نواز شریف کو سعودی بادشاہ کی دعوت چند تاثرات

4اپریل ہی کو بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ہُوا تھا اور اب چار اپریل کو عدل و انصاف کا قتل ہُوا ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

44سال قبل یہ 4اپریل ہی تھا جب پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم، جناب ذوالفقار علی بھٹو، کو ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے استحصالی دَور میں پھانسی دی گئی تھی۔

4اپریل 1979 پاکستانی تاریخ کا سیاہ اور منحوس دن ہے۔ اور یہ 4اپریل 2023 کی تاریخ ہے جب اتحادی حکومت کے خلاف ایسا فیصلہ آیا ہے کہ وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی کابینہ میں افسوس، شکست اور ماتم کا سماں ہے۔

شائد اِسی لیے زیڈ اے بھٹو کی پھانسی کے پسِ منظر میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے ردِ عمل دیتے ہوُئے یوں کہا ہے : '' 4اپریل ہی کو بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ہُوا تھا۔ اور اب چار اپریل کو عدل و انصاف کا قتل ہُوا ہے ۔''کوئی اب یہ تازہ فیصلہ تسلیم کرے یا نہ کرے، فیصلہ تو ہو چکا۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔

غصے اور مایوسی میں وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ مانتے ہُوئے اِسے مسترد کر دیا ہے۔ لندن میں بیٹھے جناب نواز شریف نے بھی عدالتِ عظمیٰ کے اِس فیصلے کے خلاف ناراضی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہُوئے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس کھڑکا دی ہے اور کہا ہے :'' عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے جتن ہو رہے ہیں۔''

ایک ہفتے میں نواز شریف صاحب نے دوسری بار پریس کانفرنس کی ہے۔ اُن کی صاحبزادی اور نون لیگ کی سینئر نائب صدر ، محترمہ مریم نواز، نے الگ سے اِس فیصلے کے خلاف سخت بیان دیتے ہُوئے کہا ہے : ''فیصلہ سازش کا آخری وار ہے۔'' محترمہ مریم نواز نے فیصلے کے اگلے روز، 5 اپریل کو، راولپنڈی میں وکلا کے ایک زبردست کنونشن سے پُر جوش اور مدلل خطاب کرتے ہُوئے غصے کی باقی کسر بھی نکالنے کی کوشش کی ہے۔

جب کہ عمران خان اور اُن کے چاہنے والے سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کو سراہتے اور فیصلہ سنانے والوں کے گُن گاتے ہُوئے مسرت و شادمانی میں بھنگڑے ڈال رہے ہیں ۔ تقسیم واضح ہو چکی ہے ۔ اور یہ منظر خوش کن نہیں ہے ۔

ایسی تقسیم اور مایوس کن ماحول میں اتحادی حکومت، وزیر اعظم جناب شہباز شریف اور نون لیگ کو ایک خوش کن خبر بھی ملی ہے ۔ سعودی عرب کے بادشاہ اور خادم الحرمین الشریفین، جناب شاہ سلمان بن عبدالعزیز ، نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور نون لیگ کے تاحیات قائد، جناب محمد نواز شریف، کو سعودی عرب تشریف لانے کی شاہی دعوت دی ہے۔

اِس دعوت کا مقصدِ وحید یہ ہے کہ نواز شریف صاحب اور اُن کی فیملی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی پُر نُور اور نُور افشاں فضاؤں میں رمضان کے مبارک و مسعود لمحات گزاریں اور عبادتوں سے لطف اُٹھائیں۔یہ دعوت اور عبادتوں کے یہ مواقع خوش نصیبوں کو میسر آتے ہیں ۔

نواز شریف کی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز، بھی اِس دعوت میں شامل ہیں۔ پاکستان سے وزیر اعظم جناب شہباز شریف بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں اپنے بزرگ بھائی سے جا ملیں گے ۔ اکٹھے عبادتیں بھی ہوںگی اور خاص معاملات میں مشاورت بھی ۔ یقیناً ان مشوروں میں مکہ مدینہ کی پاک ہواؤں اور رُوح پرور فضاؤں کی فیوض و برکات بھی شامل ہوں گی۔بلا شبہ اِس دعوت میں کئی دیگر مضمرات بھی شامل ہوں گی۔

یوں یہ شاہی سعودی دعوت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔اِسے مزید اہمیت یوں بھی مل گئی ہے کہ نواز شریف کے سعودیہ پہنچنے سے قبل اسلام آباد میں متعین سعودی سفیر ، جناب نواف بن سعید المالکی ، نے کہا ہے : '' سعودی عرب نے ہمیشہ برادر پاکستان کی مدد کی ہے ۔

اِس مرتبہ پھر کرے گا۔''اِس بیان سے خصوصاً اتحادی حکومت نے یہ توقع بھی وابستہ کر لی ہوگی کہ نواز شریف کو سعودی بادشاہ کی خاص الخاص یہ دعوت ، ممکن ہے، پاکستان کو درپیش سنگین معاشی مسائل و مصائب کی کشائش کا باعث بھی بن جائے ۔


جناب نواز شریف کا زندگی بھر کا معمول رہا ہے کہ وہ رمضان شریف کاآخری رحمتوں بھرا عشرہ خاص طور پر مکہ و مدینہ شریف میں گزارتے تھے ۔ حالات مگر اب ایسی شکل اختیار کر گئے کہ پچھلے 6برسوں میں وہ ایک بار بھی مکہ معظمہ و مدینہ منورہ میں حاضری دینے سے قاصر رہے ۔ ہم اُن کی اِس رُوحانی احساسِ محرومی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

چھ برسوں کے بعد اب نواز شریف صاحب رمضان المبارک کی مبارک گھڑیوں میں حرمین الشریفین حاضری دینے جا رہے ہیں تو اُن کے قلب و رُوح کی کیفیات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے ۔

عزت مآب سعودی فرمانروا، جناب شاہ سلمان، کی جانب سے جناب نواز شریف کو سعودی عرب آنے کی دعوت اس لیے بھی غیر معمولی قرار دی جا رہی ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے مبینہ طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات ماضی کی طرح آئیڈیل نہیں رہے۔ خصوصاً سعودیہ کی جانب سے پاکستان کی معیشت کو سہاراد ینے کی تاریخی کوششوں میں کمی دیکھنے میں آئی ۔

کہا جاتا ہے کہ اِن تعلقات کو جناب عمران خان کے دَور میں بوجوہ ایسا گزند اور ضعف پہنچا کہ انہیں معمول پر لانے کے لیے پاکستان کو ، ہر سطح پر، بڑی توانائیاں صَرف کرنا پڑی ہیں لیکن توقعات کے مطابق کامیابی نہیںمل سکی ۔

سعودی فرمانروا کی جانب سے جناب نواز شریف کو شاہی دعوت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ سعودی بادشاہت نے نواز شریف اور شریف خاندان پر نئے سرے سے اظہارِ اعتماد و اعتبار کیا ہے ۔اِس شاہی دعوت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے سرکاری سطح پر نواز شریف کے سیاسی حریف کو ایک خاموش مگر معنی خیز پیغام دیا ہے۔

اِس پیغام کی گرہ کو کھولنے اور اِس کے مضمرات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سعودی بادشاہ سلامت کی نواز شریف کو دی گئی اِس دعوت کو کئی غیر ملکی اخبارات نے خاص طور پر بھرپور کوریج دی ہے اور دعوت کے بین السطور مفہوم جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اِس گرہ کشائی کی کوششوں میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کو ایسے ایام میں سعودی عرب کی جانب سے شاہی دعوت ملی ہے جب چین کی زبردست درمیان داری سے سعودی عرب اورایران کی برسوں پر پھیلی ناراضیاں اور دُوریاں ختم ہُوئی ہیں۔ اور اب کوئی دن جاتا ہے جب سعودی عرب اور ایران کے سفارتخانے پھر سے ایک دوسرے کے ملک میں کھل جائیں گے۔ اور چین نواز شریف اور پاکستان کا معتمد ترین اور دوست ملک ہے ۔

اِس پس منظر میں بھی نواز شریف کو ملنے والی سعودیہ کی شاہی دعوت کو سمجھنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے ۔

جناب نواز شریف کو پہلے11اپریل کو حرمین الشریفین حاضر ہونا تھا۔ اب مگر نئے شیڈول کے مطابق میاں نواز شریف صاحب کل آٹھ اپریل کو عازمِ سعودیہ ہوں گے ۔

سعودی عرب کا آرام دِہ شاہی طیارہ نواز شریف کو لینے لندن پہنچا ہے ۔ یہ اعزازو اکرام اور محبت کی باتیں ہیں ۔نواز شریف کے ساتھ محترمہ مریم نواز شریف کا بھی سعودی عرب جانا خاص اہمیت رکھتا ہے ۔

معروف امریکی ہفت روزہ جریدے TIMEنے اپنے تازہ شمارے میں جہاں عمران خان بارے تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے، وہاں اِس رپورٹ کے مصنف (چارلی کیمبل) نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستان کو درپیش مالی مسائل کی فوری مشکل کشائی بس سعودی عرب ہی کر سکتا ہے ۔

وزیر اعظم جناب شہباز شریف بھی شائد اِسی آس پر اپنے برادرِ بزرگ کے ساتھ ہو لیے ہیں ۔
Load Next Story