بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی
دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، روس یوکرین جنگ کا منظر نامہ بدل گیا ہے۔ دنیا میں تبدیلیاں اس جنگ سے پہلے ہی آنا شروع ہو گئی تھیں۔
سب سے بڑی تبدیلی سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی ہے' بلا شبہ چین نے دنیا کا سفارتی منظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔ اب بھی سعودی اور ایرانی وزراء خارجہ بیجنگ میں مل رہے ہیں۔
ادھر روس یوکرین لڑائی میں چین کا جھکاؤ روس کی جانب ہے،اس کے باوجود فرانس کے صدر چین کے دورے پر پہنچ گئے ہیں۔
یہ ساری صورتحال بتاتی ہے کہ دنیا میںاگر روس یوکرین جنگ چل رہی ہے، توکئی ممالک اپنے تنازعات حل کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
دنیا میں تنازعات حل بھی ہو رہے ہیں۔ عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنا تنازعہ حل کرنے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی۔ ترکی، مصر اور ملائیشیا سمیت دیگر مسلم ممالک پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے۔
اسی طرح سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے قطر کے ساتھ اپنے تنازعات بھی سفارتی سطح پر حل کیے ہیں، قطر اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات بھی بحال ہوگئے ہیں۔
حالانکہ ایک موقع پر عرب ممالک اور قطر کے درمیان سفارتی سطح پر تعلقات ختم ہی ہوگئے تھے، لیکن پھر قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ کے موقعے پر سعودی ولی عہد وہاں گئے اور قطر کے امیر بھی سعودی عرب کا جھنڈا پکڑے نظر آئے۔
اس سارے منظر نامہ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں دنیا میں ایک طرف جنگ کے بادل چھائے ہو ئے ہیں،دوسری طرف تنازعات سفارتی سطح پر حل بھی کیے جا رہے ہیں۔ ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ مسائل حل کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کو تیز کیا ہے۔
فرانس کے صدر کا چین کا دورہ کوئی چھوٹی پیش رفت نہیں۔ ایک طرف یورپ یوکرین کے ساتھ کھڑا نظرآرہا ہے، دوسری طرف یورپ چین کے ساتھ تعلقات بہتر بھی رکھنا چاہتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی پر بھی سفارتی سطح پر کام ہونا چاہیے۔
2019میں جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو عمران خان حکومت نے دہلی سے پاکستان کے ہائی کمشنر کو واپس بلالیا، بھارت نے بھی اسلام آباد سے اپنا ہائی کمشنر واپس بلالیا، تقریبا چار سال ہو گئے ہیں کہ دونوں ممالک میں کوئی ہائی کمشنر نہیں ہے۔
ویسے تو دو ممالک جو آپس میں جنگ لڑرہے ہوں ، وہ بھی سفیر واپس نہیں بلاتے۔ جنگ میں بھی سفارتی تعلقات قائم رکھے جاتے ہیں۔
پاکستان او ربھارت نے آپس میں متعد جنگیں بھی لڑی ہیں۔ لیکن ان جنگوں کے درمیان بھی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم رہے۔
بلکہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی قائم رہے۔ معاہدہ تاشقند ہوا۔ اس لیے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ 2019میں ہائی کمشنر واپس بلانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ اس سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوا، اس سے ہمیں سفارتی سطح پر کیا کامیابی حاصل ہوئی۔ اس بات کا آج جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
میں سمجھتا ہوں ہائی کمشنر کی واپسی سے کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچا۔ دہلی میں پاکستان کا ہائی کمشنر کشمیریوں کی بھی آواز تھا۔ ہم نے دہلی میں وہ آواز بھی ختم کر دی۔ اس لیے پاکستان کو دہلی واپس ہائی کمشنر بھیجنے پر غور کرنا چاہیے۔
جب پاکستان اپنا ہائی کمشنر واپس بھیجنے کا اعلان کر دے گا تو دباؤ بھارت پر بھی ہوگاکہ وہ بھی اپنا ہائی کمشنر واپس بھیجے، ہم کیوں انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی تیسرا ملک جب تک درمیان میں نہیں آئے گا، ہم نہیں کریں گے۔ میری رائے میں پہلا قدم اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
پاکستان نے ہائی کمشنر واپس بلانے کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ تجارت بھی ختم کر دی تھی۔ عمران خان کے دور میں پھر ایک دن تجار ت کھولنے کا اعلان کیا اور بعد میں اگلے دن وہ اعلان واپس لے لیا، اس لیے تجارت بھی ہم نے بند کی تھی۔
جس کے جواب میں بھارت نے کرکٹ تعلقات ختم کیے۔ بھارت نے فیٹف میں پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ پھر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بھی ہیں۔
دوسری طرف بھارت کے بھی گلے شکوے ہیں۔ میں ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن گلے شکو ؤ ں کی موجودگی میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم رہے۔ دونوں ممالک میں ہائی کمشنر تعینات رہے۔ اس لیے تنازعات سفارتی تعلقات ختم کرنے کا جواز نہیں۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اب پہلا قدم اٹھاتے ہوئے بھارت میں ہائی کمشنر بھیجنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ تا کہ بھارت کو جواب دینے کا موقع مل سکے۔ دونوں ممالک کا اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ختم کرنا کوئی بہتر حکمت عملی ثابت نہیں ہوئی۔
اس سے مسئلہ کشمیر کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دنیا میں بھی کئی ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات ہیں۔ آپ چین اور بھارت کی مثال بھی دیکھ سکتے ہیں۔
چین اور بھارت کے درمیان سخت سرحدی تنازعات ہیں۔ چین بھارت کے کئی علاقوں کو اپنا علاقہ کہتا ہے۔ لیکن ان سرحدی تنازعات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی موجود ہیں اور تجارت بھی موجود ہیں۔
اس وقت امریکا اور روس کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ لیکن پھر روس اور امریکا کے درمیان اس قدر کشیدگی کے باجود سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ کیونکہ جنگ کے دوران بھی بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ سفارتی تعلقات بات چیت کا سب سے معتبر راستہ ہیں۔ اسی طرح دنیا میں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
جہاں دو ممالک کے درمیان تنازعات بھی ہیں۔ کشیدگی بھی ہے لیکن سفارتی تعلقات بھی موجود ہیں۔ اس لیے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ہائی کمشنر واپس بلانے کے اہداف کیا تھے۔ اور اس سے سفارتی سطح پر پاکستان نے کیا حاصل کیا ہے۔ دنیا میں کس نے اس کی تعریف کی ہے۔ اور کہاں اس کو سراہا گیا ہے۔
یہ سوال ضرور ہوگا کہ پاکستان پہل کیوں کرے۔ پہلے کوئی بات چیت ہوگی پھر کیا جائے۔ لیکن اگر دنیا میں کوئی بات چیت کروانے کے لیے تیار نہیں تو ہم بھی قدم نہ اٹھائیں۔ اگر بات چیت میں پہلے آپ پہلے آپ کی صورتحال میں کئی سال گزر جائیں تو یہ بھی کوئی اچھی سفارتکاری نہیں ہے۔ اس لیے میں سمجھتاہوں بدلتی دنیا میں ہمیں بھی قدم اٹھانے ہوںگے۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے۔