مردم شماری اور چھوٹی قومیتیں

پختون محنت مزدوری کے لیے دوسرے صوبوں میں عارضی قیام پذیر ہوتے ہیں لیکن ان کے خاندان اپنے صوبے میں ہوتے ہیں

jamilmarghuz1@gmail.com

ملک بھر میں مردم شماری جاری ہے 'اسے اس دفعہ ڈیجیٹل مردم شماری کہتے ہیں کیونکہ یہ آپ اپنے گھر سے بھی آن لائن کر سکتے ہیں'پاکستان بیورو آف اسٹیٹسکس مردم شماری کررہا ہے۔بیورو کے ایک اہلکارکاایک انگریزی روزنامے میں 26مارچ کو بیان شایع ہوا۔

انھوں نے کہا ہے،''ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک شہری کو اس علاقے یا شہر میں درج کیا جائے گا'جہاں وہ رہتا ہے ، جس کے وسائل وہ استعمال کرتا ہے'قطع نظر اس کے کہ اس کا شناختی کارڈ کسی جگہ کا بھی ہو'یہ پہلے دن سے واضح تھا کہ آپ کا شناختی کارڈ یقینی طور پر آپ کے ووٹ اور دیگر چیزوں کا تعین کرے گالیکن جب مردم شماری کی بات آتی ہے تو آپ کو شمار کیا جائے گا کہ آپ کہاں رہتے ہیںاور آپ کس جگہ کے وسائل استعمال کرتے ہیں؟

آئین کے آرٹیکل 51کی دفعہ 5کے مطابق !قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں' صوبوں ' اور دارالحکومت کو مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر دی جاتی ہیں۔

نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کا زیادہ حصہ آبادی کی بنیاد پر صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے'اگر چہ اس میں اور بھی چیزیں دیکھی جاتی ہیں لیکن تقریباً 82فیصدبہرحال آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے۔

پاکستان میں وسائل کی تقسیم کو آبادی سے منسلک کردیا گیا ہے 'صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں نشستوں کی تقسیم بھی آبادی کی بنیاد پر کرانے سے مردم شماری کا عمل سیاسی عمل بن گیا ہے اور ہر صوبہ کو شش کرتا ہے کہ اس کی آبادی زیادہ ثابت ہو۔

اسی طرح ایک صوبے میں اکثریت رکھنے والی کمیونٹی صوبے کی چھوٹی قومیتوں کی تعداد کم دکھانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استمعال کرتی ہیں۔

ان حقائق نے مردم شماری کے عمل کو قومی منصوبہ بندی کے لیے اعداد و شمار جمع کرنے کے بجائے ایک خطرناک عمل بنادیا ہے۔

پاکستان جیسے وفاقی ریاستوں میں مردم شماری کو وسائل کی تقسیم سے جوڑنا درست نہیں ہے' مردم شماری صرف اس وقت غیر متنازعہ بنے گی' جب اس میں آبادی کے بجائے وسائل کی تقسیم کے لیے دوسرے معیار مقرر کیے جائیں۔

پاکستان 'من و سلوی کی طرح 'بنا بنایا آسمان سے نازل نہیں ہوا بلکہ اس میں شامل قومیتوں اور صوبوں نے بڑی قربانیوں کے بعد اس کی تخلیق کی ہے ' وفاق پاکستان صوبوں کی منظوری سے قائم ہوا' یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ اس ملک کو صحیح وفاقی اصولوں کے مطابق چلانا اور صوبوں کے حقوق کا تحفظ رہا ہے۔


مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ خراب رہے ہیں'بلکہ بہت عرصہ تک صوبوں کو نظرانداز کر کے 'مضبوط مرکز' اور' یونٹی آف کمانڈ' کا دور رہا 'عجیب امر یہ ہے کہ بڑ ی مشکلوں سے منظور شدہ18ویں ترمیم کے بعد بھی مسائل جوں کے توں ہیں۔چھوٹی قومیتوں میں سب سے زیادہ مسائل کا شکار پختون ہیں۔

خیبر پختونخوا ' سابقہ فاٹا اور جنوبی پختونخوا کے تین انتظامی یونٹوں میںتقسیم 'پختونوں کی صحیح مردم شماری کبھی بھی نہ ہوسکی' خیبرپختونخوا میں جغرافیائی و موسمی حالات اور بڑی تعداد میں آبادی کی روزگار کے لیے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کی وجہ سے بھی مردم شماری میں مشکلات ہوتی ہیں۔

سابقہ فاٹا کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہے جو دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کا شکار رہا' وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ اپنے علاقوں سے بے دخل ہوکر ادھر ادھر کیمپوں میں بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہے' خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا کے باشندے اپنے گھروں سے نکل کر پورے ملک میں بکھرے پڑے ہیں' فاٹا میں مردم شماری کیسے ہوگی۔

IDPsکا کیا ہوگا؟ دوسری طرف جنوبی خیبرپختونخوا کے پختونوں کی مردم شماری کو بلوچ بھائی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے'ان کو فکر ہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد اور مقامی آ بادی میں ادغام سے پختونوں کی آبادی بلوچوں سے زیادہ ہوجائے گی 'وہاں بھی آج تک مردم شماری کا ریکارڈ مشکوک رہا ہے کیونکہ دونوں قومیتیں اکثریت میں ہونے کی دعویدار ہیں، سابقہ فاٹاکی اکثریت خیبر پختونخوا میں مقیم ہے ؟ یہاں کاروبار کررہے ہیں ' خیبرپختونخوا اپنے وسائل سے جو طبی' تعلیمی اور دیگر سہولتیں فراہم کرتا ہے۔

اس سے افغان مہاجرین اور سابقہ فاٹا کے باشندے بھی مستفیدہوتے ہیں' لیکن یہ لوگ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔یہ دونوں طبقے بنیادی طور پر مرکزی حکومت کی ذمے داری ہیں'جو ان کا خرچہ عالمی اداروں سے وصول کرتی ہے' ' قابل تقسیم محاصل میں نہ سابقہ فاٹا کو اس کا حصہ ملتا ہے اور نہ خیبر پختونخوا کو ان کا حصہ دیا جاتا ہے۔پختونوں کی اپنے علاقوں سے نقل مکانی کی بڑی ذمے داروفاقی اور خیبرپختونخوا حکومت کی پالیسیاں بھی ہیں۔

پختون علاقوں میں 'خام مال' معدنیات اور توانائی کے بے پناہ وسائل ومواقع موجود ہونے کے باوجود ' ترقی کا زیادہ زور کراچی اور وسطی پنجاب کے چند مخصوص علاقوں پر رہا ۔ پختون آج بھی ملکی وسائل اور دیگر حقوق میں اپنے جائز حصے سے محروم ہیں' گدون امازئی 'سمیت پورا خیبر پختونخوا صنعتوں کا قبرستان بن چکا ہے۔

بعض اندازوں کے مطابق پختون آج کے پاکستان میں تعداد کے لحاظ سے دوسری بڑی قومیت ہے'اس کے لیے لازم ہے کہ پختونوں کے تمام علاقوں پر مشتمل ایک صوبہ بنایا جائے تاکہ ان کی صحیح تعداد اور ملکی وسائل میں ان کے جائز حصے کا تعین ہو سکے۔

پختون محنت مزدوری کے لیے دوسرے صوبوں میں عارضی قیام پذیر ہوتے ہیں لیکن ان کے خاندان اپنے صوبے میں ہوتے ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان محنت کش پختونوں کا اپنے مستقل علاقے میں اندراج کیا جائے' یہ بہت زیادتی ہوگی کہ ان کا اندراج دوسرے صوبوں میں کیا جائے اور ان کی اندراج کی بناء پر ان کے صوبوں کی آبادی کم اور دیگر کی آبادی زیادہ ہوجائے۔

اس طرح ان کی غربت کی وجہ سے دوسرے صوبے فائدے اٹھائیں' اگر پختون محنت کش دوسرے صوبے کے وسائل استعمال کر رہا ہے تو بدلے میں وہ اس صوبے کی ترقی میں کردار بھی ادا کر رہا ہے۔پختون سیاسی قائدین کو بھی اس اہم مسئلے کے بارے میں نوٹس لینا چاہیے۔
Load Next Story