بھارتی عدالتوں کی ناانصافی اور مذہبی دہشت گردی
بھارت میں انتہاپسند گروہ اس قدر طاقتور ہیں کہ وہاں کی عدالتیں اور جج بھی ان سے خوفزدہ رہتے ہیں
بھارتی عدالتوں کی ایک نہایت شرمناک تاریخ ہے کہ جب بھی ان کے سامنے کوئی ایسا مقدمہ آیا جس میں ہندو اور مسلمان مدمقابل ہوں تو انہوں نے قانون و انصاف کے تمام تر تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیشہ ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیا۔ جبکہ اس کے برعکس اسلامی عدالتوں کی ایک تابناک تاریخ ہے کہ جب بھی ان کے سامنے ایسا کوئی مقدمہ پیش ہوا جس میں مسلمان اور غیر مسلم مدمقابل ہوئے تو انہوں نے عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں بہت سے فیصلے غیر مسلموں کے حق میں بھی ہوئے۔ تاریخ مسلمان حکمرانوں اور قاضیوں کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ دوسری طرف غیر مسلم بالخصوص ہندو قوم اور مذہب پرستی میں اس قدر متعصب ہیں کہ وہ ہمیشہ ہم مذہب کو دیگر پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے ان کے فیصلے کتنے ہی عدل و انصاف سے عاری اور مضحکہ خیز ہوں۔
ہندوستانی عدالتوں نے اس سے قبل بھی کئی ایک ایسے فیصلے سنائے ہیں جو نہایت مضحکہ خیز ہیں اور جن سے ججوں کی جانبداری واضح طور پر چھلکتی ہے۔ جیسے مساجد کو مسمار کرنے کے مقدمات اور حجاب کے مقدمات میں عدالتوں کا جو رویہ رہا، وہ نہایت شرمناک تھا۔ بابری مسجد سمیت کئی ایسی مساجد ہیں جنہیں ہندوؤں نے صرف اس لیے شہید کرایا کہ وہ رام کی جنم بھومی (جائے پیدائش) ہے یا یہاں پہلے مندر تھا جسے گرا کر مسجد تعمیر کی گئی اور ان دونوں دعوؤں کے کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں۔ پہلا دعویٰ کہ رام کی جائے پیدائش، تو بہت ہی مضحکہ خیز ہے کہ رام راون تو فقط داستانوں کے کردار ہیں جو ہزاروں سال سے ہندو معاشرے میں چلی آرہی ہیں۔ متعصب ہندو عدالتیں بلکہ ان عدالتوں کے پڑھے لکھے جج اور چیف جسٹس ہیں ان داستانوں کی بنیاد پر فیصلے سنا دیتے ہیں، جس سے ان کی خوب جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ دوسرے دعوے کا بھی یہی حال ہے کہ مندر کو گرا کر مسجد تعمیر کرنے کا کوئی دستاویزی ثبوت میسر نہیں جبکہ کسی ٹھوس دستاویزی ثبوت کے بغیر زبانی دعوؤں پر دنیا میں کہیں بھی فیصلے نہیں سنائے جاتے۔ ہاں اگر دنیا کے کسی ملک میں ہم مذہبوں کے زبانی دعوؤں پر فیصلے سنائے جاتے ہیں تو وہ دنیا کا واحد ملک بھارت ہے۔
حالیہ خبر کے مطابق بھارت کی عدالت نے ریاست گجرات میں فسادات میں ملوث 26 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔ ان ملزمان کے خلاف درجنوں مسلمانوں کو قتل کرنے اور مسلم خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں کے مقدمات تھے۔ کل 39 ملزمان میں سے 13 کی پہلے ہی موت ہوچکی ہے بقیہ 26ملزمان بیس برس بعد بری ہوگئے ہیں۔ حالانکہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت اور گواہان موجود تھے، لیکن کیا ہوسکتا ہے۔ جہاں قانون نام کی چیز ہی نہ ہو، جہاں صرف اپنے ہم مذہبوں کو بچانے کےلیے قوانین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہوں، وہاں ثبوت اور شہادتیں کچھ کام نہیں کرسکتیں۔
2002 میں ہونے والے فسادات میں موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے، براہ راست ملوث تھے۔ جس کا اعتراف بھارت کی انتہاپسند ہندو جماعت شیوسینا کرچکی ہے اور دنیا کے سامنے اس کے واضح شواہد بھی موجود ہیں۔ تو اب مودی راج میں ان کے ساتھی فسادیوں کو کیسے سزا دی جاسکتی ہے۔ بھارت میں تو انتہاپسند گروہ اس قدر طاقتور ہیں کہ وہاں کی عدالتیں اور جج بھی ان سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر انہوں نے ہندوؤں کے خلاف کوئی فیصلہ سنا دیا تو وہ انہیں عدالت سے باہر گھسیٹ لائیں گے اور شدید اذیت ناک طریقے سے قتل کردیں گے جنہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
