پہلی اور آخری فصیل
ان کی کوئی زبان ہے نہ کوئی وعدہ کا اعتباراور نہ ہی ترقی کا کوئی جدید ویژن نظر آتا ہے
ملکی سطح کے سیاست دانوں نے اپنی حد درجہ نالائقی' ہوس اقتدار اور دولت کے لالچ کی وجہ سے ہر ادارے کو نہایت عیاری سے خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ بذات خود ' سیاست دانوں کی اکثریت عوامی تائید اور عزت سے محروم ہے، اپنی اس حقیقت کو جاننے کے بعد' وہ سفاکی سے ریاستی اداروں کے پیچھے چھپنے میں مصروف ہیں۔
پورے ملک میں ایک بھی ایسا سیاسی قائد موجود نہیں جو اپنے تدبر اور عوامی سیاسی جدوجہد کی بنا پر تخت پر بیٹھ سکے، اگر کوئی براجمان ہو بھی جائے تو امور مملکت احسن طور پر چلا نے کی قابلیت سے محروم ہے۔ میڈیا پر سیاست دانوں کے بیانات سن کر دکھ ہوتا ہے۔
ان کی کوئی زبان ہے نہ کوئی وعدہ کا اعتباراور نہ ہی ترقی کا کوئی جدید ویژن نظر آتا ہے ۔ یہ چہرے دراصل ہماری بدقسمتی کے نشان ہیں جو جونکوں کی طرح ملک کے وسائل سے چمٹے ہوئے ہیں، ملک کا دیوالیہ نکل گیا مگر ان کے پیٹ بھر ہی نہیں رہے۔ کوئی لندن میں فراری کی حیثیت سے ملک کے عوام کو مفید مشورے دیتا ہے ۔
تو کوئی زمان پارک میںبیٹھ کر مسیحا ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر رہا ہے، کوئی وزارت عظمیٰ کو بے توقیر کر رہا ہے تو کوئی صوبے کی وزارت اعلیٰ یا گورنر کے عہدے کو غیر مؤثر بنا رہا ہے۔ مگر ٹھہریے۔
ان میں سے ہر ایک' اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اقتدار میں رہنے یا حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سطح پر گرنے کے لیے تیار ہے۔ کوئی بیساکھیوں کے بغیر الیکشن کے تصور سے بھاگ رہاہے۔ اور کوئی نتائج کی پرواہ کیے بغیر الیکشن کے یخ ٹھنڈے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے بے قرار ہے۔
اس بے سمت سفر میں ریاست ہر طرح سے مجروح ہو رہی ہے۔ موجودہ سیاست دانوں نے اداروں کے ساتھ وہ کچھ کر ڈالا ہے ' جو ملک کا بدترین دشمن بھی نہیں کر سکتا، چند سیاست دان ریاستی اداروں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔
اکثر لکھاری' مسائل کے جوہری نکتہ پر بات نہیں کرتے۔ سچ کو بھی سامنے لانے سے گریز کرتے ہیں۔موقع پرست سیاست دان خستہ حال، بیمار ذہنیت کے دانشوروں کو اپنے فائدے کے لیے بڑی خوبی سے استعمال کرتے ہیں۔
تمام کمزوریاں اور مصائب کو آپ اگر سادہ طریقے سے پرکھنا چاہیں' تو وہ صرف ایک ہے، عسکری اداروں کی موجودہ صورت حال میں کیا سوچ ہے؟ پہلے تو یہ عرض کروںگا کہ فوج کی کبھی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ وہ حکومتی معاملات کو کنٹرول کرے۔
ان کی ترجیحات میں ہندوستان ' افغانستان اور پینٹا گون کے معاملات شامل ہیں ، جہاں تک جوہری پروگرام کا تعلق ہے' سیاستدان کو اس سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے۔ شائد آپ کو یہ جملہ غیر مناسب لگے لیکن ہمارے چند سیاست دان نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ کرنے کے لیے بھی تیار ہوجائیں گے ۔
دراصل ہمارے پاس فوج کے سوا کوئی منظم اور طاقتور ادارہ موجود نہیں ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ فوج ہی ملکی وحدت اور استحکام کی اصل ضامن ہے، اس کے سوا کوئی اور ملکی ادارہ موجود ہی نہیں جو اتنا اثرورسوخ رکھتا ہو۔ فوج سے بھی سیاسی میدان میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ مگر ان کے وجود سے ہی اس ملک کی بقا ہے۔
دوسری بات یہ کہ فوج کو متنازعہ بنانے کو کوشش کرنا ، کسی بھی آرمی چیف کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ ملک کے مفادات کے خلاف کام کر رہا تھا یا کررہا ہے' حد درجہ لغو بات ہے۔ میں عسکری اداروں کے اندرونی نظام سے بخوبی واقف ہوں۔
جس کیڈٹ کالج میں پڑھا ہوں' اس نے پاکستانی فوج کو سب سے زیادہ جرنیل اور سینئر افسر فراہم کیے ہیں۔ حسن ابدال کی بات کر رہا ہوں۔ خود میری کلاس میں سے تین لوگ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے ہیں،ان سب کی حب الوطنی شک وشبے سے بالاتر ہے ، میں نے تو وارثین کو گریہ کے بغیر ' شہیدوں کی لاشیں وصول کرتے ہی دیکھا ہے۔
یہ سب کچھ درج کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل چند سیاست دان عسکری اداروں کے خلاف منظم مہم چلا رہے ہیں۔ دشمن ممالک کی ایجنسیاں اس سازش کو ہوا دے رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بالخصوص جھوٹ کو سچ بنا کر ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ کسی کو اندازہ ہی نہیں ہونے دیا جاتا کہ کون ' کس طرح سے ہمارے قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
آئی ایس آئی ان کا خصوصی ہدف ہے۔ اپنی ناکامیاں تسلیم کرنے کے بجائے سیاست دان سارا ملبہ' عسکری اداروں کے ذمے ڈال کر خود کو جعلی معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
دنیا کا کوئی ایک ملک دکھائیں، جہاں عسکری اداروں کی عوامی جلسوں میں توہین کی جاتی ہو۔ ہندوستان میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی جان کے درپے ہے۔
مگر آج تک کسی ہندوستانی وزیراعظم ، قائد حزب اختلاف یا کسی سیاسی لیڈر نے عسکری ادارے کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ کیا راہول گاندھی' اپنے ملک کے خفیہ اداروں کو کوستا نظر آتا ہے؟ ہرگز نہیں' صرف اور صرف اس لیے کہ ہندوستان کے سیاست دان اپنی کارکردگی اور منشورکی بنیاد پرووٹ لینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، ایسا نہیں کہ وہاں سیاسی رقابتیں اور نفرتیں نہیں ہیں، بالکل ہیں۔ مگر وہاں کے سیاست دان اپنے عسکری اداروں کی حدود و قیود اور ذمے داریاں بخوبی جانتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان کے سیاست دان ہر قیمت پر فوج کو سیاسی معاملات میں الجھانے کی ہر کوشش کرتے ہیں۔
مثال دینا ضروری ہے تاکہ ایسا نہ معلوم ہو کہ یہ سب کچھ صرف لفاظی ہے۔ نواز شریف صاحب کا وا حد وصف 1978ء کے بعد جنرل ضیاء الحق سے ذاتی تعلق استوار ہونا تھا حالانکہ اس تعلق سے قبل انھوں نے تحریک استقلال کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور بری طرح ناکام ہوئے تھے۔
ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی اور بھٹو دشمنی میں نواز شریف کو پنجاب کی سیاست میں مضبوط کیا،انھیں وزیراعلیٰ بنایا، پھر وزارت عظمیٰ تک لے گئے۔ مگر میاں صاحب کو یہ گمان ہونے لگا کہ وہ بذات خود مضبوط اور مقبول ہیں اور بیساکھیوں کے بغیر حکومت میں آ سکتے ہیں۔
ان کا یہ وہم اداروں نے فی الفوردور کر دیا، پھر وہ باہر گئے اور پھر واپس آگئے، پھر اقتدار سے محروم ہوئے، جیل گئے اور ایک عدالتی سٹامپ پیپر پر تین سال سے لندن میں مقیم ہیں۔ آج بھی ان کی زبان پر فوج کے سابق سربراہ کے متعلق سخت الفاظ ہیں۔ حالانکہ اس خاندان نے موجودہ حکومت بھی اسی ادارے کے تعاون سے حاصل کی ہے۔
یہی حال' خان صاحب کا ہے۔ انھیں عسکری اداروں نے نواز شریف کے متبادل کے طور پر پیش کیا، سیاست میں پروان چڑھایا، الیکٹیبلز کو اس کے ساتھ کیا اور تخت پر بٹھا دیا۔ مگر وہ گورننس کے معاملے میں بالکل کورے نکلے۔ حکومت بزدار اور اس طرح کے مشکوک کرداروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔
خان صاحب نے حد درجہ لاپرواہی اور غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت جیسے نازک معاملے کو کرکٹ جیسے کھیل کی طرح سمجھ لیا ۔ جو نقصان ہوا' وہ سب کو معلوم ہے۔ مگر ان کی تمام کوتاہیاں' ان کی غیر معقول برطرفی میں چھپ گئیں۔ حکومت سے نکلنے نے انھیں مقبول بنا دیا، آج وہ اپنے آپ کونجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
اندرون خانہ' و ہ بھی عسکری ادارے سے تعاون مانگ رہے ہیں۔ مگر چند ایسی سنجیدہ وجوہات ہیں کہ مہربان ان پر اعتماد کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ شنید ہے کہ نریندر مودی نے پیغام بھجوایا تھا کہ ہمیں بحیثیت ہمسائے' امن سے رہنا چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم پاکستان آنے کو بھی تیار تھا۔ مگر خان صاحب نے امن کی اس کوشش کو حد درجہ غیر سنجیدگی سے لیا۔ اتنے نازک سفارتی معاملہ کو سنجیدگی سے لینا توکجا' انھوںنے امن کی کوشش ہی کو برباد کر دیا۔
گمان ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے محسوس کیا ہو گا کہ جو شخص پائیدار امن کو محفوظ کرنے میں اتنا غیر مستقل مزاج ہے، وہ حکومت کے دیگر نازک معاملات کو کیونکر چلا سکتا ہے ۔ یہ میرا قیافہ ہے۔ مگر بہر حال اس کے شواہد موجود ہیں، خان صاحب اپنی غلطی کو کسی طور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
سیاست اور گورننس کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ سیاست دانو ں کو اسٹیبلشمنٹ کی معاونت حاصل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جہاں قومی سطح کے سیاست دان' چھپ کر رات گئے اسٹیبلشمنٹ کو ملنا فرض گردانتے ہوں۔ وہاں کوئی بھی ا دارہ ان کی شخصی کمزوریوں سے ضرور فائدہ اٹھائے گا، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دانوں میں خود اعتمادی کا حد درجہ فقدان ہے اور وہ انھیں چھپانے کے لیے طاقت کا انجکشن ' ریاستی اداروں کے تعلق میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یاد رکھیے۔ عسکری ادارے ہماری سلامتی کی پہلی اور آخری فصیل ہیں۔
ان کے متعلق ہرزہ سرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ ہاں اگر ہمت ہے تو کارکردگی دکھا کر عوام کا دل جیتیں۔ جو ان سیاست دانوں اور ان کی نالائق اولادوں سے ممکن نہیں ہے!
اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ بذات خود ' سیاست دانوں کی اکثریت عوامی تائید اور عزت سے محروم ہے، اپنی اس حقیقت کو جاننے کے بعد' وہ سفاکی سے ریاستی اداروں کے پیچھے چھپنے میں مصروف ہیں۔
پورے ملک میں ایک بھی ایسا سیاسی قائد موجود نہیں جو اپنے تدبر اور عوامی سیاسی جدوجہد کی بنا پر تخت پر بیٹھ سکے، اگر کوئی براجمان ہو بھی جائے تو امور مملکت احسن طور پر چلا نے کی قابلیت سے محروم ہے۔ میڈیا پر سیاست دانوں کے بیانات سن کر دکھ ہوتا ہے۔
ان کی کوئی زبان ہے نہ کوئی وعدہ کا اعتباراور نہ ہی ترقی کا کوئی جدید ویژن نظر آتا ہے ۔ یہ چہرے دراصل ہماری بدقسمتی کے نشان ہیں جو جونکوں کی طرح ملک کے وسائل سے چمٹے ہوئے ہیں، ملک کا دیوالیہ نکل گیا مگر ان کے پیٹ بھر ہی نہیں رہے۔ کوئی لندن میں فراری کی حیثیت سے ملک کے عوام کو مفید مشورے دیتا ہے ۔
تو کوئی زمان پارک میںبیٹھ کر مسیحا ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر رہا ہے، کوئی وزارت عظمیٰ کو بے توقیر کر رہا ہے تو کوئی صوبے کی وزارت اعلیٰ یا گورنر کے عہدے کو غیر مؤثر بنا رہا ہے۔ مگر ٹھہریے۔
ان میں سے ہر ایک' اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اقتدار میں رہنے یا حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سطح پر گرنے کے لیے تیار ہے۔ کوئی بیساکھیوں کے بغیر الیکشن کے تصور سے بھاگ رہاہے۔ اور کوئی نتائج کی پرواہ کیے بغیر الیکشن کے یخ ٹھنڈے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے بے قرار ہے۔
اس بے سمت سفر میں ریاست ہر طرح سے مجروح ہو رہی ہے۔ موجودہ سیاست دانوں نے اداروں کے ساتھ وہ کچھ کر ڈالا ہے ' جو ملک کا بدترین دشمن بھی نہیں کر سکتا، چند سیاست دان ریاستی اداروں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔
اکثر لکھاری' مسائل کے جوہری نکتہ پر بات نہیں کرتے۔ سچ کو بھی سامنے لانے سے گریز کرتے ہیں۔موقع پرست سیاست دان خستہ حال، بیمار ذہنیت کے دانشوروں کو اپنے فائدے کے لیے بڑی خوبی سے استعمال کرتے ہیں۔
تمام کمزوریاں اور مصائب کو آپ اگر سادہ طریقے سے پرکھنا چاہیں' تو وہ صرف ایک ہے، عسکری اداروں کی موجودہ صورت حال میں کیا سوچ ہے؟ پہلے تو یہ عرض کروںگا کہ فوج کی کبھی یہ خواہش نہیں ہوتی کہ وہ حکومتی معاملات کو کنٹرول کرے۔
ان کی ترجیحات میں ہندوستان ' افغانستان اور پینٹا گون کے معاملات شامل ہیں ، جہاں تک جوہری پروگرام کا تعلق ہے' سیاستدان کو اس سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے۔ شائد آپ کو یہ جملہ غیر مناسب لگے لیکن ہمارے چند سیاست دان نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ کرنے کے لیے بھی تیار ہوجائیں گے ۔
دراصل ہمارے پاس فوج کے سوا کوئی منظم اور طاقتور ادارہ موجود نہیں ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ فوج ہی ملکی وحدت اور استحکام کی اصل ضامن ہے، اس کے سوا کوئی اور ملکی ادارہ موجود ہی نہیں جو اتنا اثرورسوخ رکھتا ہو۔ فوج سے بھی سیاسی میدان میں غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ مگر ان کے وجود سے ہی اس ملک کی بقا ہے۔
دوسری بات یہ کہ فوج کو متنازعہ بنانے کو کوشش کرنا ، کسی بھی آرمی چیف کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ ملک کے مفادات کے خلاف کام کر رہا تھا یا کررہا ہے' حد درجہ لغو بات ہے۔ میں عسکری اداروں کے اندرونی نظام سے بخوبی واقف ہوں۔
جس کیڈٹ کالج میں پڑھا ہوں' اس نے پاکستانی فوج کو سب سے زیادہ جرنیل اور سینئر افسر فراہم کیے ہیں۔ حسن ابدال کی بات کر رہا ہوں۔ خود میری کلاس میں سے تین لوگ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے ہیں،ان سب کی حب الوطنی شک وشبے سے بالاتر ہے ، میں نے تو وارثین کو گریہ کے بغیر ' شہیدوں کی لاشیں وصول کرتے ہی دیکھا ہے۔
یہ سب کچھ درج کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل چند سیاست دان عسکری اداروں کے خلاف منظم مہم چلا رہے ہیں۔ دشمن ممالک کی ایجنسیاں اس سازش کو ہوا دے رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بالخصوص جھوٹ کو سچ بنا کر ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ کسی کو اندازہ ہی نہیں ہونے دیا جاتا کہ کون ' کس طرح سے ہمارے قومی مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
آئی ایس آئی ان کا خصوصی ہدف ہے۔ اپنی ناکامیاں تسلیم کرنے کے بجائے سیاست دان سارا ملبہ' عسکری اداروں کے ذمے ڈال کر خود کو جعلی معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
دنیا کا کوئی ایک ملک دکھائیں، جہاں عسکری اداروں کی عوامی جلسوں میں توہین کی جاتی ہو۔ ہندوستان میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی جان کے درپے ہے۔
مگر آج تک کسی ہندوستانی وزیراعظم ، قائد حزب اختلاف یا کسی سیاسی لیڈر نے عسکری ادارے کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔ کیا راہول گاندھی' اپنے ملک کے خفیہ اداروں کو کوستا نظر آتا ہے؟ ہرگز نہیں' صرف اور صرف اس لیے کہ ہندوستان کے سیاست دان اپنی کارکردگی اور منشورکی بنیاد پرووٹ لینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، ایسا نہیں کہ وہاں سیاسی رقابتیں اور نفرتیں نہیں ہیں، بالکل ہیں۔ مگر وہاں کے سیاست دان اپنے عسکری اداروں کی حدود و قیود اور ذمے داریاں بخوبی جانتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان کے سیاست دان ہر قیمت پر فوج کو سیاسی معاملات میں الجھانے کی ہر کوشش کرتے ہیں۔
مثال دینا ضروری ہے تاکہ ایسا نہ معلوم ہو کہ یہ سب کچھ صرف لفاظی ہے۔ نواز شریف صاحب کا وا حد وصف 1978ء کے بعد جنرل ضیاء الحق سے ذاتی تعلق استوار ہونا تھا حالانکہ اس تعلق سے قبل انھوں نے تحریک استقلال کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور بری طرح ناکام ہوئے تھے۔
ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی اور بھٹو دشمنی میں نواز شریف کو پنجاب کی سیاست میں مضبوط کیا،انھیں وزیراعلیٰ بنایا، پھر وزارت عظمیٰ تک لے گئے۔ مگر میاں صاحب کو یہ گمان ہونے لگا کہ وہ بذات خود مضبوط اور مقبول ہیں اور بیساکھیوں کے بغیر حکومت میں آ سکتے ہیں۔
ان کا یہ وہم اداروں نے فی الفوردور کر دیا، پھر وہ باہر گئے اور پھر واپس آگئے، پھر اقتدار سے محروم ہوئے، جیل گئے اور ایک عدالتی سٹامپ پیپر پر تین سال سے لندن میں مقیم ہیں۔ آج بھی ان کی زبان پر فوج کے سابق سربراہ کے متعلق سخت الفاظ ہیں۔ حالانکہ اس خاندان نے موجودہ حکومت بھی اسی ادارے کے تعاون سے حاصل کی ہے۔
یہی حال' خان صاحب کا ہے۔ انھیں عسکری اداروں نے نواز شریف کے متبادل کے طور پر پیش کیا، سیاست میں پروان چڑھایا، الیکٹیبلز کو اس کے ساتھ کیا اور تخت پر بٹھا دیا۔ مگر وہ گورننس کے معاملے میں بالکل کورے نکلے۔ حکومت بزدار اور اس طرح کے مشکوک کرداروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔
خان صاحب نے حد درجہ لاپرواہی اور غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت جیسے نازک معاملے کو کرکٹ جیسے کھیل کی طرح سمجھ لیا ۔ جو نقصان ہوا' وہ سب کو معلوم ہے۔ مگر ان کی تمام کوتاہیاں' ان کی غیر معقول برطرفی میں چھپ گئیں۔ حکومت سے نکلنے نے انھیں مقبول بنا دیا، آج وہ اپنے آپ کونجات دہندہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
اندرون خانہ' و ہ بھی عسکری ادارے سے تعاون مانگ رہے ہیں۔ مگر چند ایسی سنجیدہ وجوہات ہیں کہ مہربان ان پر اعتماد کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ شنید ہے کہ نریندر مودی نے پیغام بھجوایا تھا کہ ہمیں بحیثیت ہمسائے' امن سے رہنا چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم پاکستان آنے کو بھی تیار تھا۔ مگر خان صاحب نے امن کی اس کوشش کو حد درجہ غیر سنجیدگی سے لیا۔ اتنے نازک سفارتی معاملہ کو سنجیدگی سے لینا توکجا' انھوںنے امن کی کوشش ہی کو برباد کر دیا۔
گمان ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے محسوس کیا ہو گا کہ جو شخص پائیدار امن کو محفوظ کرنے میں اتنا غیر مستقل مزاج ہے، وہ حکومت کے دیگر نازک معاملات کو کیونکر چلا سکتا ہے ۔ یہ میرا قیافہ ہے۔ مگر بہر حال اس کے شواہد موجود ہیں، خان صاحب اپنی غلطی کو کسی طور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
سیاست اور گورننس کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے سمجھتا ہوں کہ سیاست دانو ں کو اسٹیبلشمنٹ کی معاونت حاصل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جہاں قومی سطح کے سیاست دان' چھپ کر رات گئے اسٹیبلشمنٹ کو ملنا فرض گردانتے ہوں۔ وہاں کوئی بھی ا دارہ ان کی شخصی کمزوریوں سے ضرور فائدہ اٹھائے گا، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دانوں میں خود اعتمادی کا حد درجہ فقدان ہے اور وہ انھیں چھپانے کے لیے طاقت کا انجکشن ' ریاستی اداروں کے تعلق میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یاد رکھیے۔ عسکری ادارے ہماری سلامتی کی پہلی اور آخری فصیل ہیں۔
ان کے متعلق ہرزہ سرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ ہاں اگر ہمت ہے تو کارکردگی دکھا کر عوام کا دل جیتیں۔ جو ان سیاست دانوں اور ان کی نالائق اولادوں سے ممکن نہیں ہے!