کراچی ماضی حال اور مستقبل آخری حصہ
انگریزوں نے کراچی کو اپنی سلطنت کے سرمائے سے ترقی دی تھی
جنرل مشرف کے عرصہ اقتدار کے دوران 2000 کی دہائی میں شہر کے جدید انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں سرمایہ کاری کا اضافہ ہوا۔
انفرااسٹرکچر میں سڑکیں، بالائی پل اور زیر زمین گزرگاہیں شامل تھیں۔ آبادی کے ایک اور ریلے نے شہر پر یلغار کی جب اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے لوگ یعنی 2010کے سیلاب متاثرین اور قبائلی علاقوں کے جنگ زدہ لوگ، بہتر ذریعہ معاش کے لیے نقل مکانی کر کے کراچی آئے۔
علی اشعر کا موقف ہے کہ منتخب حکومت نے بھی گزشتہ برسوں میں اسی انفرا اسٹرکچرل سوچ پر مبنی ترقیاتی طریقے پر عمل کیا اور اس بات کو نظرانداز کردیا کہ کراچی کے لوگوں کو سماجی ترقی کی شدید ضروت تھی نہ کہ انڈر پاس یا فلائی اوور کی۔ کنکریٹ کی یہ ترقی ان لوگوںکو فائدہ دیتی ہے جو ذاتی گاڑیوں کے مالک ہوتے ہیں جب کہ سوسائٹی کے بڑے حصے کا مطالبہ ماس ٹرانزٹ سسٹم اور صحت عامہ کی سہولیات رہا ہے۔
کراچی میں بیشتر ترقیاتی پروجیکٹس حیران کن طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ کراچی کی تعمیر یا تو انگریزوں نے کی یا پاکستان کے آمروں نے۔ قبل از تقسیم اور بعداز تقسیم ادوار میں انفرا اسٹرکچر پر مبنی ترقیاتی طریقہ کار مالیاتی سرمائے کے دلچسپ طور پر یکساں ذریعے سے تھا۔ انگریزوں نے کراچی کو اپنی سلطنت کے سرمائے سے ترقی دی تھی جب کہ فوجی آمروں نے عالمی مالیاتی اداروں کی مالی مدد سے استفادہ کیا تھا۔
دنیا کے دیگر بڑے شہروں کے برعکس کراچی اتنے زیادہ پیچیدہ مسائل کا شکار کیوں ہے؟ اس بارے میں محقق کا کہنا ہے کہ قبل از تقسیم کراچی نے فطری طور پر ترقی کی تھی۔ 1839 سے پہلے کراچی کی آبادی 8000 سے 14000 کے درمیان تھی۔
1856میں بڑھ کر 57000 ہوگئی۔ 1901 میں کراچی کی آبادی 117000 تھی۔ 1941میں آبادی 387000 تک پہنچ گئی۔ آبادی میں اضافہ شہر میں دستیاب مواقع کی تعداد کے مطابق تھا اور شہری انتظامیہ عام طور پر اس اضافے کے لیے تیار رہتی تھی۔
بعداز تقسیم دور میں بہت مختصر عرصے میں معمول سے زیادہ نقل مکانی عمل میں آئی تھی۔ 1948 سے 1952 تک تقسیم کے نتیجے میں ہجرت، 1960کی دہائی میں سبز انقلاب کی وجہ سے اندرونی نقل مکانی، 1980 اور 1990کے عشروں کے درمیان افغان مہاجرین کی آمد 2010کی دہائی میں سیلاب متاثرین اور شمالی علاقہ جات سے بے گھر ہوجانے والے لوگوں کے ریلے کی آمد ہوئی۔
دنیا میں اپنی پہچان بنانے کے لیے دنیا کے پانچویں سب سے بڑے شہر کو عالمی درجے کا شہر بننے کی کوشش کرنی ہوگی۔ خواہ اس کے لیے دبئی اور بیجنگ جیسے سب سے بڑے اور مصروف ترین ہوائی اڈے تیار کرے یا ایڈنبرگ جیسا انتہائی بڑے پیمانے پر آرٹ فیسٹیول کا انعقاد کرے۔
شہر کی معاشی، سیاسی اور پرانے زمانے کی ثقافتی اقدار میں اضافے کی کوشش کی ضرورت ہے لیکن جو شہر برطانیہ کے لیے انتظامی مرکز اینگلو، برٹش طرز تعمیر کا منظر اور نقل مکانی کرنے والوں کی پناہ گاہ کی حیثیت رکھنا تھا آج اپنے حقوق کے لیے گریہ کناں ہے باوجود یہ کہ قومی خزانے کو اتنا زیادہ حصہ ادا کر رہا ہے۔
