے رمضان میں لوٹ مار کی انتہا کردی ہے۔
جن کی طرف کسی حکومت کی توجہ نہیں اور عوام کو بیدردی سے لوٹنے والے ان لٹیروں کی لوٹ مار پر صرف میڈیا توجہ دے رہا اور مہنگائی کی صورت حال کی خبریں دے کر عوام کی ترجمانی کررہا ہے مگر صوبائی حکومتوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ اب میڈیا والے بھی ان منافع خور پھل فروشوں سے محفوظ نہیں ہیں اور کراچی صدر کے علاقے میں جہانگیر پارک کے قریب نجی ٹی وی چینل کی ٹیم پر عوام کو لوٹنے والے ناجائز منافع خوروں نے حملہ کرکے چار افراد کو زخمی کردیا جو وہاں مہنگائی پر سروے کررہے تھے۔
وہاں شرپسندوں نے پہلے ایک خاتون پر تشدد کیا جو ان لٹیروں کی گراں فروشی پر احتجاج کررہی تھیں۔ علاقہ پولیس کو مہنگائی روکنے کا اختیار نہیں اس لیے پولیس بازاروں میں مفت کے پھل جمع کرتی ہے اور مہنگائی پر کنٹرول کرنے والی ریوینو انتظامیہ کو فرصت نہیں کہ بازاروں میں جاکر قیمتیں چیک کرے۔ ہر صوبے میں بیرو آف سپلائی اینڈ پرائس نہ جانے کہاں ہے۔
مارکیٹ کمیٹیاں صرف کمائی کررہی ہیں۔ ریٹیلر ہول سیلرز پر مہنگائی کا الزام لگاکر منڈی سے سو روپے والا پھل اور سبزیاں چار پانچ سو روپے میں فروخت کررہے ہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