عمران خان کی سیاست

یہ بھی ایک کرشمہ ہی تھا کہ عمران خان اپنے دور اقتدار میں مقبولیت کھوتے جا رہے تھے

fatimaqazi7@gmail.com

پتا نہیں کس لال بجھکڑ نے عمران خان کو یہ صلاح دی کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں ! انھیں یقین دلایا گیا ہوگا کہ جوں ہی اسمبلیاں ٹوٹیں گی فوراً ہی نئے الیکشن کی تاریخ دے دی جائے گی جو نوے دن کے اندر ہوں گے ، لیکن پانسا پلٹ گیا اور اب دور دور تک الیکشن کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔

عمران خان نے بہت بڑی غلطی کی، آرام سے بیٹھتے لوگ ویسے ہی ان کے طرفدار تھے، اسمبلیاں نہ ٹوٹتیں اس عرصے میں وہ وقت آ جاتا جب پانچ سال کی مدت پوری ہو جاتی۔

یہ بھی ایک کرشمہ ہی تھا کہ عمران خان اپنے دور اقتدار میں مقبولیت کھوتے جا رہے تھے، ان کی پسندیدگی اور مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے آتا جا رہا تھا کیونکہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ طاقت کا مرکز صرف اور صرف جنرل باجوہ تھے۔

عمران خان مزے سے گھر بیٹھے تھے، انھیں لانے والے بھی جنرل باجوہ ہی تھے، اسی لیے انھیں مدت ملازمت میں توسیع بھی ملی اور انھوں نے کہہ دیا کہ میاں گھر بیٹھ کر لالی پاپ چوستے رہو، سو عمران خان وہی کر رہے تھے، تمام رابطے، بیرونی دورے جنرل باجوہ کر رہے تھے، عمران خان کو تو اپنے وزیروں اور مشیروں کی کارکردگی کا بھی پتا نہ تھا۔

باجوہ انھیں مہینے ڈیڑھ مہینے بعد گھر سے باہر نکالتے، جھاڑتے پونچھتے اور ہوا لگا کر ایک بیان دلوا دیتے '' میں این آر او نہیں دوں گا'' چینی کیوں مہنگی ہو رہی ہے، گراں فروشی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بے روزگاری اور غربت ککڑی کی بیل کی طرف بڑھ رہی ہے، ان سب باتوں سے انھیں کوئی سروکار نہ تھا۔

پھر اچانک سب کچھ بدل گیا عمران کو فارغ کر دیا گیا لیکن ایک عجب کرشمہ ہوا کہ ان کی مقبولیت راتوں رات بڑھ گئی اور اب واقعی یہ ہے کہ الیکشن ہوئے تو بلا شبہ جیت پی ٹی آئی کی ہوگی، اسی لیے تمام جماعتیں الیکشن ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔

جب عمران خان مسند وزارت پہ متمکن تھے تو تمام جماعتیں الیکشن کا مطالبہ کر رہی تھیں، لیکن اب وہ نہیں چاہتیں کہ ایسا ہو، جنرل باجوہ نے ریٹائر ہو کر بھی عمران خان کا پیچھا نہیں چھوڑا، کالم نگاروں سے کالم لکھوائے، ٹی وی پروگرام بھی کروائے۔

جنرل باجوہ کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابلے پر ایک ایسا شخص چاہیے تھا جو اپنے ہونٹ بند اور کان کھلے رکھے، عمران خان اس لحاظ سے بہت موزوں تھے کہ انھیں سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا، وہ سیاست کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھے اور اسی لیے ناکام ہوگئے۔

عمران خان یہ تو سب سے کہتے ہیں کہ ''ان کی حکومت کو جنرل باجوہ نے گرایا'' لیکن یہ نہیں بتاتے کہ انھیں مسند وزارت پہ بٹھایا کس نے تھا؟

عمران خان کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ان کی جماعت میں تجربہ کار سیاستدان برائے نام ہیں، زیادہ تر نوجوان ہیں، جو ایک اچھی بات ہے، لیکن نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور دور اندیشی سے کام نہیں لیتے، ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک لیڈر اپنا منصب کھونے کے بعد بہت زیادہ مقبول ہو گیا۔

یہی مقبولیت مخالف جماعتوں کو ہضم نہیں ہو رہی، انھیں اپنی شکست صاف نظر آ رہی ہے اور وہ حواس باختہ اس لیے ہیں کہ کہیں عمران خان اقتدار میں آ کر ان سے بدلہ نہ لیں، سیاسی جماعتیں، پولیس والے، سیاستدان سب گھبرائے ہوئے ہیں۔

عمران خان کے لیے ایک مشورہ ہے، وہ یہ کہ انتقامی سیاست کو خیرباد کہہ دیں، سب سے ہاتھ ملائیں، مل کر بیٹھیں، زبان کو قابو میں رکھیں اور عوام کو یقین دلائیں کہ وہ اقتدار میں آ کر کسی سے بدلہ نہیں لیں گے، کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے، اپوزیشن کا احترام کریں گے اور جو بھی رزلٹ آیا اسے تمام جماعتیں تسلیم کریں گی۔


اس کے علاوہ وہ اپنا مینی فیسٹو جاری کریں اور مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں۔ عمران خان ان نکات پر توجہ دیں گے تو ان کا سیاسی قد اور بڑھ جائے گا، اپوزیشن سے جھگڑا مت کیجیے۔

(1)۔ سب سے پہلے مہنگائی کے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالنے کی کوشش کریں۔ موجودہ حالات میں مصنوعی مہنگائی عروج پر ہے، خاص کر ریٹیلرز اس کے ذمے دار ہیں۔

ایک ہی مارکیٹ میں پھلوں کی قیمتیں الگ الگ ہیں، ہر وہ شے جو استعمال میں آتی ہے اس کے دام دکاندار اپنی مرضی سے بڑھا دیتے ہیں اور احتجاج یا سوال کرنے پر یہ رٹا رٹایا جملہ کہہ کر خریدار کو چپ کردیا جاتا ہے ''صاحب! پیچھے سے مہنگا آ رہا ہے'' بہت پہلے کی بات ہے کہ مختلف مارکیٹوں میں بلدیہ کی جانب سے فوڈ انسپکٹر آیا کرتے تھے اور وہ قیمتوں کے ساتھ ساتھ معیار پر بھی توجہ دیتے تھے، اب فوڈ انسپکٹر تو رہے نہیں، البتہ بھتہ خور ضرور آجاتے ہیں۔ عمران خان کو اپنی جیت کے بعد سب سے پہلے فوڈ انسپکٹر مقرر کرنے چاہئیں جو معیار اور قیمت دونوں کو کنٹرول کریں۔

(2)۔سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی پر نظر رکھی جائے، سرکاری اسپتالوں کا برا حال ہے نہ صفائی نہ ستھرائی نہ دعائیں، جو دوائیں محکمہ صحت کی طرف سے اسپتالوں میں مریضوں کو دی جاتی ہیں وہ اسپتال کا عملہ گھر لے جاتا ہے، بہت سی دوائیں ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک میں لے جاتے ہیں۔

ڈاکٹروں کو پابند کیا جائے کہ وہ پورے ٹائم اسپتالوں میں بیٹھیں اور مریضوں کے لیے دواؤں کے حصول کو یقینی بنائیں۔

(3)۔ تمام سرکاری اسپتالوں میں ایک سائیکاٹرسٹ اور ماہر نفسیات کا اپائنمنٹ بھی کیا جائے کیونکہ بہت سی بیماریوں کا ذہن سے تعلق ہوتا ہے۔

میں نے کسی سرکاری اسپتال میں سائیکاٹرسٹ اور ماہر نفسیات کو نہیں دیکھا، حیرت ہے حکومت نے کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی، پرائیویٹ کلینک کے سائیکاٹرسٹ ہزاروں کی فیس لے کر علاج کرتے ہیں، پڑھے لکھے اور ذہین لوگ دماغی امراض کی جان کاری رکھتے ہیں اور وہ بھاری فیسیں دے کر دماغی امراض اور ڈپریشن کا علاج کراتے ہیں۔

(4)۔ جو جماعت بھی اقتدار میں آئے وہ بے روزگاری کی لعنت کو ختم کرے، لوگوں کو آسان شرائط پہ قرضہ دیا جائے تاکہ وہ کوئی کاروبار کرسکیں، اس میں عورت مرد کی تخصیص نہ ہو، جو بھی اپنے چھوٹے موٹے کاروبار کے لیے قرضہ حاصل کرنا چاہے وہ اصول و ضوابط کے ساتھ قرضہ لے اور وقت پر واپس کرے۔ لیکن یہ کام پوری چھان بین کے بعد ہونا چاہیے تاکہ کوئی جعل سازی نہ کرسکے اور ان قرضوں کی واپسی کا حصول آسان بنایا جائے۔

(5)۔ پرائیویٹ اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی فیسوں میں کمی کرائی جائے خاص کر پرائیویٹ اسکول والدین کی کھال اتار لیتے ہیں۔

ایک کمیٹی بنائی جائے جو اسکولوں میں فیسوں کا آڈٹ کرے، ہر اسکول میں کم ازکم تین فی صد طلبا کی فیس معاف کردی جائے، جو طلبا و طالبات بھاری فیسیں ادا نہیں کرسکتے، انھیں انتظامیہ فیس معاف کردے۔ یہ پرائیویٹ اسکول سونے کی کانیں ہیں، من مانے طریقے سے فیسیں لینا، فنڈز لینا اور مختلف دن منانے کے لیے والدین پر اضافی بوجھ ڈالنا بڑی زیادتی ہے۔

یہ تجاوز صرف عمران خان کے لیے نہیں ہیں بلکہ جو پارٹی بھی الیکشن میں جیتے وہ اگر ان باتوں پر عمل کرے تو یقینا ملک میں خوشحالی آئے گی۔ میں نے عمران خان کو اس لیے مخاطب کیا کہ وہ آج ایک مقبول لیڈر ہیں۔ انھیں اپنی مقبولیت کیش کرانی چاہیے۔ خاص کر انتقامی سیاست کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینا چاہیے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
Load Next Story