1950 اور 1960کی دہائی میں شہر کے نمایاں خدوخال ایک عالمی درجے کا شہر جیسے تھے۔ آج کا آئی آئی چندریگر روڈ ''وال اسٹریٹ آف پاکستان'' کے طور پر ابھرا تھا اور میکلوڈ روڈ 1960 کی دہائی کی صنعتی ترقی کے دورمیں مالیاتی مرکز بن چکا تھا۔
اب یہ علاقہ گنجان آلودہ ہوچکا ہے۔ جدید سازی اور عالمی درجے کا شہر کے تصور سے پہلے ہماری قومی ایئر لائن 1960 کی دہائی میں دنیا کی بہترین ایئرلائن تسلیم کی جاتی تھی۔ اسی عرصے میں بیرونی ملکوں کے اعلیٰ عہدیدار، کاروباری حضرات اور سیاحوں کی شہر میں آؤ بھگت کی جاتی تھی۔
اب حالات بدل چکے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور شدت پسندی کے ہوتے ہوئے تجارت بند کی جاچکی ہے۔ ایئرلائن انتہائی خطرے سے دوچار ہے اور ہوٹل جہاں سیاحوں کی مہمان داری جاری رہتی تھی وہاں دہشت گردوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکیورٹی کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس شہر کو کیا ہوگیا ہے؟ شہر تو وہی ہے لیکن شہریوں میں تبدیلی آگئی ہے یا انھیں جبری طور پر تبدیل کردیا گیا ہے۔ اپنے سنہری دور میں شہر میں تنوع تھا، باقاعدہ انفرا اسٹرکچر اور آزادی کا حامل تھا۔ اظہار کی آزادی، اجتماع کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی، اکھٹا ہونے اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا، شہر کے پرجوش متوسط طبقے کے امتیازات میں شامل تھے جو آمروں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی طاقت رکھتے تھے۔
غالباً اس جرأت کی وجہ سے شہر کی آیندہ نسلوں کو قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ غیرمعمولی اسلامی نظام پسندی، نسلی طوائف الملوکی اور مارجنلائزیشن کے ذریعے نشان زدہ شہر انتہائی جنگجو بن چکا ہے۔
ملک کے مالیاتی مرکز سے قوت مزاحمت اپنے مکروہ عزائم تھوپنے کی کوشش کرنے والے حکام کی راہ کی دیوار بن سکتی ہے۔ واحد طریقہ تقسیم کرو اور حکومت کرو ہے۔ 1980میں کراچی کی سیاسی حرکیات شہر میں نسلی جذبات کا آئینہ تھیں جس کے نتیجے میں شہر 30سال تک نسلی اور فرقہ وارانہ تنازعات میں پھنسا رہا۔ قلم کی جگہ بندوقوں نے لے لی اور شائستگی اور شستگی کی جگہ گالی گلوچ اور بدتہذیبی پیدا ہوگئی۔
تعلیمی ادارے جہاں طلباء اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے تھے وہ میدان جنگ بن گئے۔ ناامیدی اور ضرر پذیری کی اس فضا میں متوسط طبقے نے دوسروں کا خیال رکھنے کے بجائے اپنی ذات کے لیے جینا شروع کردیا۔
یہ جدید آزاد خیال تصورات کی نشوونما اور کثیر القومی مقاصد کے فروغ کے لیے ایک مثالی ماحول تھا۔ صارفیت قبول کرنے والے لوگ اپنا طرز زندگی برقرار رکھنے کے لیے نقصان برداشت کرنے پربھی تیار تھے۔
موسمیاتی تبدیلی، قلت میں بدلتی ہوئی آبی توانائی، ہماری معیشت کی نازک صورتحال اور آبادی میں غیرمعمولی اضافہ ٹائم بم ہیں جنھیں صرف عوام دوست تحفظ پسندانہ جوابات کے ذریعے ناکارہ بنایا جاسکتا ہے۔ انفرادی طور پر کم از کم، ہمیں وہ اچھی روایات اپنانا ہوں گی جس پر ہم ''زیر تصرف کلچر'' اپنانے سے پہلے عمل پیرا تھے۔
ہماری ثقافتی اور مذہبی شناخت بھی مثبت اثر اندازی کی حامل ہوسکتی ہے۔ سادگی اپنانے، ہمارے حاجت مند اقرباء کے ساتھ اپنے ''فاضل'' حاصلات میں شریک کرکے، اپنے ماحول کو صاف ستھرا بناکے اور مثبت انداز میں اپنے مقامی معاملات میں حصہ لے کر ہم نچلی سطح سے اپنے کمزور جمہوری ڈھانچے کی تعمیر نو میں مدد کرسکتے ہیں۔
