تعمیراتی لاگت میں اضافہ پختہ گھر کی تعمیر خواب بننے لگا
کوئلے اور ٹرانسپورٹ اخراجات بڑھنے سے اینٹوں کی پروڈکشن لاگت بڑھ گئی، پنجاب میں سینکڑوں بھٹے بند ہوگئے
کوئلے اور ٹرانسپورٹ اخراجات بڑھنے کی وجہ سے اینٹیوں کی پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے جبکہ دوسری طرف میٹریل مہنگا ہونے کی وجہ سے تعمیراتی کاموں میں بھی کمی دیکھی جا رہی ہے۔
بھٹہ مالکان کے مطابق اینٹوں کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے جبکہ اینٹ کی قیمت گزشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ خسارے کی وجہ سے پنجاب میں 20 فیصد بھٹے مکمل بند ہوچکے ہیں جبکہ 70 فیصد کے قریب بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تعمیراتی میٹریل کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کے لیے پختہ گھر بنانا ایک خواب بنتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب میں ہزاروں بھٹے بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں جس سے لاکھوں افراد بیروزگار ہوں گے۔
لاہور کے علاقہ مناواں کے رہائشی رانا آفتاب نے تین ماہ پہلے نجی سوسائٹی میں گھر کی تعمیرشروع کی تھی لیکن تعمیراتی میٹریل اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ انہیں گھر کی تعمیر روکنا پڑی ہے۔
رانا آفتاب نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تین مرلہ کا سنگل اسٹوری گھر بنا رہے ہیں، انہوں نے باقاعدہ نقشہ بنوایا اور ایک مقامی ماہر تعمیرات سے اخراجات کا تخمینہ بھی لگوایا تھا جو تقریباً 21 لاکھ روپے تھا۔ رانا آفتاب کہتے ہیں اس وقت تک تقریباً 18 لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں لیکن ابھی صرف گھر کا ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے اور لینٹر ڈالا گیا ہے جبکہ فرش، پلستر سمیت دیگر کام ہونا باقی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی مزید 10 سے 15 لاکھ روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔
رانا آفتاب کے مطابق ماہر تعمیرات نے جو لاگت بتائی تھی اس کے مطابق 30 ہزار اینٹ، 350 بوری سیمنٹ، 1100 مربع فٹ ریت، 800 مربع فٹ بجری جبکہ 1250 کلوگرام سریا سمیت کھ دیگر اخراجات شامل کرکے مجموعی لاگت 21 لاکھ روپے بتائی تھی لیکن دو ماہ کے دوران ہی سریا اورسیمنٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے۔
مارکیٹ میں اس وقت اینٹوں کی قیمت گزشتہ پانچ سال میں کم ترین سطح پر ہے۔
لاہور میں فی ہزار اینٹ کی قیمت ساڑھے 11 ہزار روپے، قصور، پتوکی اور اوکاڑہ میں 9 ہزار روپے، پاکپتن میں 7500 سے 8 ہزار روپے، ساہیوال میں 6 ہزار روپے، رحیم یار خان میں 7500 سے 8 ہزار روپے جبکہ ملتان میں سات سے 7500روپے تک ہے۔ لاہور میں اینٹوں کے ڈلیوری اخراجات شامل کرکے 15 ہزار روپے تک فی ہزار میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ گزشتہ سال لاہور میں فی ہزار اینٹ کی قیمت 17 ہزار روپے تک تھی۔
بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل مہر عبدالحق نے بتایا کہ پہلے 10 لاکھ اینٹوں کی تیاری کا خرچہ 70 سے 80 لاکھ روپے تھا جو اب بڑھ کر ایک کروڑ 20 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان سے منگوائے جانے والے کوئلے کی فی ٹن قیمت 14 سے 15 ہزار روپے تھی جو بڑھ کر 30 سے 35 ہزار ہوگئی جبکہ حیدرآباد سے منگوائے جانے والے کوئلے کی فی ٹن قیمت 6 ہزار روپے فی ٹن تھی جو 12 ہزار روپے ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح فی ٹن کوئلے کا کرایہ چار ہزار روپے سے بڑھ کر 8 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ مٹی کی ٹرالی کی قیمت 1500 روپے سے بڑھ کر 2500 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
مہرعبدالحق نے بتایا کہ ایم بھٹہ مالک کو ماہانہ کم و بیش 10 سے 15 لاکھ روپے خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ جب اینٹوں کی تیاری کے لیے آگ جلائی جاتی ہے تو پھر پراسیس مکمل ہونےسے پہلے اسے بجھایا نہیں جا سکتا۔ ہزاروں مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے لیکن اس وقت پنجاب میں 20 فیصد مکمل بند جبکہ 70 فیصد بھٹے مسلسل خسارے اور اینٹوں کی فروخت میں کمی وجہ سے بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ پنجاب میں اینٹوں کے بھٹوں کی مجموعی تعداد 7 ہزار332 ہے۔
واضع رہے کہ گزشتہ سال جنوبی پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بھی بھٹہ انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچا لیکن اس شعبے کو انڈسٹری کا درجہ نہ ملنے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے کوئی امداد مل سکی اور نہ ہی بھٹوں کو دوبارہ بحال کرنے لیے کوئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ مظفرگڑھ، راجن پور، تونسہ، ڈی جی خان، وہاڑی اور لیہ میں اینٹوں کو بھٹوں کو سیلاب سے شدید نقصان پہنچا تھا۔ لاکھوں کچی اور تیار اینٹیں خراب ہونے سمیت بھٹوں کے اندرپانی داخل ہوگیا تھا۔
بھٹہ مالکان کے مطابق اینٹوں کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے جبکہ اینٹ کی قیمت گزشتہ پانچ سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ خسارے کی وجہ سے پنجاب میں 20 فیصد بھٹے مکمل بند ہوچکے ہیں جبکہ 70 فیصد کے قریب بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تعمیراتی میٹریل کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کے لیے پختہ گھر بنانا ایک خواب بنتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب میں ہزاروں بھٹے بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں جس سے لاکھوں افراد بیروزگار ہوں گے۔
لاہور کے علاقہ مناواں کے رہائشی رانا آفتاب نے تین ماہ پہلے نجی سوسائٹی میں گھر کی تعمیرشروع کی تھی لیکن تعمیراتی میٹریل اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ انہیں گھر کی تعمیر روکنا پڑی ہے۔
رانا آفتاب نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ تین مرلہ کا سنگل اسٹوری گھر بنا رہے ہیں، انہوں نے باقاعدہ نقشہ بنوایا اور ایک مقامی ماہر تعمیرات سے اخراجات کا تخمینہ بھی لگوایا تھا جو تقریباً 21 لاکھ روپے تھا۔ رانا آفتاب کہتے ہیں اس وقت تک تقریباً 18 لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں لیکن ابھی صرف گھر کا ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے اور لینٹر ڈالا گیا ہے جبکہ فرش، پلستر سمیت دیگر کام ہونا باقی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی مزید 10 سے 15 لاکھ روپے خرچ ہونے کا امکان ہے۔
رانا آفتاب کے مطابق ماہر تعمیرات نے جو لاگت بتائی تھی اس کے مطابق 30 ہزار اینٹ، 350 بوری سیمنٹ، 1100 مربع فٹ ریت، 800 مربع فٹ بجری جبکہ 1250 کلوگرام سریا سمیت کھ دیگر اخراجات شامل کرکے مجموعی لاگت 21 لاکھ روپے بتائی تھی لیکن دو ماہ کے دوران ہی سریا اورسیمنٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے۔
مارکیٹ میں اس وقت اینٹوں کی قیمت گزشتہ پانچ سال میں کم ترین سطح پر ہے۔
لاہور میں فی ہزار اینٹ کی قیمت ساڑھے 11 ہزار روپے، قصور، پتوکی اور اوکاڑہ میں 9 ہزار روپے، پاکپتن میں 7500 سے 8 ہزار روپے، ساہیوال میں 6 ہزار روپے، رحیم یار خان میں 7500 سے 8 ہزار روپے جبکہ ملتان میں سات سے 7500روپے تک ہے۔ لاہور میں اینٹوں کے ڈلیوری اخراجات شامل کرکے 15 ہزار روپے تک فی ہزار میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ گزشتہ سال لاہور میں فی ہزار اینٹ کی قیمت 17 ہزار روپے تک تھی۔
بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل مہر عبدالحق نے بتایا کہ پہلے 10 لاکھ اینٹوں کی تیاری کا خرچہ 70 سے 80 لاکھ روپے تھا جو اب بڑھ کر ایک کروڑ 20 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ بلوچستان سے منگوائے جانے والے کوئلے کی فی ٹن قیمت 14 سے 15 ہزار روپے تھی جو بڑھ کر 30 سے 35 ہزار ہوگئی جبکہ حیدرآباد سے منگوائے جانے والے کوئلے کی فی ٹن قیمت 6 ہزار روپے فی ٹن تھی جو 12 ہزار روپے ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح فی ٹن کوئلے کا کرایہ چار ہزار روپے سے بڑھ کر 8 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ مٹی کی ٹرالی کی قیمت 1500 روپے سے بڑھ کر 2500 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
مہرعبدالحق نے بتایا کہ ایم بھٹہ مالک کو ماہانہ کم و بیش 10 سے 15 لاکھ روپے خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ جب اینٹوں کی تیاری کے لیے آگ جلائی جاتی ہے تو پھر پراسیس مکمل ہونےسے پہلے اسے بجھایا نہیں جا سکتا۔ ہزاروں مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے لیکن اس وقت پنجاب میں 20 فیصد مکمل بند جبکہ 70 فیصد بھٹے مسلسل خسارے اور اینٹوں کی فروخت میں کمی وجہ سے بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ پنجاب میں اینٹوں کے بھٹوں کی مجموعی تعداد 7 ہزار332 ہے۔
واضع رہے کہ گزشتہ سال جنوبی پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بھی بھٹہ انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچا لیکن اس شعبے کو انڈسٹری کا درجہ نہ ملنے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے کوئی امداد مل سکی اور نہ ہی بھٹوں کو دوبارہ بحال کرنے لیے کوئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ مظفرگڑھ، راجن پور، تونسہ، ڈی جی خان، وہاڑی اور لیہ میں اینٹوں کو بھٹوں کو سیلاب سے شدید نقصان پہنچا تھا۔ لاکھوں کچی اور تیار اینٹیں خراب ہونے سمیت بھٹوں کے اندرپانی داخل ہوگیا تھا۔