عدلیہ میں احتساب کے نظام پر سوالات
پارلیمان میں جو قانون سازی کی گئی ہے اس کی نوبت ہی نہ آتی اگر فل کورٹ میں یہ اصلاحات کر لی جاتیں
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ موجودہ صورتحال میں عدلیہ ملک کے سیاسی کٹہرے میں کھڑی نظر آرہی ہے۔ ایسے میں عدلیہ کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عدلیہ کے وقار اور ساکھ کی حفاظت کی جا سکے۔
آج کل یہ سوال بھی بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ عدلیہ کے اندر احتساب کا کوئی قابل اعتماد نظام نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بیرونی دبائوسے پاک رکھنے کے لیے عدلیہ نے اپنے اندر احتساب کا خود کار نظام بنایا ہوا ہے۔
عدلیہ میں احتساب کا سب سے بڑا ادارہ سپریم جیوڈیشل کونسل ہے، لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا سپریم جیوڈیشل کونسل ایک فعال اور خود کار ادارہ ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے سینئر ججز اور سپریم جیوڈیشل کونسل کے ممبران جسٹس قاضی عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق نے سپریم جیوڈیشل کونسل کا اجلا س بلانے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن یہ اجلاس نہیں بلایا جا رہا ہے۔
یہاں یہ حقیقت ہے کہ سپریم جیوڈیشل کونسل کے اجلاس کوئی باقاعدگی سے منعقد نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ادارہ بھی ریفارمز کا محتاج ہے۔ جس ادارے کا اجلاس بلانا ہی ایک مسئلہ ہو اس سے احتساب کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر اجلاس بلانا صوابدید ہے۔ تو احتساب بھی صوابدید ہو گیا۔
میں سمجھتا ہوں سپریم جیوڈیشل کونسل کا اجلاس بلانا چیف جسٹس کی صوابدید نہیں ہونا چاہیے۔ سپریم جیوڈیشل کونسل کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہونے چاہیے۔ ہر درخواست پر باقاعدگی سے غور ہونا چاہیے۔ اور اس کا میرٹ پر وقت پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ شکایت موجود ہو اور اجلاس ہی نہ ہو۔ جب بھی کوئی شکایت ہو سپریم جیوڈیشل کونسل فوراً اجلاس بلانے کی پابند ہونی چاہیے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آج تک اعلیٰ عدلیہ نے کرپشن کے الزامات پر کسی بھی جج کو نہیں نکالا۔ جسٹس شوکت صدیقی کو ایک متنازعہ تقریر پر نکالا گیا۔ جب کہ اس کے بعد کسی جج کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اب کیا پورے پاکستان میںاعلیٰ عدلیہ میں کسی جج کے خلاف کوئی شکایت ہی نہیں۔ سب مکمل ایماندار ہیں۔ یہ ماننا مشکل ہے۔
حال ہی میں جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف شکایات آئی ہیں، لیکن ان شکایات پر سپریم جیوڈیشل کونسل کا اجلاس نہیں بلایا جا رہا۔ حالانکہ جسٹس شوکت صدیقی کے لیے فوری اجلاس بلا کر فوری فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح جب جسٹس قاضیٰ عیسیٰ کے لیے بھی فوری اجلاس بلالیا گیا تھا۔ لیکن اب نہیں بلایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی اجلاس نہیں بلایا جاتا۔ اب تو اس بات پر کھل کے بحث شروع ہو گئی ہے کہ پسندیدہ ججز کے خلاف شکایات پر خاموشی اختیار کر کے ان کا ساتھ دیا جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں جب تک عدلیہ میں احتساب کا کوئی فعال نظام نہیں بنایا جاتا۔ عدلیہ میں جب تک احتساب کا فعال خود کار اور شفاف نظام نہیں ہوگا' عدلیہ کی ساکھ پر جوسوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان کے جوابات نہیں مل سکیں گے۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ کسی جج کے خلاف کوئی شکایت ہی نہیں' اس لیے سپریم جیوڈیشل کونسل کا سالہا سال کوئی اجلاس ہی نہیں ہوتا۔ یعنی سالہاسال احتساب کے ادارے کا کوئی اجلاس ہی نہیں ہوتا۔ یہ کیسا نظام احتساب ہے۔
اسی طرح ماتحت عدلیہ میں احتساب کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ماتحت عدلیہ میں حالات کوئی اچھے نہیں ہے۔ کیا ماتحت عدلیہ میں کرپشن نہیں ہے۔ کیا وہاں سائلین کے ساتھ زیادتی نہیں ہو رہی۔ وہاں ہر لمحہ پر انصاف کا خون نہیں ہورہا۔ کیا کبھی اعلیٰ عدلیہ کے جج نے ماتحت عدلیہ کی عدالتوں کا چکر لگایا ہے۔ کیا وہاں کے حالات دیکھے ہیں۔ تاریخ لینے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے۔ ریڈر کیا چیز ہے۔ ریڈر کے کتنے اختیارات ہیں۔ عدالتوں میں کیا ہورہا ہے۔ یہ سب کو علم ہے۔
اس لیے عدالتوں کی صورتحال سے واضح ہے کہ عدلیہ میں شفافیت کا کوئی قابل عمل نظام نہیں ہے۔ ماتحت عدلیہ کا احتساب کا بھی کوئی نظام نہیں ہے۔ اب یہ بھی عجیب بات ہے کہ ماتحت عدلیہ کے احتساب کی ذمے داری بھی اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اعلیٰ عدلیہ جہاں اپنے احتساب کے لیے بھی کوئی فعال نظام نہیں بنا سکی۔ ساتھ ساتھ ماتحت عدلیہ کے احتساب کا بھی کوئی فعال نظام نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے عدلیہ نے اپنے احتساب کا اختیار بھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ لیکن اس اختیار کا درست استعمال بھی ہونا چاہیے۔ یہ کیا صورتحال ہے کہ آپ اپنے پاس اختیار بھی رکھیں اور پھر اس اختیار کو کمرے میں بند رکھیں۔احتساب کو بند کر کے آپ کسی ادارے کی ساکھ کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ اس لیے وقت آگیا ہے کہ اب عدلیہ اپنے اندر احتساب کا نظام فعال کرے۔ ورنہ سوالات اٹھیں گے۔
عدلیہ میں احتساب کے بغیر عدلیہ میں اصلاحات ممکن نہیں ۔ شفاف احتساب کے بغیر کوئی ادارہ نہیں چل سکتا۔ چیف جسٹس صاحب نے کھلی عدالت میں کہا ہے کہ میں اپنے انتظامی اختیارات کے لیے کسی کو جوابدہ نہیں۔ اگر آپ ا نتظامی اختیارات کے لیے جوابدہ نہیں۔ تو پھر حکومت اپنے انتظامی اختیارات کے لیے کیسے جوابدہ ہے۔ وزیر اعظم اپنے انتظامی اختیارات کے لیے کیسے جوابدہ ہے۔
بیوروکریسی کے افسران اپنے انتظامی افسران کے لیے کیسے جوابدہ ہیں۔ اگر وہ سب جوابدہ ہیں تو سب ہی اپنے انتظامی اختیارات کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔ انتظامی اختیارات بھی شفاف طریقہ سے استعمال کرنے کی ذمے د اری سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سب ہی انتظامی اختیارات کے لیے جوابدہ ہیں۔ بنچ فکسنگ اور بنچ بنانے میں فرق واضح ہے۔
اس اختیار کو انصاف اور ایمانداری سے استعمال کرنا اپنے عہدے کی عزت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر اس پر سوال اٹھیں گے تو انصاف کے دہرے معیار کو کوئی قبول نہیں کرے گا۔ ویسے تو عدلیہ میں فل کورٹ کا اجلاس اب ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ نہ انتخابات کے لیے فل کورٹ بنایا گیا۔
اب بھی پارلیمان میں جو قانون سازی کی گئی ہے اس کی نوبت ہی نہ آتی اگر فل کورٹ میں یہ اصلاحات کر لی جاتیں۔ اب بھی اس قانون سازی پر فل کورٹ بلایا جانا چاہیے۔ سب ججز کی رائے آنی چاہیے۔ اسی طرح اگر عدلیہ اپنے اندر احتساب کا فعال نظام بنانے کے لیے فل کورٹ میں اصلاحات نہیں کرتی تو سوالات اٹھیں گے،کیونکہ ججز کی پسند ناپسند نہیں ہوتی بلکہ ان کے سامنے صرف آئین اور قانون کی پاسداری ہوتی ہے۔