اس وقت ہمارے نظام تعلیم کو طلباء میں مدنی شعور پیدا کرنے کا مقصد بھی ہونا چاہیے اور اس کے لیے نصاب تعلیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کے بجائے ہمیں امتیازی طور پر تاریخ، جغرافیہ، مدنیات اور مطالعہ ماحولیات / ماحولیاتی تبدیلی جیسے مضامین کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔
اسکول کی سطح پر ہر طرح کی آموزش کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ بااختیار مقامی نظم حکمرانی جو عوامی شرکت سے مضبوط کیا گیا ہو، وہ ہمارے ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر بلندی تک لے جاسکتا ہے اور پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مقامی مسائل کے حل کے قدیمی جوابات دیے جائیں۔
آخر میں پڑوسیوں کے ساتھ امن، دوستی اور باہمی طور پر تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دینا ہمیں ایسی صورتحال میں لاسکتے ہیں جس میں سب کا فائدہ ہو۔ تاہم اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں انتہاپسندی سے باز آنا پڑے گا جو نہ صرف معیشت کو کھوکھلا کرتی بلکہ قومی سطح پر اور قوموں کے درمیان تقسیم پیدا کرتی ہے۔
کراچی کے ماضی، حال اور مستقبل کے موضوع پر یہ تحقیقی کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ تمام لوگ جو پاکستان کے صنعتی اور تجارتی مرکز کراچی کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں اور جو یہ سوچتے ہیں کہ کراچی بھی بمبئی کی طرح ترقی کا بے مثال نمونہ بن سکتا ہے انھیں اس فکرانگیز تحقیق سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
انفرااسٹرکچر میں سڑکیں، بالائی پل اور زیر زمین گزرگاہیں شامل تھیں۔ آبادی کے ایک اور ریلے نے شہر پر یلغار کی جب اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے لوگ یعنی 2010کے سیلاب متاثرین اور قبائلی علاقوں کے جنگ زدہ لوگ، بہتر ذریعہ معاش کے لیے نقل مکانی کر کے کراچی آئے۔
علی اشعر کا موقف ہے کہ منتخب حکومت نے بھی گزشتہ برسوں میں اسی انفرا اسٹرکچرل سوچ پر مبنی ترقیاتی طریقے پر عمل کیا اور اس بات کو نظرانداز کردیا کہ کراچی کے لوگوں کو سماجی ترقی کی شدید ضروت تھی نہ کہ انڈر پاس یا فلائی اوور کی۔ کنکریٹ کی یہ ترقی ان لوگوںکو فائدہ دیتی ہے جو ذاتی گاڑیوں کے مالک ہوتے ہیں جب کہ سوسائٹی کے بڑے حصے کا مطالبہ ماس ٹرانزٹ سسٹم اور صحت عامہ کی سہولیات رہا ہے۔
کراچی میں بیشتر ترقیاتی پروجیکٹس حیران کن طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ کراچی کی تعمیر یا تو انگریزوں نے کی یا پاکستان کے آمروں نے۔ قبل از تقسیم اور بعداز تقسیم ادوار میں انفرا اسٹرکچر پر مبنی ترقیاتی طریقہ کار مالیاتی سرمائے کے دلچسپ طور پر یکساں ذریعے سے تھا۔ انگریزوں نے کراچی کو اپنی سلطنت کے سرمائے سے ترقی دی تھی جب کہ فوجی آمروں نے عالمی مالیاتی اداروں کی مالی مدد سے استفادہ کیا تھا۔
دنیا کے دیگر بڑے شہروں کے برعکس کراچی اتنے زیادہ پیچیدہ مسائل کا شکار کیوں ہے؟ اس بارے میں محقق کا کہنا ہے کہ قبل از تقسیم کراچی نے فطری طور پر ترقی کی تھی۔ 1839 سے پہلے کراچی کی آبادی 8000 سے 14000 کے درمیان تھی۔
