صدر بلوچستان کے مسائل پر کب سنجیدہ ہوں گے

صدر بلوچستان کے مسائل پر کب سنجیدہ ہوں گے ؟


ایکسپریس July 11, 2012
صدر بلوچستان کے مسائل پر کب سنجیدہ ہوں گے ؟ : فوٹو ایکسپریس

گورنر بلوچستان نواب ذوالفقارعلی مگسی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے بارے میں وفاق کا رویہ نامناسب ہے۔بڑے بڑے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ وفاق نے اپنا یہ رویہ تبدیل نہ کیا توبلوچستان میں اعتدال پسندی کی راہ پر چلنا دشوار ہوجائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لگتاہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو بھی پانی کے مسئلے پر وفاق اور سندھ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنا پڑے گا۔ ان کے بقول آغاز حقوق بلوچستان پر عملدرآمد تو درکنار، صوبے کو پہلے سے جو حقوق آئین کے تحت حاصل ہیں ان میں بھی کمی آرہی ہے۔ صوبوں کوپانی کی تقسیم کیلئے ارسا کے معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ بلوچستان کے حصے کا پانی انتہائی کم سطح پر آگیاہے۔ چاول کی فصل کی بوائی کا وقت گزرتاجارہاہے جو پانی کی عدم فراہمی کے باعث ممکن نہیں۔

وزیراعظم نے گزشتہ دنوں بلوچستان کے حوالے سے اجلاس منعقد کیا اور صوبے کے مسائل کے حوالے سے ان کا بیان بھی سامنے آیا لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان کے احساس محرومی کو دور کرنے کے حوالے سے وفاق کے وعدے صرف بیانات تک محدود ہیں۔ لیویز کی تین ہزار آسامیوں پر بھرتی کا مسئلہ ہویا صوبے کے کیڈٹ کالجز کوفنڈز کی فراہمی کا معاملہ ہو، وفاق کے کسی وعدے پر عمل ہوتانظرنہیں آتا۔ این ایچ اے کے منصوبے عرصہ دراز سے تعطل کا شکار ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان بارہاکہہ چکے ہیں کہ وہ وفاقی وزارتوں کے چکر لگالگا کر تھک چکے ہیں۔

گورنر مگسی پہلے بھی کئی مرتبہ وفاقی حکومت پر تنقید کر چکے ہیں۔گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتاہے وفاق کا اپنا نمائندہ ہی مطمئن نہیں تو باقی کون مطمئن ہوسکتا ہے۔ تاہم سیاسی حلقوں کے مطابق گورنر مگسی کو چاہیے کہ وہ اخباری بیانات کے بجائے عملی طو رپر کوئی سخت اقدام کریں۔ وہ پہلے بھی استعفے دے چکے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وفاق میں بیٹھے بعض لوگ ان کی بات نہیں سنتے اور صوبے کے ساتھ متواتر ناانصافیوںکرتے جارہے ہیں تو وہ احتجاجاً گورنر شپ سے استعفے دیں۔ اگر گورنر مگسی ایسا کوئی بولڈ اقدام اٹھاتے ہیں تو یقینا اسلام آباد میں ہلچل مچے گی اور صدر اور وزیراعظم اسلام آباد کی بیوروکریسی کے خلاف شایدکوئی ایکشن لیں گے۔

کراچی اور سندھ کے حوالے سے ایسے بولڈفیصلے ایم کیو ایم کی قیادت بھی کرتی رہی ہے اور وہ اپنی بات بھی وفاق سے منواتی رہی ہے۔ اس کا ساتھ اب بھی پی پی کی مخلوط حکومت کے ساتھ ہے۔صوبہ اور مرکز دونوں جگہ پی پی کی حکومت ہے لہٰذاوزیراعلیٰ رئیسانی کوبھی یہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی کابینہ کے تمام ارکان کو لے جاکراسلام آباد میں بٹھادیں اور جب تک وفاقی حکومت بلوچستان کے حوالے سے مسائل کو حل نہیں کرتی وہاں سے واپس نہ آئیں۔ ان حلقوں کے مطابق نئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے یقین دہانیاں کرائی ہیں لیکن ان کی یہ یقین دہانیاں بھی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔ اصل طاقت اور فیصلے کرنے کا اختیار صدرآصف علی زرداری کے پاس ہے جوکہ پی پی پی کے کوچیئرمین بھی ہیں

۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صدر زرداری بلوچستان کے نازک مسائل کو سنجیدہ لیں اور بلوچستان آکر کچھ دن بیٹھیں اور یہاں بیٹھ کر تمام سٹیک ہولڈرز سمیت سیاسی و قوم پرست جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کریں۔ سیاسی حلقوںکے مطابق اب سیاست کرنے کا وقت نہیں بلکہ بلوچستان کو بچانے کا وقت ہے جو ہاتھ سے نکلتا جا رہاہے۔ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اب تمام ذاتی مفادات اور سیاست کو بالائے طاق رکھ کر صوبے اور یہاں کے عوام کے بہتر مفاد میں تاریخی فیصلے کرنے ہوںگے۔صدر اور وزیراعظم کو اب سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں ان کا نمائندہ گورنر اور ان کی جماعت کا وزیراعلیٰ کیاکہہ رہا ہے دونوں ان سے مطمئن نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں