طلبا میں چیٹ جی پی ٹی کا بڑھتا استعمال ایچ ای سی کے لیے دردسر بن گیا

سرقہ نویسی کی شناخت کے لیے ایچ ای سی کا سوفٹ ویئر جی پی ٹی سے لکھوائی گئی تحریر کی شناخت کرنے سے قاصر ہے


Safdar Rizvi April 06, 2023
 فوری حل تلاش نہیں کیا جاسکا تو پی ٹی اے سے  چیٹ جی پی ٹی پر پابندی کی سفارش کرسکتے ہیں، چیئرمین ایچ ای سی ،(  فوٹو: انٹرنیٹ )

انسانی طرز پر رد عمل دینے والے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے نئے پروگرام "جی پی ٹی ماڈل"نے سائنسی و غیرسائنسی شعبوں میں تہلکہ مچادیا ہے اور اس کے بعض منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے سرجوڑلیے ہیں۔

اس ماڈل میں سوالات کے جوابات دینے،موضوعات پر تبصرہ کرنے اور آرٹیکل، خلاصوں اور ترجمے میں مہارت رکھنے سمیت ماہرانہ طرزکے وہ عوامل بھی شامل ہیں جو معروف سرچ انجن گوگل پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اسی بنیاد پراس ماڈل نے ایک جانب آئی ٹی سمیت دیگرپیشوں سے وابستہ ماہرین کوحیرت میں ڈال دیا ہے جبکہ دوسری جانب طلبا اور بالخصوص جامعات کی سطح پر جی پی ٹی ماڈل متعارف ہونے سے طلبا کی چاندی ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ای کامرس پلیٹ فارم، 'قسط بازار' نے 100 کروڑ روپےکی مصنوعات فروخت کرکےنیا ریکارڈ قائم کردیا

جامعات کی سطح پر طلباء و طالبات میں اس کااستعمال اس قدر عام ہوگیا ہے کہ مختلف ضابطوں اورشعبوں میں پڑھنے والے طلباء وطالبات اس ماڈل سے تھیسز رائٹنگ کروارہے ہیں اور اپنے اسائنمنٹس بنوارہے ہیں۔

اطلاع یہ ہے کہ تھیسزرائٹنگ میں سرقہ نویسی کی شناخت کے لیے ایچ ای سی کے پاس دستیاب سوفٹ ویئر بھی جی پی ٹی ماڈل سے لکھوائی گئی تحریر کی شناخت نہیں کرسکتا، جبکہ اس ماڈل کا کسی بھی سوال کے جواب میں ردعمل اس قدر تیز ہے کہ تھیسز رائیٹنگ یا کسی بھی قسم کے اسائنمنٹس میں گوگل کے استعمال کی ضرورت ہی پیش نہیں آرہی۔

"ایکسپریس"نے اس سلسلے میں چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹرمختاراحمد سے بات کی توان کا کہنا تھا ایچ ای سی کے علم میں یہ معاملہ آیا ہے اورآئی ٹی کے شعبے سے کہا گیا ہے کہ اس کے تدارک کے لیے حکمت عملی پیش کی جائے کہ کس طرح آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی اس نئی جہت کا غلط استعمال روکا جائے۔

مزید پڑھیں: گوگل کا بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے 1000 اسکالرشپ کا اعلان

ڈاکٹرمختاراحمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرہم فوری طورپر اس کا کوئی حل نہیں ڈھونڈ سکے توہم پی ٹی اے کوسفارش کرسکتے ہیں کہ ملک میں اس کا استعمال روکا جائے یاکسی حد تک محدود کیاجائے تاہم یہ آخری آپشن ہوگا۔

قابل ذکر امریہ ہے کہ جی پی ٹی ماڈل ایک چیٹ ماڈل ہے جوکسی بھی انسان سے باقاعدہ بات چیت کے ذریعے دنیا کے کسی موضوع پر اپنی رائے دینے،اپنے الفاظ میں معلومات فراہم کرنے اوراس معلومات کے حوالے سے کیے گئے سوالات کو مزید بہترانداز اور تفصیلات کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے سبب کالجوں اورجامعات کی سطح پر نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ میں بھی اس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔

اور پڑھیں: پاکستانی ماہر ڈاکٹرعادل نجم ڈبلیوڈبلیوایف انٹرنیشنل کے صدر منتخب

علاوہ ازیں مختلف صنعتوں میں اس کے استعمال کے حوالے سے جب "ایکسپریس"نے ایک غیرملکی آئی ٹی سوفٹ ویئر کمپنی کے ڈائریکٹرعروج زیدی سے اس معاملے پر بات چیت کی توان کا کہنا تھا کہ اب انڈسٹریز آٹومیٹ ہونے جارہی ہیں جس میں جیٹ جی پی ٹی بڑا کردارادا کرسکتا ہے، تاہم انڈسٹڑی آٹومیٹ کرنے سے افرادی قوت کی ضرورت بھی کم ہوجائے گی لہذا انڈسٹریزکوفائدہ لیکن کام کرنے والے عام آدمی کے لیے مشکلات ہوں گی۔

واضح رہے کہ مختلف شعبوں یا پیشوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اس کے استعمال پراساتذہ بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ کمپیوٹرسائنس کے فیکلٹی ممبر ڈاکٹرفرحان صدیقی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے انڈسٹری اورتعلیمی اداروں میں مثبت اورمنفی دونوں طرح کے اثرات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت سیمسٹرشروع ہوا ہے، امتحانات اوراسائنمنٹس کے وقت اس بات کا بہترادراک ہوپائے گا کہ اسائنمنٹ اوررائٹنگ طلبا کی اپنی ذہنی تخلیق ہیں یا پھر ان کی تیاری میں چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کیا گیا ہے۔

ڈاکٹرفرحان صدیقی کا کہنا تھا کہ سب سے بڑاچیلنج تھیسز رائیٹنگ ہے کیونکہ اس ماڈل میں مواد کو کوrephraseکرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں