رمضان میں گانے نشر کرنے پر طالبان نے خواتین کے ریڈیو اسٹیشن کو بند کردیا
بانوان افغانستان میں خواتین کے زیر انتظام چلنے والا واحد ریڈیو اسٹیشن ہے
طالبان نے خواتین کے زیرِ انتظام ریڈیو اسٹیشن ''صدائے بانوان'' کو ماہ رمضان کے تقدس اور احترام کا خیال نہ رکھنے اور مملکت کے قوانین کی پاسداری نہ کرنے پر بند کر دیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے اطلاعات اور ثقافت کے ڈائریکٹر معیز الدین احمدی نے بتایا کہ صوبہ بدخشاں میں خواتین کے زیرِ انتظام ریڈیو اسٹیشن کو رمضان کے مقدس مہینے میں موسیقی کا پروگرام نشر کرنے پر بند کر دیا گیا۔
معیز الدین احمدی نے مزید کہا کہ مذکورہ ریڈیو نے رمضان المبارک کے دوران گانے اور موسیقی نشر کرکے امارت اسلامیہ کے قوانین و ضوابط کی متعدد بار خلاف ورزی کی۔
طالبان حکومت کے ڈائریکٹر اطلاعات اور ثقافت نے یہ بھی کہا کہ اگر ریڈیو اسٹیشن کی انتظامیہ امارت اسلامیہ افغانستان کی پالیسی کو قبول کرتا ہے اور دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنے کی ضمانت دیتا ہے تو اسے دوبارہ کام کرنے کی اجازت دیدیں گے۔
دوسری جانب صدائے بانواں اسٹیشن کی سربراہ ناجیہ سوروش نے کسی بھی قانون، اصول یا روایت کی خلاف ورزی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ریڈیو کی بندش کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ اظہار رائے پر پابندی کی ایک سازش ہے۔
خیال رہے کہ صدائے بانواں جس کا دری میں مطلب خواتین کی آواز ہے، افغانستان میں خواتین کے زیر انتظام چلنے والا واحد ریڈیو اسٹیشن ہے جس کا آغاز 10 سال قبل ہوا تھا۔
طالبان نے نوّے کی دہائی میں پہلی بار اپنی حکومت کے قیام کے بعد زیادہ تر ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر پابندی لگا دی تھی تاہم اس بار ان اداروں میں صرف خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔
اقتدار کے ڈیڑھ سال پورے ہونے کے بعد بھی تاحال خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد ہیں اور کابینہ میں خواتین سمیت دیگر طبقات اور اقلیتوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
ان اقدامات کی وجہ امریکا سمیت دیگر ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے اطلاعات اور ثقافت کے ڈائریکٹر معیز الدین احمدی نے بتایا کہ صوبہ بدخشاں میں خواتین کے زیرِ انتظام ریڈیو اسٹیشن کو رمضان کے مقدس مہینے میں موسیقی کا پروگرام نشر کرنے پر بند کر دیا گیا۔
معیز الدین احمدی نے مزید کہا کہ مذکورہ ریڈیو نے رمضان المبارک کے دوران گانے اور موسیقی نشر کرکے امارت اسلامیہ کے قوانین و ضوابط کی متعدد بار خلاف ورزی کی۔
طالبان حکومت کے ڈائریکٹر اطلاعات اور ثقافت نے یہ بھی کہا کہ اگر ریڈیو اسٹیشن کی انتظامیہ امارت اسلامیہ افغانستان کی پالیسی کو قبول کرتا ہے اور دوبارہ ایسی حرکت نہ کرنے کی ضمانت دیتا ہے تو اسے دوبارہ کام کرنے کی اجازت دیدیں گے۔
دوسری جانب صدائے بانواں اسٹیشن کی سربراہ ناجیہ سوروش نے کسی بھی قانون، اصول یا روایت کی خلاف ورزی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ریڈیو کی بندش کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ اظہار رائے پر پابندی کی ایک سازش ہے۔
خیال رہے کہ صدائے بانواں جس کا دری میں مطلب خواتین کی آواز ہے، افغانستان میں خواتین کے زیر انتظام چلنے والا واحد ریڈیو اسٹیشن ہے جس کا آغاز 10 سال قبل ہوا تھا۔
طالبان نے نوّے کی دہائی میں پہلی بار اپنی حکومت کے قیام کے بعد زیادہ تر ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر پابندی لگا دی تھی تاہم اس بار ان اداروں میں صرف خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔
اقتدار کے ڈیڑھ سال پورے ہونے کے بعد بھی تاحال خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد ہیں اور کابینہ میں خواتین سمیت دیگر طبقات اور اقلیتوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
ان اقدامات کی وجہ امریکا سمیت دیگر ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