سپریم کورٹ الیکشن التوا کیس کا محفوظ فیصلہ آج سنایا جائے گا

سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد اور بائیکاٹ کی وجہ سے حکومتی وکلا کے دلائل سننے سے انکار کردیا

کسی کے پاس الیکشن التوا کا اختیار نہیں، صرف عدالت تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے،چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے انتخابات کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج سنایا جائے گا جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے عمران خان کی پنجاب اور کے پی میں الیکشن التوا کیخلاف درخواست پر سماعت کی اور دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

وفاقی حکومت نے انتخابات التوا کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا بھی کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب ، کے پی الیکشن کیس میں فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

حکومت نے موقف اختیار کیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔

حکومت نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے، سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں، انھیں نکال کر باقی ججز پر مشتمل بینچ بنایا جائے، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین کی اکثریت سے دیا گیا۔

حکومت نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔

ہم نے بائیکاٹ نہیں کیا، پی پی پی

سماعت شروع ہوئی تو پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کاہ کہ ہم کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا ، ہمارے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے اور بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔

بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں

چیف جسٹس نے کہا کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا، اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔

حکومتی اتحاد کے اعلامیے میں جو زبان استعمال کی گئی

جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں ، حکومتی اتحاد کے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں،جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے، گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیے کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی؟

حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی، حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔

قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ پہلے راؤنڈ میں نو رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا ، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں ، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا نو رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔

کسی نے نہیں کہا دو ارکان موجود نہیں

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں، کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا، زیر حاشیہ میں بھی لکھا ہے کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔

حل یہ ہے

اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا، مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کیخلاف قرار

جسٹس فائز کا فیصلہ

اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز والے فیصلے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ، عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا ازخود نوٹس کی سماعت مؤخر کرنے کا حکم

سرکلر سے فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا

چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔

فیصلے میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے

چیف جسٹس نے قاضی فائز کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے، عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے، فیصلے میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کےہر مقدمےمیں ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عدالتی فیصلے کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا، موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔

آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نےرواں سال پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔

لارجر بینچ

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعاء لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔

تین دن سینیئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہو سکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ تین دن میں سینیئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔

کن ججز کا بینچ بنایا جائے

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے ، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک فیصلہ تین رکنی اکثریت نے دیا ایک دو رکنی اقلیت نے، نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ پانچ رکنی بینچ میں تھے؟

ان کیمرا سماعت

اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے۔

فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے، فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیر فورس کا بھی ہے، برّی فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے، ویسے فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، کوئی اکر کہے تو صحیح کہ کتنے سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے۔

سیکریٹری دفاع سے تحریری رپورٹ طلب

سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ر حمود الزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سیکورٹی حالات سنگین ہیں، ریزور فورس موجود ہے جسے مخصوص حالات میں بلایا جاتا ہے، ریزرو فورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔

عدالت نے سیکریٹری دفاع سے کل تک تحریری رپورٹ طلب کرلی۔


الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں

چیف جسٹس نے کہا کہ سربمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے، سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو combat والے اہلکار درکار ہیں؟ ، الیکشن ڈیوٹی کیلئے کمبیٹ اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، الیکشن کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئیگا۔

ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات

عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سیکورٹی اہلکار صرف ایک دن کے لیے چاہئیں، سیکورٹی کا ایشو تو ہمیشہ رہے گا ، جبکہ آئینی ضرورت نوے دن کی ہے، ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔

صرف 20 ارب روپے

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے لیے 20 ارب چاہئیں، کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جارہا ہے۔

کھربوں کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں

جسٹس منیب نے کہا کہ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں ؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا۔

ججز کی تنخواہیں کم کریں

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پٹرولیم مصنوعات پر حکومت کا خسارہ 157ارب روپے تھا، خسارہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہوجاتا، کیا تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی، ؟ ججز سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے، قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کردے گی، پانچ فیصد تنخواہ تین اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے، الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے، کونسا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔

اسد عمر کی بریفنگ

اسد عمر روسٹرم پر آگئے اور بریفنگ دی کہ پہلے پانچ ماہ میں 5700 ارب روپیے خرچ ہو چکے ہیں، ٹوٹل بجٹ 9500 ارب روپے ہے،آئی ایم ایف خسارے کا ٹارگٹ جی ڈی پی کے حساب سے طے کرتا ہے، بیس ارب روپے بجٹ کا 0.02 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، بیس ارب کا خسارے کے ٹارگٹ سے کوئی تعلق نہیں، ترقیاتی اخراجات 700 ارب روپے ہیں، ابھی تک چار سو پچاس ارب روپیے خرچ ہونا باقی ہیں، حکومت نے 8 ماہ میں صرف دو سو ارب روپے خرچ کیے، کیسے ممکن ہے سات سو ارب کے بجٹ سے 21 ارب روپے نہ نکالے جاسکتے ہوں، آئینی تقاضا اہم ہے یا سڑکیں بنانا؟ اس سے بڑا کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔

حکومت ہچکچاہٹ

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے عدالت فیصلہ کرے، ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔

ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوں گے

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گٸی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بنچ سے الگ ہوجاتے ہیں، ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں، بنچ سے جانب داری منسوب کی جارہی ہے، پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کرچکی ہے اور عدالت فل کورٹ پر اپنی رائے دے چکی ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ پتہ پتہ بوٹا بوٹا باغ تو سارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے، عدالت پر عدم اعتماد نہیں ہے لیکن انصاف ہوتا نظر آنا چاہییے، عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے اور فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑدینا چاہیے، فیصلہ تین دو کا تھا یا 4/3 کا اس پر بات ہونی چاہئے، 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں اور 3 ججز نے حکم جاری کیا، یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا، عدالت اس تنازع کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔

عرفان قادر نے کہا کہ فیصلے کی تناسب کا تنازعہ ججز کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے، سرکلر سے عدالتی فیصلے کا اثر زائل نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس اپنے سرکولر پر خود جج نہیں بن سکتے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے، قومی مفاد آئین اور قانون پر عمل درآمد میں یے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہوگی۔

عرفان قادر نے کہا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے، صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں، ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں، خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دیدی ہے، پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں۔

انہوں ںے کہا کہ صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں اور صدر کا تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے کیوں کہ صدر ہر کام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے،الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کیلئے ہے اور ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونے ہیں۔

عرفان قدر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نے 184/3 کے مقدمات پر سماعت سے روکا ہے، 184/3 کا تنازع حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے، جسٹس فائز عیسی سینئر جج ہیں ان کے فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے، ان معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گے، جسٹس فائز عیسیٰ نے ملاقات میں کچھ ایشوز ہائی لائٹ کیے ہیں، رولز بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے فیصلے کے نتیجے میں ایک جج نے سماعت سے معذرت کی، عرفان قادر نے کیس سے متعلق نکات اٹھائے ہیں، آپ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے جو میں دوبارہ نہیں اٹھاؤں گا۔

کبھی کبھی تعریف کردیا کریں، چیف جسٹس، آپ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کررہے ہیں، عرفان قادر

چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ کبھی کبھی تعریف کردیا کریں جس پر عرفان قادر بولے کہ سوشل میڈیا پر آپ ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صرف اللہ سے خیر مانگتے ہیں، آپ سوشل میڈیا کی بات کر کے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ آپ اس وقت عوامی چیف جسٹس ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔

عرفان قادر نے کہا کہ 6 ججز کی رائے کے بعد 3 رکنی بینچ سماعت نہیں کرسکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی تحلیل درست تھی یا نہیں، وزیر اعلی پرویز الٰہی کی آڈیو لیک آئی جو فواد چوہدری سے متعلق تھی، پرویز الٰہی نے کہا کہ فواد چوہدری پہلے گرفتار ہوتے تو اسمبلی نہ ٹوٹتی۔

جو بنچ میں نے کسی وجہ سے بنایا وہ وجہ بتانے کا پابند نہیں، چیف جسٹس

عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مناسب ہوتا شفافیت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ وجہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔

عرفان قادر نے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی، چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے دو ججز کے نوٹ کے خلاف ہے۔

بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا

چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکمنامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔

ون مین شو

وکیل الیکشن کمیشن نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے۔

جسٹس فائز نے ون مین شو چیف جسٹس کو نہیں کہا

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا۔

حکومت کو سننے سے انکار

فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ پی ڈی ایم کے اعلامیے میں بائیکاٹ کا ذکر نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر نے بینچ پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟۔

وکیل مسلم لیگ ن اکرم شیخ اور جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے بھی دلائل دینے کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے حکومتی سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو سننے سے انکار کر دیا۔

حکومت نے بینچ پر عدم اعتماد کیا

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت میں شامل جماعتوں نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے، آپ ذاتی حیثیت میں نہیں آئے سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں، ن لیگ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے اعلامیہ عدالتی عملے نے نکال کردیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے۔

گورنر کے پی کے وکیل کی پیروی سے معذرت

گورنر کے پی کے وکیل کامران مرتضی نے پیروی سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں گورنر کا بھی وکیل تھا سیاسی جماعت کا بھی وکیل ہوں، *مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے گورنر کی وکالت چھوڑ رہا ہوں۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا کہ اسے الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار کہاں سے ملا ، آرٹیکل 218/3 الیکشن کروانے کا پابند بناتا ہے، الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہوسکیں، مگر وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی، مگر انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی، حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی، ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے۔

لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں

چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئے گا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا ، آئین واضح ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا، لوگ کہتے ہیں وہ آئین سے بالاتر ہیں، لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی نے ایسا نہیں کہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 6 ججز والی بات آپ اور عرفان قادر نے کی، عدالت نے بات سنی اس پر ردعمل نہیں دیں گے، پارلیمنٹ اور حکومت کا احترام کرتے ہیں، بحران آئے تو سیاسی حل نکالا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج سنایا جائے گا۔
Load Next Story