ٹیکنالوجی کا استعمال نئی دنیا کا سفر

ٹیکنالوجی آج کے دور میں انسانوں کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کرچکی ہے


حالات کو قبول کرتے ہوئے نئی ایجادات کا صحیح استعمال سیکھنا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

انسان کے اس دنیا میں آنے سے لے کر آج تک انسان بہت سے ادوار سے گزرا ہے۔ اور ہر دور میں پہلے سے بہتر زندگی گزارنے کےلیے کوشاں رہا ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کا استعمال کرتے ہوئے انسان آج اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اس نے دنیا سمیٹ کر اپنی انگلی کے نیچے لا کر رکھ دی ہے۔


انسانی ارتقاء کی بات کی جائے تو ہمارے آباء و اجداد کا طرز زندگی ہم سے بہت مختلف تھا۔ ان کے نزدیک زندگی گزارنے کے کوئی اصول و ضوابط نہ تھے۔ وہ جانوروں کا شکار کرتے اور اپنا پیٹ پالتے تھے۔ نہ ہی جسم پر لباس پہننے کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی نظم وضبط کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ۔ دور پہاڑوں پر لگی ہوئی آگ بہت خوفناک معلوم ہوا کرتی تھی، مگر جیسے ہی انسان نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے آگ پر قابو پانا سیکھ لیا تو دنیا کے نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ جب کھانا آگ پر پکایا جانے لگا تو وہ سارا وقت جو صرف پیٹ پالنے کےلیے انسان صرف کرتا تھا، اب انسان کائنات پر غور کرنے لگا۔ اس نے خود پر اور اس دنیا پر تحقیق شروع کردی۔


جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان مزید ترقی کرتا گیا اور پھر انسان صنعتی دور میں داخل ہوگیا۔ بڑی بڑی فیکٹریاں تعمیر کیں، زراعت شروع کی اور اپنی آسانی کےلیے نت نئے ایجادات بھی کرنے لگا اور آج ہم زندگی کے ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جو انفارمیشن کا دور ہے، اب زیادہ اہمیت اس انسان کی ہے جس کے پاس انفارمیشن زیادہ ہے۔ ان تمام ادوار کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے سے بہتر چیز کو حاصل کرنے کےلیے پرانی چیز کو چھوڑنا پڑتا ہے تب ہی انسان پہلے سے زیادہ اچھے دور میں داخل ہوسکتا ہے۔


اگر میں آزاد کشمیر کے شہر مظفرآباد کی مثال دوں تو آج سے صرف دو دہائی قبل اس شہر کا شمار کم ترقی یافتہ شہروں میں ہوتا تھا، یہاں تک کہ موبائل فون کا استعمال دس فیصد سے بھی کم تھا۔ آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد تو ایسا لگتا تھا کہ شاید یہاں اب زندگی دوبارہ بحال نہیں ہوسکے گی۔ مگر آج جب اس شہر کا موازنہ زلزلے سے پہلے والے مظفرآباد سے کرتے ہیں تو انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ شہر پہلے سے زیادہ خوبصورت اور ترقی یافتہ بن چکا ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی بھی بہت بہتر ہوچکا ہے۔ جہاں اب ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں اور اب بھی مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔


تاریخ کی ان مثالوں سے یہ بات تو واضح ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کےلیے تبدیلی بہت ضروری ہے۔ گزشتہ چند سال سے پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک مختلف قسم کی تبدیلیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ پاکستان میں تو عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ اپنے سیاسی مفادات کےلیے لگانا شروع کیا تھا، لیکن پوری دنیا دوسری ہی تبدیلی کے اثرات سے دوچار ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر موسمیاتی، سیاسی و سماجی اور اقتدار میں تبدیلیاں لوگوں کو مسائل سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا میں غذا کی کمی، کورونا جیسے وبائی امراض اور دیگر دوسرے مسائل نے حالات کافی حد تک تبدیل کرکے رکھ دیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قدر جدید دور میں بھی آخر انسان کو اس طرح کہ مسائل کا سامنا کیوں کرنا پڑرہا ہے؟ اگر جلد ہی ان مسائل کے حل کےلیے کوشش نہ کی گئی تو ممکن ہے کہ یہ دنیا اپنے فنا کو پہنچ جائے۔


آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی جانب سے 'چیٹ جی پی ٹی' جیسی حیران کن ایجاد، جو کہ انسانی ذہن جیسے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، نے اب دنیا کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا ہے۔ یقیناً یہ دنیا بھی اب نئے دور میں داخل ہونے جارہی ہے۔ اب انسانوں کے کرنے والے کام جب مشینوں سے لیے جائیں گے تو انسان کہاں جائیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قابل تحسین ایجاد ہے مگر کیا ہم نے اس کی وجہ سے پڑنے والے منفی اثرات کے متعلق بھی سوچا ہے؟ آگر نہیں سوچا تو اب بھی وقت ہے سوچا جاسکتا ہے۔ اور مناسب اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشین لرننگ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اوپر بیان کردہ مسائل کے حل کےلیے بھی ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے ورنہ عالمی حالات اچانک کشیدگی کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔


اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نے ان تبدیلیوں کے ساتھ خود کو کیسے ڈھالنا ہے؟ حالات کو قبول کرنا ہے اور نئی ایجادات کا صحیح استعمال خود بھی سیکھنا ہے اور اپنی آنے والی نسل کو بھی سکھانا ہے۔ اس دور میں ایسا سوچنا کہ ہم ٹیکنالوجی کو چھوڑ دیں گے اور دور کہیں کسی گاؤں میں جاکر زندگی بسر کرلیں گے یہ سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ چلو مان لیا کہ ہم ایسا کر بھی لیں تو ہماری زندگی گزر جائے گی، مگر ہماری آنے والی نسل کا کیا ہوگا؟ اس لیے ان سے دوری مسئلے کا حل نہیں بلکہ ان کے مناسب استعمال سے واقفیت حاصل کرنی ضروری ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو یا تو ہم اس دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے یا پھر ممکن ہے کہ بجائے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو اپنا غلام بنانے کہ ہم خود اس کے غلام بن جائیں گے اور یہی ہماری بدحالی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں