طالبان سے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق امن خراب کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینگے قومی سلامتی کمیٹی
اہم اداروں کے ذمے داران کاایک دوسرے کیخلاف بیان بازی نہ کرنے پراتفاق،جنگ بندی ختم کرنے پرتحفظات کا اظہار
قومی سلامتی کمیٹی نے عوام کی خوشحالی کیلیے ملک کو تصادم کے بجائے مواقع کے راستے پر گامزن کرنے کے وژن کی توثیق کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں اور ترقیاتی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے قومی سلامتی کے تمام فیصلے اجتماعی سوچ کے ذریعے کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کا انتہائی اہم اجلاس وزیراعظم ہائوس میں نواز شریف کی صدارت میں ہوا جس میں وزیر دفاع، وزیر خزانہ، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، مشیر قومی سلامتی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ، آرمی چیف، نیول اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت کی ٹھوس اقتصادی پالیسیوں سے حاصل کیے جانے والے اقتصادی مقاصد مضبوط بنانے کیلیے قومی سلامتی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ امن و سلامتی کیلیے تمام دستیاب وسائل اور پالیسی آپشنز بروئے کار لائے جائیں گے۔ اجلاس میں طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تاہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا کہ اگر انتہاپسندی کی راہ پر چلنے والوں نے امن عامہ کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی تو منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔
وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی ایک اعلیٰ ترین فورم ہے جس میں ریاستی اداروں کو ہر اہم ریاستی معاملے پر اپنے نکتہ نظر کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ اس سے حکومت کو فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے اور قومی سلامتی کے اہم فیصلوں میں اجتماعی دانش کا اظہار ہوتا ہے۔ کمیٹی کو وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین، یورو بانڈ کے کامیاب اجرأ اور سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ملکی داخلی سلامتی کی صورتحال اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دی۔ بھارت میں ہونیوالے انتخابات کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ بلوچستان میں امن عامہ اور مغربی سرحدی صورتحال بھی زیرغور آئی۔
ایک نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ طالبان کو رابطہ کار کمیٹی کے ذریعے پیغام بھجوایا جائیگا کہ وہ جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ واپس لیں حکومت مذاکرات جاری رکھے گی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا طالبان کی قیدیوں کی فہرست پر سول اور فوجی قیادت مشاورت کرے گی جس کے بعد انکی رہائی کا فیصلہ کیا جائیگا۔ آئی این پی نے ذرائع سے بتایا کہ اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملکی سلامتی اور استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ دنیا میں پاکستان کی انتہاپسندی اور دہشتگردی سے متاثرہ ساکھ کو دوبارہ نیک نامی میں تبدیل کیا جائیگا۔ اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ تمام اداروں کے وقارکو مقدم رکھا جائیگا اور سب ادارے ایک دوسرے کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ عسکری قیادت نے ایک بار پھر حکومت کو یقین دلایا کہ طالبان سے مذاکرات پرحکومت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اس کیساتھ ہے، ہمیں مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں۔
جنرل راحیل شریف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ فوج ملکی سلامتی اور تحفظ کیلیے ہر طرح کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلیے تیار ہے۔ ہم اپنی سرحدوں پر کسی کو چھیڑ خانی کی اجازت نہیں دینگے۔ ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں نہ کسی کو مداخلت کرنے دینگے۔ اجلاس میں انٹلیجنس اداروں کے سربراہوں نے ہمسایہ ممالک خاص طور پر ایران اور افغانستان کی طرف سے پاکستان کیخلاف مسلسل الزام تراشیوں اور ایرانی دھمکیوں کے حوالے سے بھی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ بی بی سی کے مطابق سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ حساس اور اہم اداروں کے ذمہ داران ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی نہ کریں کیونکہ اس طرح کے بیانات اداروں کو کمزور کرنے کے مترداف ہیں۔