1856میں بڑھ کر 57000 ہوگئی۔ 1901 میں کراچی کی آبادی 117000 تھی۔ 1941میں آبادی 387000 تک پہنچ گئی۔ آبادی میں اضافہ شہر میں دستیاب مواقع کی تعداد کے مطابق تھا اور شہری انتظامیہ عام طور پر اس اضافے کے لیے تیار رہتی تھی۔
بعداز تقسیم دور میں بہت مختصر عرصے میں معمول سے زیادہ نقل مکانی عمل میں آئی تھی۔ 1948 سے 1952 تک تقسیم کے نتیجے میں ہجرت، 1960کی دہائی میں سبز انقلاب کی وجہ سے اندرونی نقل مکانی، 1980 اور 1990کے عشروں کے درمیان افغان مہاجرین کی آمد 2010کی دہائی میں سیلاب متاثرین اور شمالی علاقہ جات سے بے گھر ہوجانے والے لوگوں کے ریلے کی آمد ہوئی۔
دنیا میں اپنی پہچان بنانے کے لیے دنیا کے پانچویں سب سے بڑے شہر کو عالمی درجے کا شہر بننے کی کوشش کرنی ہوگی۔ خواہ اس کے لیے دبئی اور بیجنگ جیسے سب سے بڑے اور مصروف ترین ہوائی اڈے تیار کرے یا ایڈنبرگ جیسا انتہائی بڑے پیمانے پر آرٹ فیسٹیول کا انعقاد کرے۔
شہر کی معاشی، سیاسی اور پرانے زمانے کی ثقافتی اقدار میں اضافے کی کوشش کی ضرورت ہے لیکن جو شہر برطانیہ کے لیے انتظامی مرکز اینگلو، برٹش طرز تعمیر کا منظر اور نقل مکانی کرنے والوں کی پناہ گاہ کی حیثیت رکھنا تھا آج اپنے حقوق کے لیے گریہ کناں ہے باوجود یہ کہ قومی خزانے کو اتنا زیادہ حصہ ادا کر رہا ہے۔
1950 اور 1960کی دہائی میں شہر کے نمایاں خدوخال ایک عالمی درجے کا شہر جیسے تھے۔ آج کا آئی آئی چندریگر روڈ ''وال اسٹریٹ آف پاکستان'' کے طور پر ابھرا تھا اور میکلوڈ روڈ 1960 کی دہائی کی صنعتی ترقی کے دورمیں مالیاتی مرکز بن چکا تھا۔
اب یہ علاقہ گنجان آلودہ ہوچکا ہے۔ جدید سازی اور عالمی درجے کا شہر کے تصور سے پہلے ہماری قومی ایئر لائن 1960 کی دہائی میں دنیا کی بہترین ایئرلائن تسلیم کی جاتی تھی۔ اسی عرصے میں بیرونی ملکوں کے اعلیٰ عہدیدار، کاروباری حضرات اور سیاحوں کی شہر میں آؤ بھگت کی جاتی تھی۔
اب حالات بدل چکے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور شدت پسندی کے ہوتے ہوئے تجارت بند کی جاچکی ہے۔ ایئرلائن انتہائی خطرے سے دوچار ہے اور ہوٹل جہاں سیاحوں کی مہمان داری جاری رہتی تھی وہاں دہشت گردوں کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکیورٹی کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس شہر کو کیا ہوگیا ہے؟ شہر تو وہی ہے لیکن شہریوں میں تبدیلی آگئی ہے یا انھیں جبری طور پر تبدیل کردیا گیا ہے۔ اپنے سنہری دور میں شہر میں تنوع تھا، باقاعدہ انفرا اسٹرکچر اور آزادی کا حامل تھا۔ اظہار کی آزادی، اجتماع کی آزادی، انجمن سازی کی آزادی، اکھٹا ہونے اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا، شہر کے پرجوش متوسط طبقے کے امتیازات میں شامل تھے جو آمروں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی طاقت رکھتے تھے۔
غالباً اس جرأت کی وجہ سے شہر کی آیندہ نسلوں کو قیمت ادا کرنی پڑی کیونکہ غیرمعمولی اسلامی نظام پسندی، نسلی طوائف الملوکی اور مارجنلائزیشن کے ذریعے نشان زدہ شہر انتہائی جنگجو بن چکا ہے۔
