وزیراعظم اور کابینہ تین رکنی بینچ کے فیصلے پر عمل نہ کریں قومی اسمبلی میں قرارداد منظور

چار رکنی اکثریتی فیصلے پر تین رکنی اقلیتی بنچ کو ترجیح دی گئی، فل کورٹ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے، قرارداد کا متن


ویب ڈیسک April 06, 2023
(فوٹو فائل)

قومی اسمبلی نے انتخابات کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرنے اور وزیراعظم سمیت کابینہ سے اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے مطالبے کی قرارداد منظور کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے زیر صدارت شروع ہوا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے سپریم کورٹ کے انتخابات کیس سے متعلق فیصلے کے خلاف قراداد پیش کی۔

ارکان اسمبلی نے قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا تاہم پی ٹی آئی نے قرارداد کی مخالفت کردی، یہ مخالفت پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی محسن لغاری اور محمود باقی مولوی نے کی۔

یہ پڑھیں : حکومت کا سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف قومی اسمبلی میں قرارداد لانے کا اعلان

قرار داد میں کہا گیا ہے کہ 28 مارچ کو اس ایوان نے ازخود نوٹس کیس نمبر 1/2023 میں سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد اور اعلی عدلیہ سے سیاسی و انتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کا مطالبہ کیا تھا، اکثر حلقوں نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیاتھا لیکن اِسے منظور نہیں کیاگیا۔

قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایک کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں کا موقف سنا ہی نہیں گیا، پارلیمنٹ کی واضح قرارداد اور سپریم کورٹ کے چار ججز کے اکثریتی فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے تین رکنی مخصوص بینچ نے اقلیتی رائے مسلط کردی جو سپریم کورٹ کی اپنی روایات، نظائر اور طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی ہے۔

قرارداد کے مطابق اکثریت پر اقلیت کو مسلط کردیا گیا ہے، تین رکنی اقلیتی بینچ کے فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتی ہے اور آئین و قانون کے مطابق اکثریتی بینچ کے فیصلے کو نافذالعمل قرار دیتی ہے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ یہ اجلاس آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر مقدمات کو فل کورٹ میٹنگ کے فیصلوں تک سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے اور ایک ایگزیکٹو سرکلر کے ذریعے اس پر عمل درآمد روکنے کے اقدام کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔

na

متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان اسی عدالتی فیصلے کو عجلت میں ایک اور متنازع بینچ کے روبرو سماعت کے لیے مقرر کرنے اورچند منٹوں میں اس پر فوری فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے کہ ایسا عمل سپریم کورٹ کی روایات اور نظائر کے صریحاً خلاف ہے، لہذا یہ ناقابل قبول ہے۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے اور وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کردی گئی ہے لہذا ، یہ ایوان ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے آئین اور قانون میں درج مروجہ طریقہ کار کے عین مطابق ملک بھر میں ایک ہی وقت پرعام انتخابات کرانے کے انعقاد کو ہی تمام مسائل کاحل سمجھتا ہے۔

قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ایوان تین رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتا اور وزیراعظم سمیت کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اِس خلاف آئین و قانون فیصلہ پر عمل نہ کیا جائے، یہ ایوان دستور کے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اوراسے عدالت عظمی کے فیصلے کے ذریعے ازسر نو تحریر کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ عدالت عظمی کا فل کورٹ اس پر نظر ثانی کرے۔

اس ایوان کو عدلیہ کے خلاف استعمال نہ کیا جائے، تحریک انصاف

قرارداد کی مخالفت میں تحریک انصاف کے رکن محسن لغاری نے کہا کہ مجھے قرارداد پر تحریک پیش ہوتے وقت بولنے نہیں دیا گیا، اب میں اس قرارداد کی مخالفت کرتا ہوں، آئین ہمیں عدلیہ کے خلاف ایوان میں گفتگو کرنے سے منع کرتا ہے اس لیے اس ایوان کو عدلیہ کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔

محسن لغاری نے کہا کہ یہ غلط روایت ڈال کر ہم اجتماعی طوپر توہین عدالت کا باعث بن رہے ہیں، عدلیہ میں زیر سماعت مقدمات پر یہاں بات نہیں ہوسکتی۔

اس بات پر اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ فیصلے کے بعد بات ہوسکتی ہے جس پر محسن لغاری نے کہا کہ کیا ہم پارلیمان اور عدلیہ کی جنگ چاہ رہے ہیں؟ اگر عدلیہ کو زیر بحث لانا ہے تو آئین میں لکھ دیں کہ ججز پر بھی یہاں بات ہوگی، ہم خطرناک راستے پر جارہے ہیں۔

محسن لغاری کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے اندر لکھے نوے روز کے اندر الیکشن کرانے کا کہنے کی وجہ سے عدالت یہ فیصلہ دے رہی ہے۔

عدلیہ کے خلاف قرارداد منظور ہوتے ہی وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر ایوان سے چلے گئے۔

عمران خان یہودی ایجنٹ ہے اسے کسی صورت دوبارہ اقتدار میں آنے نہیں دینگے، جے یو آئی

قرارداد پر بات کرتے ہوئے جے یو آئی کے رکن اسمبلی مولانا اسد محمود نے کہا کہ ہم کسی صورت بھی الیکشن کمیشن کے اختیارات سپریم کورٹ کو نہیں دیں گے، توہین عدالت لگانی ہے تو لگائیں ہم تیار ہیں، تنازع کا آغاز خود سپریم کورٹ کے ججز نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج کل عدالتوں میں فرمائشی فیصلے ہورہے ہیں، اس وقت وزیراعظم کو سب سے زیادہ آزمائش کا سامنا ہے، عمران خان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے، عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ طے نہیں کریں گے۔

مولانا اسد محمود نے عمران کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ عمران خان یہودیوں کا ایجنٹ ہے، آئے روز زمان پارک میں ملاقاتیں ہورہی ہیں ہم عمران خان کو کسی صورت دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں