موسمیاتی تبدیلیاں اور رولنگ کلاس
پاکستانی معیشت میں اب اتنی جان نہیں ہے کہ وہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل فراہم کر سکے
پاکستان میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہے ' اس موسم میں ہونے والی بارشیں گندم کی فصل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں ۔ خاص طور پر میدانی علاقوں میں ان بارشوں سے گندم کی فصل زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں کے تناسب میں فرق آ گیا ہے۔
ان ایام میں بارش ہوتی ضرور ہے تاہم اس کی شدت اور دورانیے میں کمی ہوتی ہے لیکن اس بار بارشوں کی شدت بھی زیادہ اور دورانیہ بھی زیادہ ہے۔ میڈیا کے مطابق بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی پہاڑی علاقوں میںشدید بارشیں جاری ہیں۔
گزشتہ روز شدید بارشوں کے باعث ژوب ڈیرہ اسماعیل خان قومی شاہراہ پر کوہ سلیمان رینج میں ''دانہ سر'' کے مقام پرلینڈ سلائیڈنگ سے بلوچستان، خیبرپختونخواہ شاہراہ کا بڑا حصہ متاثر ہونے سے ٹریفک معطل ہو گئی'اس سڑک کو کھول دیا گیا ہے لیکن بارشیں مسلسل ہو رہی ہیں۔
جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان پر شدید بارشوں کے باعث نیچے میدانی علاقوں میں فصلوں کو نقصان ہوا ہے۔ محکمہ موسمیات یہ اطلاع دے رہا ہے کہ ملک کے بالائی علاقوں میں مزیدبارشوں کا امکان ہے۔
شمالی بلوچستان، خیبر پختونخوا، بالائی /وسطی پنجاب،کشمیراورگلگت بلتستان میں بارش اور ژالہ باری کا امکان ،موسلا دھار بارش کے باعث مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے ۔ادھر پنجاب بھر میں اتوار اور پیر کی درمیانی رات سے وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ بارش کے باعث کئی علاقوں میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے ۔
ابھی مون سون کا آغاز نہیں ہوا ہے ' حالیہ بارشوں سے مون سون میں ہونے والی بارشوں اور ممکنہ سیلابی صورت حال کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور فضائی اور ماحولیاتی آلودگی کرہ ارض کو بری طرح متاثر کر رہی ہے ۔
دنیا میں موسمیاتی بحران روز بروز سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے، پاکستان اور دیگر غریب ممالک اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ برس مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے جو تباہی مچائی وہ سب کے سامنے ہے۔
عالمی برادری موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کا سامنا کرنے والے ملکوں کی مدد ضرور کر رہی ہے تاہم یہ مدد اتنی نہیں ہے کہ اس تباہی کو روکا جا سکے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ممالک میں شامل ہے۔ گزشتہ برس مون سون کی تباہی کے اثرات تاحال موجود ہیں۔سندھ میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ابھی تک معمولات زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں اور اس پر اب اگلا مون سون بھی شروع ہونے والا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے کثیر الجہتی نقصانات اٹھا رہا ہے۔
ایک جانب شدید بارشیں اور سیلاب تباہی پھیلاتے ہیں تو دوسری جانب زیر زمین پانی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ دریاؤں میں پانی بھی کم ہو رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر ہے ، یعنی پاکستان دریاؤں کے پانی کا فقط دس فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
گزشتہ برس اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ نے انسانیت کے لیے ایک کوڈ ریڈ جاری کیا تھا ، اس کے تحت اگر دنیا نے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ابھی عمل نہیں کیا تو شدید گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی کمی کا انتباہ کیا گیا تھا۔
اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے، کیونکہ ہر 6 اموات میں سے ایک موت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
موسم بدلتے ہی سارا پنجاب اسموگ کی بھینٹ میں آ جاتا ہے۔گزشتہ برس عالمی ادارہ صحت کی ایک چشم کشا رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال 15سال سے کم عمر کے تقریباً 6 لاکھ بچے مر جاتے ہیں۔
نزلہ ، کھانسی ، گلا خراب ، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو اسموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔
جب کہ اسموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ عالمی ادارہ صحت کی مذکورہ رپورٹ عام دنوں کے حوالے سے ہے اور اس امر کی شاہد کہ ہماری فضا اس قدر زہریلی ہو چکی کہ اس میں سانس لینا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں موسم کی خلاف توقع تبدیلیوں نے انسانی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جلد موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نمٹا گیا تو پاکستان میں واٹر اور فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ شدت اختیار کر جائے گا۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی تسلسل سے یہ موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں تو جانداروں کی زندگی خطرے میں پڑجائے گی۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم سے موافقت اختیار نہ کی تو پاکستان پانی اور غذائی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، سد باب کے لیے پالیسی لیول پر اقدامات ناگزیر ہیں۔
پاکستان کو اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے بے پناہ وسائل درکار ہیں جو پاکستان کی معیشت فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے ۔
عالمی برادری کی امداد بھی نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے کم ہے جب کہ پاکستان کے پاس اپنے وسائل موجود نہیں ہیں ۔ ملک بدترین معاشی بحران کا شکارہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کے بجائے انتشار اور انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سابق حکومت کی بے سمت خارجہ اور داخلہ پالیسی نے پاکستان کو اس پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے کہ اب عالمی منظر نامے میں دوست ملک ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے۔
سابق حکومت کے دورمیں پاکستان مسلسل آئی ایم ایف کی گرے لسٹ میں موجود رہا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت سے پہلے انکار کیا گیا لیکن پھر بعد میں بات کرنی پڑی تو حالات خاصے سنگین ہو چکے تھے۔
کورونا کی وباء نے ملکی معیشت پر اورکاروباری سرگرمیوں پر بوجھ ڈال دیا۔ ادھر خارجہ پالیسی کے رخ کا تعین نہ ہونے کی بنا پر پاکستان عالمی صف بندی میں اپنی پوزیشن بدلتا رہا' افغانستان میں طالبان حکومت کی بے جا حمایت نے بھی عالمی صف بندی میں پاکستان کی پوزیشن کو مشکوک بنایا' ان سب حالات نے مل کر پاکستانی معیشت کا دھڑن تخت کر دیا۔
پاکستانی معیشت میں اب اتنی جان نہیں ہے کہ وہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل فراہم کر سکے۔ مون سون کا سیزن بھی دو چارماہ کی دوری پر ہے جب کہ پاکستان کا انفرااسٹرکچر پہلے سے بھی زیادہ بوسیدہ اور فرسودہ ہو چکا ہے۔
ترقیاتی فنڈز موجود نہیں ہیں' دریاؤں ندی نالوں اور شہروں میں گندے نالوں اور سیوریج سسٹم کی صفائی کے کام نہ ہونے کے برابر ہیں'بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ زرعی معیشت قدرت کے رحم و کرم پر ہے۔
حکومت اس قابل نہیں ہے کہ وہ قدرتی آفات سے زرعی معیشت کو بچا سکے۔آج پاکستان میں اناج کی مہنگائی ہی نہیں بلکہ قلت بھی موجود ہے ' سبزیوں کی پیداوار کم ہے جس کی وجہ سے سبزیوں کے نرخوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اسی طرح پاکستان کے بالائی علاقوں میں ہونے والی شدید بارشوں میں مختلف پھلوں اور میوہ جات کی فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ پاکستان کے پاس جنگلات پہلے ہی کم ہیں' اس کے باوجود جنگلات کی کٹائی کا عمل جاری و ساری ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بے دریغ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں' سیمنٹ اور ماربل کی تیاری کے لیے پہاڑوں کو توڑا جا رہا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر پاکستان کے بالائی علاقے شدید خطرات کا شکار ہو رہے ہیں ' ان علاقوں میں زلزلوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بھی ان علاقوں میں جنگلات کی کٹائی اور پہاڑوں کو توڑنے اور کاٹنے کا عمل ہے۔ پاکستان کو اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی رولنگ کلاس اپنے مفادات کو لگام ڈالے۔ پاکستان کی رولنگ کلاس کے پاس جو دولت آئی ہے ' وہ کسی محنت کے عمل کے نتیجے میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ دولت سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ' قومی بینکوں سے لیے گئے قرضوں اور پھر انھیں معاف کرانے کی وجہ سے اکٹھی کی گئی ہیں۔
سرد جنگ کے دوران پاکستان میں غیر ملکی امداد کو ذاتی ملکیت میں منتقل کرنے کی وجہ سے بھی ایک متوسط ذہانت کا حامل طبقہ بے پناہ اثرورسوخ اور دولت کا مالک بن گیا ہے۔ جب تک اس طبقے کو احتساب اور قانون کی گرفت میں نہیں لایا جائے گا پاکستان میں نہ سیاسی استحکام آئے گا اور نہ ہی معاشی استحکام آئے گا۔
ان ایام میں بارش ہوتی ضرور ہے تاہم اس کی شدت اور دورانیے میں کمی ہوتی ہے لیکن اس بار بارشوں کی شدت بھی زیادہ اور دورانیہ بھی زیادہ ہے۔ میڈیا کے مطابق بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی پہاڑی علاقوں میںشدید بارشیں جاری ہیں۔
گزشتہ روز شدید بارشوں کے باعث ژوب ڈیرہ اسماعیل خان قومی شاہراہ پر کوہ سلیمان رینج میں ''دانہ سر'' کے مقام پرلینڈ سلائیڈنگ سے بلوچستان، خیبرپختونخواہ شاہراہ کا بڑا حصہ متاثر ہونے سے ٹریفک معطل ہو گئی'اس سڑک کو کھول دیا گیا ہے لیکن بارشیں مسلسل ہو رہی ہیں۔
جنوبی پنجاب میں کوہ سلیمان پر شدید بارشوں کے باعث نیچے میدانی علاقوں میں فصلوں کو نقصان ہوا ہے۔ محکمہ موسمیات یہ اطلاع دے رہا ہے کہ ملک کے بالائی علاقوں میں مزیدبارشوں کا امکان ہے۔
شمالی بلوچستان، خیبر پختونخوا، بالائی /وسطی پنجاب،کشمیراورگلگت بلتستان میں بارش اور ژالہ باری کا امکان ،موسلا دھار بارش کے باعث مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے ۔ادھر پنجاب بھر میں اتوار اور پیر کی درمیانی رات سے وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ بارش کے باعث کئی علاقوں میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے ۔
ابھی مون سون کا آغاز نہیں ہوا ہے ' حالیہ بارشوں سے مون سون میں ہونے والی بارشوں اور ممکنہ سیلابی صورت حال کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور فضائی اور ماحولیاتی آلودگی کرہ ارض کو بری طرح متاثر کر رہی ہے ۔
دنیا میں موسمیاتی بحران روز بروز سنگین اور زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے، پاکستان اور دیگر غریب ممالک اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ برس مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے جو تباہی مچائی وہ سب کے سامنے ہے۔
عالمی برادری موسمی تبدیلیوں کے شدید خطرات کا سامنا کرنے والے ملکوں کی مدد ضرور کر رہی ہے تاہم یہ مدد اتنی نہیں ہے کہ اس تباہی کو روکا جا سکے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ممالک میں شامل ہے۔ گزشتہ برس مون سون کی تباہی کے اثرات تاحال موجود ہیں۔سندھ میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ابھی تک معمولات زندگی بحال نہیں ہو سکے ہیں اور اس پر اب اگلا مون سون بھی شروع ہونے والا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے کثیر الجہتی نقصانات اٹھا رہا ہے۔
ایک جانب شدید بارشیں اور سیلاب تباہی پھیلاتے ہیں تو دوسری جانب زیر زمین پانی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ دریاؤں میں پانی بھی کم ہو رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا۔ سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر ہے ، یعنی پاکستان دریاؤں کے پانی کا فقط دس فیصد پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
گزشتہ برس اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹ نے انسانیت کے لیے ایک کوڈ ریڈ جاری کیا تھا ، اس کے تحت اگر دنیا نے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ابھی عمل نہیں کیا تو شدید گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی کمی کا انتباہ کیا گیا تھا۔
اس وقت جنگوں سے زیادہ انسان کو درجہ حرارت میں اضافے سے خطرہ ہے، کیونکہ ہر 6 اموات میں سے ایک موت ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
موسم بدلتے ہی سارا پنجاب اسموگ کی بھینٹ میں آ جاتا ہے۔گزشتہ برس عالمی ادارہ صحت کی ایک چشم کشا رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال 15سال سے کم عمر کے تقریباً 6 لاکھ بچے مر جاتے ہیں۔
نزلہ ، کھانسی ، گلا خراب ، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو اسموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔
جب کہ اسموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ عالمی ادارہ صحت کی مذکورہ رپورٹ عام دنوں کے حوالے سے ہے اور اس امر کی شاہد کہ ہماری فضا اس قدر زہریلی ہو چکی کہ اس میں سانس لینا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں موسم کی خلاف توقع تبدیلیوں نے انسانی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جلد موسمیاتی تبدیلیوں سے نہ نمٹا گیا تو پاکستان میں واٹر اور فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ شدت اختیار کر جائے گا۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی تسلسل سے یہ موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں تو جانداروں کی زندگی خطرے میں پڑجائے گی۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم سے موافقت اختیار نہ کی تو پاکستان پانی اور غذائی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، سد باب کے لیے پالیسی لیول پر اقدامات ناگزیر ہیں۔
پاکستان کو اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے بے پناہ وسائل درکار ہیں جو پاکستان کی معیشت فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے ۔
عالمی برادری کی امداد بھی نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے کم ہے جب کہ پاکستان کے پاس اپنے وسائل موجود نہیں ہیں ۔ ملک بدترین معاشی بحران کا شکارہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کے بجائے انتشار اور انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سابق حکومت کی بے سمت خارجہ اور داخلہ پالیسی نے پاکستان کو اس پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے کہ اب عالمی منظر نامے میں دوست ملک ڈھونڈنا مشکل ہو رہا ہے۔
سابق حکومت کے دورمیں پاکستان مسلسل آئی ایم ایف کی گرے لسٹ میں موجود رہا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت سے پہلے انکار کیا گیا لیکن پھر بعد میں بات کرنی پڑی تو حالات خاصے سنگین ہو چکے تھے۔
کورونا کی وباء نے ملکی معیشت پر اورکاروباری سرگرمیوں پر بوجھ ڈال دیا۔ ادھر خارجہ پالیسی کے رخ کا تعین نہ ہونے کی بنا پر پاکستان عالمی صف بندی میں اپنی پوزیشن بدلتا رہا' افغانستان میں طالبان حکومت کی بے جا حمایت نے بھی عالمی صف بندی میں پاکستان کی پوزیشن کو مشکوک بنایا' ان سب حالات نے مل کر پاکستانی معیشت کا دھڑن تخت کر دیا۔
پاکستانی معیشت میں اب اتنی جان نہیں ہے کہ وہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل فراہم کر سکے۔ مون سون کا سیزن بھی دو چارماہ کی دوری پر ہے جب کہ پاکستان کا انفرااسٹرکچر پہلے سے بھی زیادہ بوسیدہ اور فرسودہ ہو چکا ہے۔
ترقیاتی فنڈز موجود نہیں ہیں' دریاؤں ندی نالوں اور شہروں میں گندے نالوں اور سیوریج سسٹم کی صفائی کے کام نہ ہونے کے برابر ہیں'بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ زرعی معیشت قدرت کے رحم و کرم پر ہے۔
حکومت اس قابل نہیں ہے کہ وہ قدرتی آفات سے زرعی معیشت کو بچا سکے۔آج پاکستان میں اناج کی مہنگائی ہی نہیں بلکہ قلت بھی موجود ہے ' سبزیوں کی پیداوار کم ہے جس کی وجہ سے سبزیوں کے نرخوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اسی طرح پاکستان کے بالائی علاقوں میں ہونے والی شدید بارشوں میں مختلف پھلوں اور میوہ جات کی فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ پاکستان کے پاس جنگلات پہلے ہی کم ہیں' اس کے باوجود جنگلات کی کٹائی کا عمل جاری و ساری ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بے دریغ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں' سیمنٹ اور ماربل کی تیاری کے لیے پہاڑوں کو توڑا جا رہا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر پاکستان کے بالائی علاقے شدید خطرات کا شکار ہو رہے ہیں ' ان علاقوں میں زلزلوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بھی ان علاقوں میں جنگلات کی کٹائی اور پہاڑوں کو توڑنے اور کاٹنے کا عمل ہے۔ پاکستان کو اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی رولنگ کلاس اپنے مفادات کو لگام ڈالے۔ پاکستان کی رولنگ کلاس کے پاس جو دولت آئی ہے ' وہ کسی محنت کے عمل کے نتیجے میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ دولت سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ' قومی بینکوں سے لیے گئے قرضوں اور پھر انھیں معاف کرانے کی وجہ سے اکٹھی کی گئی ہیں۔
سرد جنگ کے دوران پاکستان میں غیر ملکی امداد کو ذاتی ملکیت میں منتقل کرنے کی وجہ سے بھی ایک متوسط ذہانت کا حامل طبقہ بے پناہ اثرورسوخ اور دولت کا مالک بن گیا ہے۔ جب تک اس طبقے کو احتساب اور قانون کی گرفت میں نہیں لایا جائے گا پاکستان میں نہ سیاسی استحکام آئے گا اور نہ ہی معاشی استحکام آئے گا۔