غلطی کا اعتراف
جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے واحد جج ہیں جنھوں نے اپنے اثاثے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈالے ہیں
وفاقی حکومت نے اپنے اقتدار کے تقریباً ایک سال پورے ہونے سے کچھ دن قبل ایک انتہائی اہم فیصلہ کیا۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف Reference Curative واپس لے لیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف عمران خان کی حکومت نے 2019 میں اپنے بچوں اور اہلیہ کی آمدنی اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
سابق وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اس ریفرنس کے سب سے بڑے مصنف تھے۔ اس ریفرنس میں الزام لگایا گیا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے لندن میں 2011 سے 2015کے درمیان اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر خریدی گئی تین جائیدادوں کا انکم ٹیکس گوشواروں میں اندراج نہیں کیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اسپین کی شہریت رکھتی ہیں اور ان کے صاحبزادے لندن میں بیرسٹر ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کراچی میں قائم امریکن اسکول میں معلمہ کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں اور انھیں اپنے والد کی وراثت میں جائیداد ملی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا مؤقف تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں، یوں ان کی اہلیہ اور بچوں نے برطانیہ کے قانون کے تحت اپنی آمدنی ظاہر کی ہے۔ اس بناء پر وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کی آمدنی ظاہر کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کی 10 رکنی بینچ نے یہ صدارتی ریفرنس مسترد کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے 10میں سے 7 ججوں نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ فیڈرل بیورو آف ریونیو FBR جج صاحب کی اہلیہ اور بچوں سے وضاحت طلب کرے کہ لندن کی یہ جائیدادیں کس طرح خریدی گئیں اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو رپورٹ پیش کی جائے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کا حق استعمال کیا تھا اور سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ریفرنس پر دستخط کرتے ہوئے دماغ استعمال نہیں کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس وقت کی وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کے بھی احکامات جاری کیے تھے۔
اس مقدمہ کے دوران اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت میں جو ریمارکس دیے تھے اس وقت کے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے ان ریمارکس کو حکومت کا مؤقف ماننے سے انکار کیا تھا۔
جب عمران خان کی حکومت قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ذریعہ ختم ہوئی اوران کے تحریک انصاف کے بانی اراکین میں شامل اور جسٹس فائز عیسیٰ کے سب سے بڑے حامی حامد خان سے تعلقات بحال ہوئے تو عمران خان نے اس بات کا اقرار کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ان کی حکومت کی غلطی تھی۔
تحریک انصاف کے ایک رہنما نے اس ریفرنس کی ذمے داری فروغ نسیم پر عائد کی تھی۔ فروغ نسیم نے وضاحت کی تھی کہ انھوں نے وزیر اعظم کے احکامات پر یہ ریفرنس تیار کیا تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کے ایک رفیق کار قاضی عیسی کے صاحبزادہ ہیں۔ وہ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے 26 سال تک وکالت کی اور وہ سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی چیف جسٹس کے عہدہ پر بحالی کی وکلاء کی تحریک میں متحرک رہے۔ پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم (P.C.O) کے تحت حلف اٹھانے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت تمام جج صاحبان رخصت کردیے گئے تو انھیں جسٹس افتخار چوہدری نے بلوچستان ہائی کورٹ کا براہِ راست چیف جسٹس مقرر کیا۔
جب فائز عیسیٰ کو 2017 میں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تو کوئٹہ میں 9 اگست 2016 کو بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ انھیں کوئٹہ سول اسپتال منتقل کیا گیا ۔
کوئٹہ کے وکلاء کی بڑی تعداد سول اسپتال پہنچ گئی جہاں بم کا دھماکا ہوا۔ اس دھماکے میں 74 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے جن میں بیشتر وکلاء تھے، اس واقعہ کی ذمے داری تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا اور جسٹس فائز عیسیٰ کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے عرق ریزی سے اس سانحہ کے محرکات کا جائزہ لیا۔ اس کمیشن نے واضح طور پر اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ وزارت داخلہ دہشت گردی کی لہر کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے اور اس سانحہ کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے اپنے بیانات میں اس واقعہ کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سانحہ کے بعد بلوچستان کی حکومت کی ساکھ ختم ہوچکی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ دھماکا کرنے والے افراد اور افغانستان میں موجودہ ان کے ہینڈلرز کی مضبوط نیٹ ورک سے یہ ممکن ہوا مگر مقامی عناصر کے اس سانحہ میں کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ایک خط کے ذریعہ معلوم کیا گیا تھا کہ وزارت نے ایک کالعدم جماعت کو جلسہ کرنے کی اجازت کیوں دی تھی۔ اس رپورٹ میں خفیہ عسکری تنظیم کا اہلیت اور اس کی ناکامی کا بھی ذکر تھا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جسٹس فائز عیسیٰ کمیشن کی اس رپورٹ پر سخت تنقید کی تھی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے آخری دورِ اقتدار میں سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں 43 صفحات پر مبنی فیصلہ 6 فروری 2011کو جاری کیا تھا۔ اس بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم تھے جب کہ قاضی فائز عیسیٰ اس کے رکن تھے۔
اس فیصلہ میں اس دھرنا کے محرکات اور ریاستی اداروں کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور جسٹس فائز عیسی نے اس دھرنا میں جہاں خفیہ ایجنسیوں کے کردار کی نشاندہی کی تھی وہاں ذرایع ابلاغ پر دباؤ اور حکومت کے کردار کا بھی ذکر کیا تھا۔
اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم کی جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف Reference Curative واپس لینے کی سفارش کو صدر نے قبول کرلیا ہے، یوں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی غلطی کا اقرار کرلیا ہے ، انھیں جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے فوراً مستعفیٰ ہوجانا چاہیے۔
جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے واحد جج ہیں جنھوں نے اپنے اثاثے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈالے ہیں، وہ آج بھی پیدل بغیر کسی اسکواڈ کے عدالت میں جاتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران کسی اہم مقدمہ کی سماعت کی بینچ میں انھیں شامل نہیں کیا گیا۔ عوام امید کرتے ہیں کہ جب فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنیں گے تو وہ ایک مثالی روایت قائم کریں گے۔