ضرورت ہے سوچنے کی

روزوں کا مقصد اپنے دسترخوان بھرپور کرنا ہی تو نہیں!

روزوں کا مقصد اپنے دسترخوان بھرپور کرنا ہی تو نہیں!فوٹو : فائل

سنیعہ نے حسب معمول فون کیا اور وہی سوال کیا۔
''آج افطار کے لیے کیا پکایا ہے؟'' سنعیہ نے امی سے فون پر پوچھا تو امی نے بتایا ''پالک قیمہ۔''

''اور سحری کے لیے کیا پکائیں گی؟'' سنعیہ نے پوچھا
''رات کو بھی یہ ہی چلے گا۔''
''صرف ایک ڈش؟؟ ''
''سحر وافطار کے لیے۔۔۔؟''
''سب کھالیں گے؟؟''
سنیعہ ایک کے بعد ایک سوال کرتی چلی گئی۔
''ہاں بھئی، کیوں نہیں کھائیں گے! ہمارے ہاں دونوں وقت زیادہ تر ایک ہی ڈش بنتی ہے۔ تم کو معلوم تو ہے۔'' امی نے کہا ۔
''پتا نہیں کیسے ہو جاتا ہے، یہ آپ کے ہاں۔ ہمارے تو بچے چھوٹے چھوٹے ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے بھی اور ان کے ابا کے بھی اتنے نخرے ہیں کہ بس۔ روزانہ ہی دو سے تین ڈش بنانی پڑتی ہیں۔'' سنیعہ پریشان ہو کر بولی۔

''یاد ہے ناں جب تمھارے بچے چھوٹے تھے تو تم صبح کے لیے الگ ناشتا بناتی تھیں دوپہر کے کھانے کے لیے الگ اور شام اور رات کے لیے الگ اور پھر اس پر بھی پریشانی کہ بچے کچھ کھاتے ہی نہیں۔'' امی نے کہا۔

''تو امی پھر کیا کروں ؟؟''سنیعہ بے چارگی سے بولی۔


''تم کو شاید یاد ہو جب تم بچوں کے لیے صبح شام کی الگ الگ ڈش بناتی تھیں، تب بھی میں تم کو منع کرتی تھی کہ جو پکا ہوا ہے اس میں سے ہی کھلادو ، روٹی کے ساتھ ہلکا ہلکا لگالو، اور زیادہ چھوٹے بچوں کو آلو ابال کر دے دو یا حلوہ بنا دو۔ مگر تم کو سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا۔'' امی نے کہا

'' جی امی مگر اب کیا کروں؟'' وہ بے چارگی سے بولی۔

''بچوں کو ایک دن میں دو سے تین مختلف کھانے کھلا کر ہم خود عادت خراب کردیتے ہیں اور پھر

جب وہ بڑے ہوکر فرمائشیں کرتے ہیں اور یہ نہیں کھانا ، وہ نہیں کھانا کرتے ہیں تو ہم پریشان ہوتے ہیں۔دوسرا یہ کہ آج کل جب بچہ بچہ موبائل استعمال کرتا ہے تو ہر دو منٹ بعد ہی کسی نا کسی ریستوران کی طرف سے منہ میں پانی لانے والی وڈیوز آ جاتی ہیں۔

جن کو دیکھنے کے بعد گھر کے پکے سادہ کھانے، دال ،سبزی حتیٰ کہ گھر کی پکی ہوئی بریانی اور نہاری بھی نہیں کھائی جاتی۔ جس طرح وڈیوز میں پنیر سے بھرپور پیزا، ڈبل ٹربل برگر، اور نہ جانے سحر وافطار کے لیے کس کس طرح سے کھانوں کو دکھا کر للچایا جاتا ہے اس سے اب رمضان کا اصل مقصد تو فوت ہو ہی گیا ہے کہ جیسے رمضان صرف کھانے پینے کے لیے ہی آتا ہے۔

اگر آج کل کی صورت حال ملاحظہ کی جانے تو ایک طرف تو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے سب ہی پریشان ہیں لیکن دوسری طرف ریسٹورنٹس کے باہر افطار کے لیے بھیڑ نظر آ رہی ہیں اور روزانہ ہی کہیں نہ کہیں نئے ریسٹورنٹ کا افتتاح بھی ہورہا ہے۔

کتنے ہی خیراتی اداروں کی طرف سے صبح، دوپہر ،شام، رات کے مفت دسترخوان لگائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے کام اور محنت نہ کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔

اب امیر ہو یا غریب سب کو اسی طرف راغب کیا جا رہا ہے کہ کھاؤ پیو اور مزے کرو۔ ایسے وقت میں والدین اور خصوصاً ماؤں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچوں میں یہ شعور اجاگر کریں کہ کھانے کے لیے نہیں جینا بلکہ جینے کے لیے کھانا ہے اور اس کے لیے ماں باپ کو پہلے خود سنبھلنا ہوگا تب ہی وہ اپنے بچوں کو بھی سکھا سکیں گے کہ کھانا ، پینا اور ناچنا،گانا ہی جینا نہیں ہے، جینے کا اصل مقصد تو کچھ اور ہے جس کے لیے بہت کچھ سوچنے اور کرنے کی ضرورت ہے۔

اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس تو ہمارا قرآن ہی مکمل ضابطہ حیات کی شکل میں موجود ہے جس کو صرف پڑھنا ہی نہیں سمجھنا بھی بہت ضروری ہے اور یہ ماہ مبارک ہمیں اس کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے، سو سحر وافطار میں کھانے پینے کے لوازمات کی تیاری کے ساتھ ہمیں اس جانب بھی کچھ سوچنا ضرور چاہیے۔
Load Next Story