اجلاس میں امن کی بحالی اور داخلی سلامتی یقینی بنانے کیلیے تمام ممکنہ راستے اختیار کرنے اور تمام وسائل بروئے کار لانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ایکسپریس نیوز نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے طالبان سے مذاکرات کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے باوجود حکومت مذاکرات چاہتی ہے اور طالبان سے دوبارہ رابطہ کرکے مذاکرات کی گاڑی آگے چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ طالبان کے سخت پیغامات کے باوجود آپریشن کوآخری آپشن کے طور پر رکھا گیا ہے۔ اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ طالبان نے قیدیوں کی رہائی کے باوجود جنگ بندی توڑدی جو افسوسناک ہے۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے قرار دیا کہ ریاست کسی خوف کا شکار نہیں، امن کی کوششیں جاری رکھی جائیںگی تاہم حملے کرنے والوں کو سخت جواب دیا جائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کا انتہائی اہم اجلاس وزیراعظم ہائوس میں نواز شریف کی صدارت میں ہوا جس میں وزیر دفاع، وزیر خزانہ، وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، مشیر قومی سلامتی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ، آرمی چیف، نیول اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ حکومت کی ٹھوس اقتصادی پالیسیوں سے حاصل کیے جانے والے اقتصادی مقاصد مضبوط بنانے کیلیے قومی سلامتی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ امن و سلامتی کیلیے تمام دستیاب وسائل اور پالیسی آپشنز بروئے کار لائے جائیں گے۔ اجلاس میں طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تاہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا کہ اگر انتہاپسندی کی راہ پر چلنے والوں نے امن عامہ کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی تو منہ توڑ جواب دیا جائیگا۔
وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی ایک اعلیٰ ترین فورم ہے جس میں ریاستی اداروں کو ہر اہم ریاستی معاملے پر اپنے نکتہ نظر کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ اس سے حکومت کو فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے اور قومی سلامتی کے اہم فیصلوں میں اجتماعی دانش کا اظہار ہوتا ہے۔ کمیٹی کو وزیراعظم کے حالیہ دورہ چین، یورو بانڈ کے کامیاب اجرأ اور سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ملکی داخلی سلامتی کی صورتحال اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دی۔ بھارت میں ہونیوالے انتخابات کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ بلوچستان میں امن عامہ اور مغربی سرحدی صورتحال بھی زیرغور آئی۔
ایک نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ طالبان کو رابطہ کار کمیٹی کے ذریعے پیغام بھجوایا جائیگا کہ وہ جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ واپس لیں حکومت مذاکرات جاری رکھے گی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا طالبان کی قیدیوں کی فہرست پر سول اور فوجی قیادت مشاورت کرے گی جس کے بعد انکی رہائی کا فیصلہ کیا جائیگا۔ آئی این پی نے ذرائع سے بتایا کہ اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملکی سلامتی اور استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ دنیا میں پاکستان کی انتہاپسندی اور دہشتگردی سے متاثرہ ساکھ کو دوبارہ نیک نامی میں تبدیل کیا جائیگا۔ اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ تمام اداروں کے وقارکو مقدم رکھا جائیگا اور سب ادارے ایک دوسرے کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ عسکری قیادت نے ایک بار پھر حکومت کو یقین دلایا کہ طالبان سے مذاکرات پرحکومت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اس کیساتھ ہے، ہمیں مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں۔
جنرل راحیل شریف نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ فوج ملکی سلامتی اور تحفظ کیلیے ہر طرح کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلیے تیار ہے۔ ہم اپنی سرحدوں پر کسی کو چھیڑ خانی کی اجازت نہیں دینگے۔ ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں نہ کسی کو مداخلت کرنے دینگے۔ اجلاس میں انٹلیجنس اداروں کے سربراہوں نے ہمسایہ ممالک خاص طور پر ایران اور افغانستان کی طرف سے پاکستان کیخلاف مسلسل الزام تراشیوں اور ایرانی دھمکیوں کے حوالے سے بھی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ بی بی سی کے مطابق سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ حساس اور اہم اداروں کے ذمہ داران ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی نہ کریں کیونکہ اس طرح کے بیانات اداروں کو کمزور کرنے کے مترداف ہیں۔
اجلاس میں امن کی بحالی اور داخلی سلامتی یقینی بنانے کیلیے تمام ممکنہ راستے اختیار کرنے اور تمام وسائل بروئے کار لانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ایکسپریس نیوز نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے طالبان سے مذاکرات کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ طالبان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے باوجود حکومت مذاکرات چاہتی ہے اور طالبان سے دوبارہ رابطہ کرکے مذاکرات کی گاڑی آگے چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ طالبان کے سخت پیغامات کے باوجود آپریشن کوآخری آپشن کے طور پر رکھا گیا ہے۔ اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ طالبان نے قیدیوں کی رہائی کے باوجود جنگ بندی توڑدی جو افسوسناک ہے۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے قرار دیا کہ ریاست کسی خوف کا شکار نہیں، امن کی کوششیں جاری رکھی جائیںگی تاہم حملے کرنے والوں کو سخت جواب دیا جائے گا۔