جماعت اسلامی کا مصالحتی کردار
امیر جماعت بالکل درست بات کر رہے ہیں کہ ایک دوسرے کو مسترد کر کے بہتری کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی
آج اقتدار والوں کی بات کی جائے تو وہ اپنی سیاست میں مصروف ہیں اور یہ سیاست فی الحال دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف ہے جس کے ارکان نے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور بعد میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کو تحلیل کرکے خود ہی اپنی حکومتوں کے خاتمے کا سامان کیا بلکہ جمہوری طریقے سے منتخب کردہ نمایندوں نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی اوراب اس پر پچھتا رہے ہیں ۔
جناب عمران خان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعدآئین میں مقررہ مدت میں الیکشن کے فریب میں تھے لیکن حکومت نے معاشی اور سیکیورٹی صورتحال کو بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کو التوا میں ڈال رکھا ہے جس پر تحریک انصاف سپریم کورٹ پہنچ گئی۔
گزشتہ روز چیف جسٹس اور ان کے دو ساتھی ججز پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کردیا جس میں مئی میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے جب کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے الیکشن پر کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی والے اس فیصلے پر خوش ہیں ۔
ادھر یہ بحث و مباحثہ جاری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سیاسی بحران کا حل نکالنا چاہیے لیکن بادی النظر میںدونوں سیاسی فریق اس سے گریزکر رہے ہیں۔
عمران خان حکومتی اتحاد سے صرف ایک شرط پربات چیت کے لیے تیار ہیں کہ حکومت آئین میں موجود الیکشن قوانین کے مطابق الیکشن کرانے کا اعلان کرے لیکن حکومت کی جانب سے تحلیل کی گئی دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے میں پس و پیش سے کام لیا جارہا ہے جس کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے۔ملک میں سیاسی ہیجان برپا ہے اور آئینی بحران سر اٹھانے کو ہے لیکن سیاسی رہنما ایک دوسرے سے بات چیت سے گریزاں ہیں۔
حکومتی اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی جو سیاسی مکالمے پر یقین رکھتی ہے اور ان کے رہنماؤں کے ہاں لچک بھی موجود ہے لیکن موجود حالات میں وہ بھی سر گرم نظر نہیں آتی۔
ایک خاموش مفاہمت اور غیر فطری اتحاد جاری ہے اور یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کی سیاست پر ہی صبر شکر کر لیا ہے اور مرکز میں طفیلیے کے کردار کو ترجیح دی ہے ،اب مرکز میںقائم ایک عارضی حکومت جس کا تاج مسلم لیگ نواز کے سر ہے اورجس کابوجھ میاں شہباز شریف اٹھا رہے ہیں اس میں پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد کا حصہ بن کر وزارتوں کے مزے اڑا رہی ہے۔
سیاسی گرما گرمی کے اس ماحول میں اگر کسی غیر جانبدار سیاسی جماعت نے الیکشن پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا تو وہ جماعت اسلامی ہے۔
سیاست کے بے اصول اور قطعاً غیر سیاسی ماحول میں جماعت جیسی کسی تنظیم کا وجود نعمت سے کم نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کا سیاست میں وجود ایک حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن جماعت کی بد قسمتی یہ ہے کہ عوام کی ایک کثیر تعداد جماعت کے رہنماؤں اور امیدواروں کے کردار کی تعریف تو کرتی ہے لیکن جب ووٹ کا معاملہ آتا ہے تو عوام کی یہ پسند بدل جاتی ہے ۔
اس اہم معاملے سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے، یہ معاملہ جماعت والے جانیں۔ فی الحال تو تو جناب سراج الحق نے تمام سیاسی پارٹیوں میں الیکشن پر اتفاق رائے کے لیے رابطوں کا خوش آیند اعلان کیا ہے ۔ سیاسی حبس زدہ ماحول میں یہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ ایک ثقہ بند ، حب الوطن اور نیک نام سیاسی جماعت نے ملکی سیاسی میں افراتفری اور ہیجان کو کم یا ختم کرنے کے لیے مصالحتی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسے ایک مثبت پیش رفت کہا جا سکتا ہے ۔
امیر جماعت بالکل درست بات کر رہے ہیں کہ ایک دوسرے کو مسترد کر کے بہتری کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی ۔ سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کا فیصلہ کرنا ہو گا، صرف دوصوبوں میں الیکشن سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔
اس ضمن میں تحریک انصاف کے قائدین کا ہر اول دستہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی قیادت میں منصورہ میں سراج الحق اور جماعت کی قیادت سے ملاقات بھی کر چکا ہے۔
ابھی تک اتحادی حکومتی کی جانب سے جماعت اسلامی کی اس حب الوطن پیشکش کا کوئی مثبت جواب سامنے نہیں آیالیکن امید یہی کی جا سکتی ہے کہ سیاسی افراتفری میں جب سیاست دانوں کے ہاتھ سے سیاسی معاملات نکل کر اعلیٰ عدالت تک پہنچ چکے ہیں تو جماعت اسلامی کی جانب سے ملک میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی اس فراخدلانہ پیشکش پر تمام سیاسی جماعتوں کو غیر مشروط طور پر لبیک کہنا چاہیے کیونکہ ملکی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے۔
اس میں کسی غیر جانبدار شخصیت کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے، جماعت جس کی درخشاں جمہوری جدوجہد کا سفر ہم سب کے سامنے ہے۔
اس کے کار پرداز خوف خدا سے سرشار ہیں ایسے نیک ، صالح اور پاک باز لوگوں نے اگر ملک کی سیاسی گندگی کو پاک کرنے کا بیڑہ اٹھاکر اس میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگر ہمارے سیاسی رہنماؤں کی نیتوں میں کوئی فتور نہ ہوا اور وہ جماعت کی بے لوث خدمت سے استفادہ حاصل کرنا چاہئیں گے تو مجھے امید ہے کہ جماعت کے یہ پاکباز لوگ ملک کی روز بروزبگڑتی صورتحال میں اچھائی کے دیے روشن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جماعت کو مصالحت کے اس نیک کام دیر نہیں کرنی چاہیے ۔
دوسری جانب تحریک انصاف ہے جس کے ارکان نے پہلے قومی اسمبلی سے استعفے دیے اور بعد میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کو تحلیل کرکے خود ہی اپنی حکومتوں کے خاتمے کا سامان کیا بلکہ جمہوری طریقے سے منتخب کردہ نمایندوں نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی اوراب اس پر پچھتا رہے ہیں ۔
جناب عمران خان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعدآئین میں مقررہ مدت میں الیکشن کے فریب میں تھے لیکن حکومت نے معاشی اور سیکیورٹی صورتحال کو بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات کو التوا میں ڈال رکھا ہے جس پر تحریک انصاف سپریم کورٹ پہنچ گئی۔
گزشتہ روز چیف جسٹس اور ان کے دو ساتھی ججز پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کردیا جس میں مئی میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے جب کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے الیکشن پر کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی والے اس فیصلے پر خوش ہیں ۔
ادھر یہ بحث و مباحثہ جاری ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر سیاسی بحران کا حل نکالنا چاہیے لیکن بادی النظر میںدونوں سیاسی فریق اس سے گریزکر رہے ہیں۔
عمران خان حکومتی اتحاد سے صرف ایک شرط پربات چیت کے لیے تیار ہیں کہ حکومت آئین میں موجود الیکشن قوانین کے مطابق الیکشن کرانے کا اعلان کرے لیکن حکومت کی جانب سے تحلیل کی گئی دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے میں پس و پیش سے کام لیا جارہا ہے جس کی وجہ سے بات آگے نہیں بڑھ پا رہی ہے۔ملک میں سیاسی ہیجان برپا ہے اور آئینی بحران سر اٹھانے کو ہے لیکن سیاسی رہنما ایک دوسرے سے بات چیت سے گریزاں ہیں۔
حکومتی اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی جو سیاسی مکالمے پر یقین رکھتی ہے اور ان کے رہنماؤں کے ہاں لچک بھی موجود ہے لیکن موجود حالات میں وہ بھی سر گرم نظر نہیں آتی۔
ایک خاموش مفاہمت اور غیر فطری اتحاد جاری ہے اور یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کی سیاست پر ہی صبر شکر کر لیا ہے اور مرکز میں طفیلیے کے کردار کو ترجیح دی ہے ،اب مرکز میںقائم ایک عارضی حکومت جس کا تاج مسلم لیگ نواز کے سر ہے اورجس کابوجھ میاں شہباز شریف اٹھا رہے ہیں اس میں پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد کا حصہ بن کر وزارتوں کے مزے اڑا رہی ہے۔
سیاسی گرما گرمی کے اس ماحول میں اگر کسی غیر جانبدار سیاسی جماعت نے الیکشن پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا تو وہ جماعت اسلامی ہے۔
سیاست کے بے اصول اور قطعاً غیر سیاسی ماحول میں جماعت جیسی کسی تنظیم کا وجود نعمت سے کم نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کا سیاست میں وجود ایک حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن جماعت کی بد قسمتی یہ ہے کہ عوام کی ایک کثیر تعداد جماعت کے رہنماؤں اور امیدواروں کے کردار کی تعریف تو کرتی ہے لیکن جب ووٹ کا معاملہ آتا ہے تو عوام کی یہ پسند بدل جاتی ہے ۔
اس اہم معاملے سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے، یہ معاملہ جماعت والے جانیں۔ فی الحال تو تو جناب سراج الحق نے تمام سیاسی پارٹیوں میں الیکشن پر اتفاق رائے کے لیے رابطوں کا خوش آیند اعلان کیا ہے ۔ سیاسی حبس زدہ ماحول میں یہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ ایک ثقہ بند ، حب الوطن اور نیک نام سیاسی جماعت نے ملکی سیاسی میں افراتفری اور ہیجان کو کم یا ختم کرنے کے لیے مصالحتی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسے ایک مثبت پیش رفت کہا جا سکتا ہے ۔
امیر جماعت بالکل درست بات کر رہے ہیں کہ ایک دوسرے کو مسترد کر کے بہتری کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی ۔ سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کا فیصلہ کرنا ہو گا، صرف دوصوبوں میں الیکشن سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔
اس ضمن میں تحریک انصاف کے قائدین کا ہر اول دستہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی قیادت میں منصورہ میں سراج الحق اور جماعت کی قیادت سے ملاقات بھی کر چکا ہے۔
ابھی تک اتحادی حکومتی کی جانب سے جماعت اسلامی کی اس حب الوطن پیشکش کا کوئی مثبت جواب سامنے نہیں آیالیکن امید یہی کی جا سکتی ہے کہ سیاسی افراتفری میں جب سیاست دانوں کے ہاتھ سے سیاسی معاملات نکل کر اعلیٰ عدالت تک پہنچ چکے ہیں تو جماعت اسلامی کی جانب سے ملک میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی اس فراخدلانہ پیشکش پر تمام سیاسی جماعتوں کو غیر مشروط طور پر لبیک کہنا چاہیے کیونکہ ملکی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے۔
اس میں کسی غیر جانبدار شخصیت کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے، جماعت جس کی درخشاں جمہوری جدوجہد کا سفر ہم سب کے سامنے ہے۔
اس کے کار پرداز خوف خدا سے سرشار ہیں ایسے نیک ، صالح اور پاک باز لوگوں نے اگر ملک کی سیاسی گندگی کو پاک کرنے کا بیڑہ اٹھاکر اس میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگر ہمارے سیاسی رہنماؤں کی نیتوں میں کوئی فتور نہ ہوا اور وہ جماعت کی بے لوث خدمت سے استفادہ حاصل کرنا چاہئیں گے تو مجھے امید ہے کہ جماعت کے یہ پاکباز لوگ ملک کی روز بروزبگڑتی صورتحال میں اچھائی کے دیے روشن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جماعت کو مصالحت کے اس نیک کام دیر نہیں کرنی چاہیے ۔