ملک کے مالیاتی مرکز سے قوت مزاحمت اپنے مکروہ عزائم تھوپنے کی کوشش کرنے والے حکام کی راہ کی دیوار بن سکتی ہے۔ واحد طریقہ تقسیم کرو اور حکومت کرو ہے۔ 1980میں کراچی کی سیاسی حرکیات شہر میں نسلی جذبات کا آئینہ تھیں جس کے نتیجے میں شہر 30سال تک نسلی اور فرقہ وارانہ تنازعات میں پھنسا رہا۔ قلم کی جگہ بندوقوں نے لے لی اور شائستگی اور شستگی کی جگہ گالی گلوچ اور بدتہذیبی پیدا ہوگئی۔
تعلیمی ادارے جہاں طلباء اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے تھے وہ میدان جنگ بن گئے۔ ناامیدی اور ضرر پذیری کی اس فضا میں متوسط طبقے نے دوسروں کا خیال رکھنے کے بجائے اپنی ذات کے لیے جینا شروع کردیا۔
یہ جدید آزاد خیال تصورات کی نشوونما اور کثیر القومی مقاصد کے فروغ کے لیے ایک مثالی ماحول تھا۔ صارفیت قبول کرنے والے لوگ اپنا طرز زندگی برقرار رکھنے کے لیے نقصان برداشت کرنے پربھی تیار تھے۔
موسمیاتی تبدیلی، قلت میں بدلتی ہوئی آبی توانائی، ہماری معیشت کی نازک صورتحال اور آبادی میں غیرمعمولی اضافہ ٹائم بم ہیں جنھیں صرف عوام دوست تحفظ پسندانہ جوابات کے ذریعے ناکارہ بنایا جاسکتا ہے۔ انفرادی طور پر کم از کم، ہمیں وہ اچھی روایات اپنانا ہوں گی جس پر ہم ''زیر تصرف کلچر'' اپنانے سے پہلے عمل پیرا تھے۔
ہماری ثقافتی اور مذہبی شناخت بھی مثبت اثر اندازی کی حامل ہوسکتی ہے۔ سادگی اپنانے، ہمارے حاجت مند اقرباء کے ساتھ اپنے ''فاضل'' حاصلات میں شریک کرکے، اپنے ماحول کو صاف ستھرا بناکے اور مثبت انداز میں اپنے مقامی معاملات میں حصہ لے کر ہم نچلی سطح سے اپنے کمزور جمہوری ڈھانچے کی تعمیر نو میں مدد کرسکتے ہیں۔
اس وقت ہمارے نظام تعلیم کو طلباء میں مدنی شعور پیدا کرنے کا مقصد بھی ہونا چاہیے اور اس کے لیے نصاب تعلیم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کے بجائے ہمیں امتیازی طور پر تاریخ، جغرافیہ، مدنیات اور مطالعہ ماحولیات / ماحولیاتی تبدیلی جیسے مضامین کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔
اسکول کی سطح پر ہر طرح کی آموزش کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ بااختیار مقامی نظم حکمرانی جو عوامی شرکت سے مضبوط کیا گیا ہو، وہ ہمارے ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر بلندی تک لے جاسکتا ہے اور پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مقامی مسائل کے حل کے قدیمی جوابات دیے جائیں۔
آخر میں پڑوسیوں کے ساتھ امن، دوستی اور باہمی طور پر تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دینا ہمیں ایسی صورتحال میں لاسکتے ہیں جس میں سب کا فائدہ ہو۔ تاہم اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں انتہاپسندی سے باز آنا پڑے گا جو نہ صرف معیشت کو کھوکھلا کرتی بلکہ قومی سطح پر اور قوموں کے درمیان تقسیم پیدا کرتی ہے۔
کراچی کے ماضی، حال اور مستقبل کے موضوع پر یہ تحقیقی کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ تمام لوگ جو پاکستان کے صنعتی اور تجارتی مرکز کراچی کو مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں اور جو یہ سوچتے ہیں کہ کراچی بھی بمبئی کی طرح ترقی کا بے مثال نمونہ بن سکتا ہے انھیں اس فکرانگیز تحقیق سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