ان انتہاپسند گروہوں کے سربراہ اور پشت پناہ اس وقت بھارت میں حکومت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان گروہوں کو مزید تقویت ملی ہے اور ان کے دور میں کئی پرانے مقدمات بھارتی عدالتوں سے خارج ہوئے ہیں اور ان میں نامزد ملزمان کو بری کردیا گیا ہے۔ کسی ایک کیس میں بھی ان ملزمان کو سزائیں نہیں ہوئیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں عدل و انصاف کا نام و نشان نہیں، ورنہ کسی ایک کیس میں تو ملزمان کو سزا ہوجاتی۔ وہاں ہندو راج ہے اور ہندوؤں کی ہی سنی جاتی ہے، اس کے علاوہ تمام مذاہب کے پیروکار خاموشی سے خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہندوستانی عدالتوں نے اس سے قبل بھی کئی ایک ایسے فیصلے سنائے ہیں جو نہایت مضحکہ خیز ہیں اور جن سے ججوں کی جانبداری واضح طور پر چھلکتی ہے۔ جیسے مساجد کو مسمار کرنے کے مقدمات اور حجاب کے مقدمات میں عدالتوں کا جو رویہ رہا، وہ نہایت شرمناک تھا۔ بابری مسجد سمیت کئی ایسی مساجد ہیں جنہیں ہندوؤں نے صرف اس لیے شہید کرایا کہ وہ رام کی جنم بھومی (جائے پیدائش) ہے یا یہاں پہلے مندر تھا جسے گرا کر مسجد تعمیر کی گئی اور ان دونوں دعوؤں کے کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں۔ پہلا دعویٰ کہ رام کی جائے پیدائش، تو بہت ہی مضحکہ خیز ہے کہ رام راون تو فقط داستانوں کے کردار ہیں جو ہزاروں سال سے ہندو معاشرے میں چلی آرہی ہیں۔ متعصب ہندو عدالتیں بلکہ ان عدالتوں کے پڑھے لکھے جج اور چیف جسٹس ہیں ان داستانوں کی بنیاد پر فیصلے سنا دیتے ہیں، جس سے ان کی خوب جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ دوسرے دعوے کا بھی یہی حال ہے کہ مندر کو گرا کر مسجد تعمیر کرنے کا کوئی دستاویزی ثبوت میسر نہیں جبکہ کسی ٹھوس دستاویزی ثبوت کے بغیر زبانی دعوؤں پر دنیا میں کہیں بھی فیصلے نہیں سنائے جاتے۔ ہاں اگر دنیا کے کسی ملک میں ہم مذہبوں کے زبانی دعوؤں پر فیصلے سنائے جاتے ہیں تو وہ دنیا کا واحد ملک بھارت ہے۔
حالیہ خبر کے مطابق بھارت کی عدالت نے ریاست گجرات میں فسادات میں ملوث 26 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔ ان ملزمان کے خلاف درجنوں مسلمانوں کو قتل کرنے اور مسلم خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں کے مقدمات تھے۔ کل 39 ملزمان میں سے 13 کی پہلے ہی موت ہوچکی ہے بقیہ 26ملزمان بیس برس بعد بری ہوگئے ہیں۔ حالانکہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت اور گواہان موجود تھے، لیکن کیا ہوسکتا ہے۔ جہاں قانون نام کی چیز ہی نہ ہو، جہاں صرف اپنے ہم مذہبوں کو بچانے کےلیے قوانین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہوں، وہاں ثبوت اور شہادتیں کچھ کام نہیں کرسکتیں۔
2002 میں ہونے والے فسادات میں موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے، براہ راست ملوث تھے۔ جس کا اعتراف بھارت کی انتہاپسند ہندو جماعت شیوسینا کرچکی ہے اور دنیا کے سامنے اس کے واضح شواہد بھی موجود ہیں۔ تو اب مودی راج میں ان کے ساتھی فسادیوں کو کیسے سزا دی جاسکتی ہے۔ بھارت میں تو انتہاپسند گروہ اس قدر طاقتور ہیں کہ وہاں کی عدالتیں اور جج بھی ان سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر انہوں نے ہندوؤں کے خلاف کوئی فیصلہ سنا دیا تو وہ انہیں عدالت سے باہر گھسیٹ لائیں گے اور شدید اذیت ناک طریقے سے قتل کردیں گے جنہیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
ان انتہاپسند گروہوں کے سربراہ اور پشت پناہ اس وقت بھارت میں حکومت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان گروہوں کو مزید تقویت ملی ہے اور ان کے دور میں کئی پرانے مقدمات بھارتی عدالتوں سے خارج ہوئے ہیں اور ان میں نامزد ملزمان کو بری کردیا گیا ہے۔ کسی ایک کیس میں بھی ان ملزمان کو سزائیں نہیں ہوئیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں عدل و انصاف کا نام و نشان نہیں، ورنہ کسی ایک کیس میں تو ملزمان کو سزا ہوجاتی۔ وہاں ہندو راج ہے اور ہندوؤں کی ہی سنی جاتی ہے، اس کے علاوہ تمام مذاہب کے پیروکار خاموشی سے خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