خطے کی بدلتی صورتحال اور سیاسی قیادت کی خاموشی  

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں تو صورتحال گھمبیر ہو گئی ہے

خیبرپختونخوا میں صورتحال افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے خراب ہو رہی ہے ، پچھلے سال کے آخر اور اس سال کے آغاز میں تو ٹی ٹی پی کی کارروائیوں نے 2007 سے 2014 تک کا ریکارڈ توڑ دیا۔ صرف جنوری اور فروری کے دو مہینوں میں قریباً دو سو سے زائد پولیس اہکاروں کو شہید کر دیا گیا اور دہشت گردی کے سیکڑوں واقعات ہوئے۔

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں تو صورتحال گھمبیر ہو گئی ہے۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں پولیس نے رات کے گشت ختم کر دیے۔ پشاور میں سیکیورٹی فورسز نے نہ صرف نئے مورچے بنائے بلکہ کینٹ کے ایریا میں داخلے کو محدود بھی کر دیا گیا ہے اور چیکنگ بھی سخت کر دی گئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صورتحال نارمل نہیں۔

کئی جگہوں پر تو سیکیورٹی سے منسلک سرکاری دفاتر کے قریب کی اونچی عمارتوں پر بھی سیکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں کیونکہ ایسے خدشات بھی ہیں کہ تحریک طالبان آبادی والے علاقوں میں موجود پولیس اور دیگر سیکیورٹی سے منسلک اداروں کے دفاتر پر باقاعدہ حملے کر سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پشاور میں سیکیورٹی کا ایک نیا حصار قائم کر دیا گیا ہے اگرچہ فی الوقت تحریک طالبان خیبرپختونخوا میں بھرپور طریقہ سے اور بلوچستان میں محدود پیمانے پر کارروائیوں میں مصرف ہے، پنجاب کو ابھی نشانہ نہیں بنایا لیکن پنجاب کے اندر مستقبل میں ایسے حملے نہ ہونے کی کوئی گارنٹی موجود نہیں کیونکہ ماضی میں بھی ریاست پاکستان اور اس وقت کی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے تحریک طالبان نے پنجاب کو بھی نشانہ بنایا تھا، شاید اسی لیے سیکیورٹی اداروں نے الیکشن ہونے کی صورت میں پنجاب میں بھی کارروائیوں کا انتباہ دیا ہے۔


پچھلے ایک سال کی سیاسی کشمکش اور اس سے ایک سال قبل طالبان کو رعائتیں دیے جانے کی وجہ سے تحریک طالبان نہ صرف منظم ہوئی بلکہ خطرناک حد تک متحرک بھی ہو چکی ہے جن کے پاس ہتھیار بھی افغانستان میں امریکی اسلحہ باقی رہ جانے کی وجہ سے جدید ہیں۔ اس کے برعکس سیکیورٹی اداروں کو مالی مشکلات کی وجہ سے ان جدید ہتھیاروں تک رسائی میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ جتنی بڑی تعداد میں یہ ہتھیار ضروری ہیں اس کے لیے مطلوبہ فنڈز صوبائی حکومت کے پاس موجود ہی نہیں۔

صوبے کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعویدار تحریک انصاف کو صوبے کے مسائل نظر ہی نہیں آ رہے۔ صوبے کے معاملات پر بات کرنے کے بجائے پی ٹی آئی قیادت زمان پارک کے باہر پہرہ داری کو اپنے لیے معتبر سمجھتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے جب ہمارے صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ محمود خان اور دیگر وزراء اپنے صوبے کو چھوڑ کر زمان پارک کے باہر پہرہ داری کر رہے ہیں۔ اسی طرح سارے پی ٹی آئی کی قیادت لاہور منتقل ہو چکی ہے کیونکہ عمران خان کے اشارے پر ہی ٹکٹ ملیں گی۔

عوامی نیشنل پارٹی جس نے امن و امان کے مسئلے کو اٹھایا، احتجاجی مارچ بھی کیے لیکن پھر نگران حکومت کی محبت میں ایسے ڈوب گئی کہ اب انھیں ہر جگہ گلستان ہی نظر آ رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کی سیاسی قیادت بشمول پی ٹی آئی کو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا ہے کہ خطے کی صورتحال بدل گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ خیبرپختونخوا میں لڑی گئی تھی، اب وہ سرحد کے اس پار لڑی جائے گی، امریکی حکام اب بھی افغانستان میں طالبان کی حکومت کو کمزور سمجھتے ہیں انھیں داعش کا خطرہ ہے جو تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔

امریکی حکام نے یہ اندازے بھی لگائے ہیں کہ جلد یا بہ دیر تحریک طالبان افغانستان کئی حصوں میں بٹ سکتی ہے جس کا بڑا فائدہ افغانستان میں سرگرم داعش کو پہنچ سکتا ہے شاید اسی خدشے کے پیش نظر پچھلے سال کے آخر سے امریکا نے ایسے بیانات دیے کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف افغانستان میں کارروائی کی اجازت ہے۔

تحریک طالبان کو پاکستان بھی اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ افغان طالبان کے چہرے سے بھی نقاب الٹ چکا ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے مفادات کے ساتھ کتنے مخلص ہیں، وہ پوری قوت سے ٹی ٹی پی کی سہولت کاری اور پشت پناہی کررہے ہیں۔
Load Next Story