خواتین کا رمضان ’سب سے منفرد‘

صنف نازک کو بھی ماہ صیام میں عبادات کا خصوصی وقت ملنا چاہیے

صنف نازک کو بھی ماہ صیام میں عبادات کا خصوصی وقت ملنا چاہیے۔ فوٹو : فائل

ویسے تو خواتین اور لڑکیوں کے لیے کوئی عمر اور زندگی کا کوئی دور آسان نہیں ہوتا۔ زندگی کے ہر موڑ پر خواتین کو ایک نئے چیلنج اور مختلف ذمہ داریوں کا سامنا ہوتا ہے، لیکن رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں خواتین کی ذمہ داریاں اور چیلنج مزید بڑھ جاتے ہیں۔

گو کہ رمضان المبارک سال کا وہ خاص اور اہم ترین مہینا ہے جس میں مسلمانوں سمیت تمام انسانیت کے لیے رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں، لیکن یہاں ہمارے معاشرے کی خواتین کو درپیش چند مسائل کے بارے میں سوچنا اور سمجھنا بھی ضروری ہے!

ماہ رمضان المبارک میں جہاں خواتین ایک طرف اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کی جستجو میں ہوتی ہیں، تو دوسری طرف گھروالوں کی دیکھ بھال اور ان کے حقوق ادا کرتے یقیناً دہری تھکاوٹ کا شکار نظر آتی ہیں۔

رمضان المبارک کے دوران ان تمام خواتین کے لیے کام، فرائض اور ذمہ داریوں میں اضافے کے باعث نہ صرف جسمانی تھکاوٹ بڑھ جاتی ہے، بلکہ ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ جب کہ خواتین سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ سحری اور افطاری میں پکوان کی لمبی لسٹ مقررہ وقت پر تیار رکھیں۔

ساتھ ہی افطاری اور سحری سے پہلے اور بعد میں لگنے والے استعمال شدہ برتنوں کا ایک انبار بھی تو ہے، جسے دھونا ہے اور باورچی خانہ بھی بالکل چمکتا اور صاف ستھرا ہو! جب پورا گھر سو رہا ہوتا ہے یا پھر عبادت میں مصروف ہوتا ہے، اس وقت خواتین گھر والوں کی خوشی کو عین عبادت سمجھے باورچی خانوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔

اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں مصروف کہ دسترخوان پرگھر کے ہر فرد کے لیے کوئی نہ کوئی پسندیدہ پکوان ضرور موجود ہو۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے جہاں رمضان المبارک کا مہینا اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے، توبہ کا موقع اور نیک کاموں سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہے، وہیں خواتین کے لیے یہ ماہ اپنی عبادات اور کاموں میں توازن برقرار رکھنے کا مہینا ہے۔

بچوں کے لیے رمضان المبارک کا مطلب اسکول کے مختصر اوقات، زیادہ کھیلنے کا وقت، کیرم بورڈ، پتنگیں اور ماں کے ہاتھوں کا بنا ہوا بہترین کھانا ہوتا ہے۔ بڑوں سے زیادہ شاید یہ بچوں کی فرمائشیں ہوتی ہیں جو دسترخوان کو پھرپور اور مزے دار کھانوں سے مزین رکھتی ہیں۔

رمضان ایک طرح خاندانوں اور دوستوں کو اکٹھا کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے، لیکن دوتِ افطار اور روزہ کشائی میں ذمہ داری اور محنت گھر کی خواتین کے لیے بڑھ جاتی ہے۔ بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ رمضان کا مطلب سب کے لیے ایک جیسا ہے۔

تمام بچوں کے لیے رمضان المبارک کا مہینا مزے دار اور لذیذ پکوان کا مزہ لینے اور عید کی تیاری کا نام ہوتا ہے۔ خاص طور پر بچیوں کے لیے چاند رات کو مہندی لگانے اور چوڑیاں پہننے کی خوشی ہی گویا رمضان المبارک کے پورے مہینے کا حاصل ہوتا ہے۔


ویسے تو مذہبی نقطۂ نظرسے رمضان المبارک میں عبادت کے حوالے سے سب کے لیے یک ساں احکامات ہیں اور سب ایک ہی طرح کے جذبہ ایمانی اور خوشی سے ماہِ رمضان کا استقبال کرتے ہیں، لیکن سماجی، ثقافتی اقدار اور روایات ان کو خواتین کے لیے ایک بہت مختلف تجربہ بناتی ہیں۔

صبح کی سحری سے شروع ہونے والے کاموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ افطاری اور اس کے بعد رات کے کھانے اور دوبارہ سحری بنانے تک جاری رہتا ہے۔ خواتین کے دن کا آغاز بچوں کو ناشتا کرانے سے ہوتا ہے۔ دوپہر افطاری کی تیاری اور عصر سے مغرب کا وہ وقت جو عبادتوں کے لیے خاص اور دعاؤں کے قبولیت کا اہم وقت ہے افطاری بنانے میں باورچی خانے کی نذر ہوجاتا ہے۔

ویسے عموماً افطاری اور سحری کی تیاری خواتین کے لیے بھی ایک طرح کی سرگرمی ہے، جو مشقت اور محنت کے باوجود باعثِ مسرت ہوتی ہے اور گھر میں جتنے افراد ہوتے ہیں یہ احساس اتنا ہی خوش گوار ہوتا ہے۔

جب گھر کے تمام افراد ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور سحری افطاری کی تیاری میں خواتین کی مدد کریں، تو بلاشبہ یہ سب گھروالوں کے لیے ایک تفریحی سرگرمی بن جاتی ہے۔ ساتھ ہی رمضان المبارک میں ایک دوسرے کی مدد کر کے ہم اپنے اعمال اور نیکیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

ایک طرف حضرات کو گھر کے کاموں سے استثنا حاصل ہوتا ہے، جس کا جواز یہ ہے کہ وہ نوکری پر جاتے ہیں یا کما کر لاتے ہیں۔ لیکن پھر ان خواتین کا کیا جو نوکری کر کے گھر کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں اور پھر گھر کی تمام تر ذمہ داریاں بھی احسن طریقے سے پوری کرتی ہیں۔

رمضان المبارک کی اصل روح یہ ہی ہے کہ انسان کے دن کے وقت کا زیادہ ترحصہ عبادات اور اذکار میں گزارا جائے، لیکن ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باعث خواتین کو عبادت کے لیے بھی برابر مواقع میسر نہیں ہوپاتے جو کہ کسی المیہ سے کم نہیں۔

خواتین کے لیے مخصوص معاشرتی رویوں پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تفریق پر مبنی ان رویوں کو بڑے پیمانے پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔ بہت سے گھرانوں میں حضرات سحری اور افطاری کی تیاری میں خواتین کا ہاتھ بٹانے میں خوشی اور اطمینان محسوس کرتے ہیں، لیکن بہت سے خاندانوں میں آج بھی اس کو معاشرتی رسم و رواج اور اقدار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

ان تمام مشکلات کا حل بہت آسان ہے۔ بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی گھر کے کاموں کو باٹنے اور اس میں خواتین کی مدد کرنے کی تربیت دینی چاہیے۔

اس طرح مختلف کاموں میں خواتین کی مدد سے ان کو جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تھکاوٹ سے بچنے کے ساتھ نماز اور دیگر عبادات کے لیے مناسب وقت بھی مل سکے گا۔ خلاصہ یہ کہ خواتین و حضرات دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کو یک ساں طور پر تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ رمضان المبارک عبادات اور اپنے نفس کے تذکیے کے لیے خاص مہینا ہے۔

رمضان خاندان اور دوستوں کے ساتھ اپنا بندھن مضبوط کرنے کا موقع ہے۔ خواتین کو بھی اس کے لیے مساوی وقت ملنا چاہیے۔ صرف اس کے بعد ہی ہم رمضان کی روح کو صحیح طریقے سے محسوس کر سکتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ اس رمضان ہم سب نیکی کے لیے خود کو بدلنا شروع کریں گے۔ گو کہ یہ ایک معمولی ترقی پسند تبدیلی ہے، لیکن ہمیں اسے اہم بنانے کی ضرورت ہے! اگرہم لوگ اپنی سوچ بدل لیں تو ان رسموں کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ تبدیلی گھر سے شروع ہوتی ہے۔ آئیے اس رمضان کو ہر ایک کے لیے آسان بنائیں اورخواتین کو بھی یک ساں عبادتوں کے مواقع مہیا کریں۔
Load Next Story