ایسے حکومتی نظام چل سکے گا
ہم معاشرے میں متبادل آوازوں یا مخالف آوازوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں
کیا ملک سیاسی ، جمہوری ، اخلاقی ، آئینی ، قانونی بنیادوں سمیت منصفانہ اور شفافیت کی بنیاد پر چل سکے گا؟یہ ہے وہ بنیادی نوعیت کا سوال جو ہم سب میں زیر بحث رہتا ہے ۔
کیونکہ اگر ہم نے واقعی مہذب اور ذمے دار ریاست کے طور پر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں کچھ بنیادی نوعیت کے اصولوں کو اپنی سوچ، فکر اور بنیاد بنانا ہوگا۔آج کی دنیا جدیدیت کی دنیا ہے اور جہاں ڈیجیٹل کی دنیا نے معلومات کے پھیلاؤ، علم اور فکر کی بنیادوں کو نئی جہت دی ہے ۔
ہم کسی بھی طور پر سیاسی تنہائی میں نہیں جی سکتے، ہمیں اگر دنیا کے ساتھ جڑنا ہے یا اپنی صلاحیتوں سمیت ساکھ کو منوانا ہے تو دنیا کو خود کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور ان ہی غلطیوں کو بڑی شدت کے ساتھ دہرا رہے ہیں جن کو ہمیں چھوڑ کر آگے بڑھنا تھا ۔
معاشرے محض قانون سازی ، پالیسی سازی یا محض بڑے بڑے انتظامی نوعیت کے ڈھانچوں کی بنیاد پر ترقی نہیں کرتے بلکہ اس کی ترقی میں انسانی ترقی اور اس سے جڑے سیاسی ، جمہوری اور اخلاقی معیارات بھی اہمیت رکھتے ہیں ۔
آج پاکستان میں انسانی حقوق یا سیاسی اور جمہوری حقوق کا مقدمہ کافی کمزور ہے ۔ ہم معاشرے میں متبادل آوازوں یا مخالف آوازوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ۔متبادل سوچ، فکر اور خیالات رکھنے والے افراد کو کسی نہ کسی شکل میں مزاحمت اور طاقت کے استعمال کا سامنا ہے ۔
سب سے خطرناک رجحان یہ ہے کہ ہم مخالف آوازوں کو فوری طور پر ملک دشمنی یا غیر ملکی ایجنڈے کے ساتھ جوڑ کر نئی نئی دلیلوں کو پیش کرتے ہیں ۔ دہشت گردی کے الزام کو ہم اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف '' ایک بڑے سیاسی ہتھیار'' کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔
آج کے سیاسی بحران کو دیکھیں تو ہمیں حکمران طبقہ کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کی حکمت عملی کافی حد تک بالادست نظر آتی ہے ۔
عمران خان پر درجنوں کی تعداد میں بننے والے مقدمے جن میں دہشت گردی ، ریاستی سطح پر مداخلت ، توہین مذہب ، توہین عدالت، توہین ججز، اقدام قتل جیسے مقدمات ہیں ۔اسی طرح پی ٹی آئی کے دیگر راہنماؤں پر بھی اسی نوعیت کو بنیاد بنا کر مقدمات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ حالانکہ یہ تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اور اصل مسئلہ بھی سیاسی ہے اور اسی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو حکومتی جبر کا سامنا ہے ۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم نے مجموعی طور پر سیاسی مخالفت یا سیاسی تنقید کوسیاسی دشمنی میںبدل دیا ہے ۔ اس طرح کی سوچ میں ہم سیاسی مخالفین کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنے کے بجائے ان کو انتظامی اور قانونی طاقت کی بنیاد پر ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
عمران خان کی حکومت میں بھی صحافیوں کو مختلف حوالوں سے ان کی مزاحمت کا سامنا تھا اور آج وہی کچھ عمران خان کے حامی صحافیوں کے ساتھ ہورہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے پرانی ڈگر پر ہی چلنا ہے ۔
سیاسی کارکنوں کو سیاسی دہشت گرد یا کالعدم تنظیموں کے ساتھ جوڑنا یا ان کارکنوں میں لسانی سیاست کو ابھارنا اور سیاسی جدوجہد کو مختلف منفی نام دینے کی روایت بھی اچھی نہیں ۔ سیاسی قیادتوں کے گھر چھاپے اور وہاں سے اسلحہ کی برآمدگی کی کہانی بھی پرانی ہے اور یہ عمل ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتا تھا ۔
ہماری حکومت کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ آج کی گلوبل دنیا میں جو کچھ یہاں ہورہا ہے اسے چھپایا نہیں جاسکتا ۔ ڈیجیٹل ابلاغ کی دنیا کافی تیز ہے اور جو کچھ یہاں ہورہا ہے وہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔
ان کی دکھائی جانے والی تصویروں کی بنیاد پر ہماری دنیا میں سیاسی و جمہوری بنیادوں پر ریٹنگ ہوتی ہے اور ہماری ریاستی ساکھ کو منفی یا مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر دیکھاجاتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی تحویل میں کسی کو رکھنے کے باوجود اس سے انکار کیا جاتا ہے اور لوگوں کے پاس اس سلسلے میں آخری امید اعلیٰ عدالتیں ہی رہ جاتی ہیں جو ان کو کچھ کچھ ریلیف دینے کا ذریعہ بھی بنتا ہے ۔
کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں سیاسی و سماجی تحریکوں یا کمزور طبقات کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔کیوں حکمران طبقہ ان محروم طبقات کی آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں اور کیوں ان کی ملک سے وفاداری کو چیلنج کرکے انھیں یرغمال یا ریاستی وحکومتی جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
یہ سب کچھ تبدیل ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں حکمران طبقات سمیت ادارہ جاتی عمل کو زیادہ شفافیت یا آئین یا قانون کی حکمرانی کے تابع کرنا ہوگا۔جس ملک میں آئین اور قانون کی مضبوط حکمرانی ہوگی وہیں طاقت کے غلط استعمال کو روکا جاسکتا ہے اور یہ ہی سوچ ہماری سیاسی کنجی ہونی چاہیے ۔
آج جو ہمارے حکومتی سطح کے اقدامات اورسوچ پر سوالات اٹھ رہے ہیں ان کو ہر سطح پر سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔
ان مخالف یا متبادل آوازوں کو اپنا حکومتی دشمن سمجھنے کے بجائے ان کی جانب سے اٹھنے والے سوالات و جوابات یا تحفظات کو سنجیدگی سے لیا جائے ۔ یہ غور طلب مسئلہ ہے جس پر زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسے کونسے عوامل یا وجوہات ہیں جن کی بنا پر لوگ ریاست یا حکمرانی کے نظام سے نالاں ہیں ۔ ہمیں ان متبادل آوازوں کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے اور ان میں پائے جانے والے درست یا غلط تحفظات کو ختم کرکے انھیں اپنی طاقت بنانا ہے ۔
اگر حکمران طبقہ ایک قدم آگے بڑھ کر لوگوں کے بنیادی سیاسی اور سماجی و جمہوری یا آئینی و قانونی حقوق سمیت دیگر حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے گا تو لوگ بھی اس کے ساتھ کھڑے ہونگے ۔ہمیںاگر اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ لوگ ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں تو ریاست کو بھی ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