منفرد لب و لہجے کے مقبول شاعر وسیم عالم
وسیم عالم کا شمار بھی ایسے ہی عظیم لوگوں کی فہرست میں ہوتا ہے
مطلب کی ہے دنیا اس میں کون کسی کا یار
نگر ی نگری ڈھونڈو اب تم عالمؔ جیسے لوگ
کچھ لوگ دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد بھی لوگوں کی زندگی پر اپنی یادوں کے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ایسے میں اُن کے ساتھ بیتے ہوئے لمحات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، اُن کی یادیں تاحیات انسان کے لیے عظیم سرمایہ کا روپ دھار لیتی ہیں۔
وسیم عالم کا شمار بھی ایسے ہی عظیم لوگوں کی فہرست میں ہوتا ہے، جو اپنے عہد کے جواں فکر شاعر، مقبول کالم نگار اور نقاد تھے، جو سنیئرز شعراء میں اپنی منفرد پہچان رکھتے تھے۔
انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1999 سے کیا، ابتدائی دنوں میں اردو ماہیا تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، شاعری میں اصلاح کے لیے پنجابی زبان کے معروف شاعر امین خیال کی شاگردی اختیار کی۔
جن سے شاعری کے رموزاوقاف کے ساتھ ساتھ بہترین زندگی کا ڈھنگ اور کامیابیوں کے گُر بھی سیکھے۔ جہاں ایک طرف وسیم عالمؔ اپنی خوش گفتاری، خوش اخلاقی، وضع داری اور رکھ رکھاؤ کی بناء پر سب کے لیے حسنِ زندگی کا بہترین نمونہ تھے وہاں دوسری طرف وہ اپنے کلام اور اپنے منفرد لب و لہجے کی بدولت سب میں مقبول تھے۔
اُن کی ''کاغذ'' ردیف پر لکھی غزل بہت مقبول ہوئی جسے ایک نابینا گلوکار امانت ساز نے ریڈیو پاکستان کے مقبول پروگرام '' غنچہ شوق '' میں گایا۔ اس پروگرام کے میزبان ابصار عبدالعلی مرحوم تھے۔ اس غزل کے اشعار آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔
بڑا دُشوار ہوتا ہے سماں ترکِ تعلق کا
کہیں الفاظ ٹیڑے ہیں کہیں بھیگا ہُوا کاغذ
وطن سے دور جب مجبوریاں ملنے نہیں دیتیں
ملاقاتیں کراتا ہے یہی آیا ہُوا کاغذ
وسیم عالم زبان و بیان اور اسلوبِ تازہ کے ساتھ اعلیٰ خیالات، گہرے مشاہدات، تلخ و شیریں تجربات اور شدتِ جذبات کو شعری قالب میں ڈھالنے پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ وہ ایک بیدار مغز شاعر تھے اُن کی غزلیں خوبصورت افکار و اسلوب کے زیور سے مزین ہیں۔
اُن کی شاعری کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ وہ چھوٹی بحروں میں بڑی بات کہنا جانتے تھے، وہ بڑی آسانی سے مشکل اور پیچیدہ مسائل کو منظوم کرنے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔
اُن کی شاعری زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل، عہدِ حاضر کے سیاسی و سماجی حالات و واقعات اور ایک عام آدمی کے دکھ درد کی ترجمان ہے۔ یوں اُن کی شاعری میں ہر قسم کے قاری کی پسند کی گونج سنائی دیتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
سب یزیدی کی ڈگر پر چل پڑے ہیں
ہر طرف اب کربلا ہے کون بولے
.........
امیرِ شہر کے فرمان جاری ہو چکے عالمؔ
غریبِ شہر کا اُٹھتا جنازہ یاد آتا ہے
.........
تو لکھتا رہ بیاں اپنا تو کرتا رہ جگر سوزی
ترا اپنا لب و لہجہ ترے افکار بولیں گے
وسیم عالم ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت تھے جنہوں نے ہر عمر کے بچوں اور بڑوں کے لیے نثری و شعری ادب تخلیق کیا۔
وہ میرے ادبی مجلہ ''نوائے ادب'' انٹرنیشنل کے لیے مدیر کے فرائض سرانجام دیتے رہے، جن دنوں ناصر زیدی مرحوم '' ادبِ لطیف '' کے دوبارہ سے مدیر بنے تو ان کے حکم پر میں پاک ٹی ہاؤس پہنچا ، گفتگو کے دوران کہنے لگے برخودار تمہاری نظر میں کوئی بااعتماد پبلشر ہے، جس پر میں نے وسیم عالمؔ کو کال کی اور فوراََ پاک ٹی ہاؤس پہنچنے کا کہا، یہ وسیم بھائی کی ناصر زیدی مرحوم سے پہلی ملاقات تھی۔
رسالے کی اشاعت کے تمام تر اخراجات طے پائے جو ناصر زیدی کی رحلت تک احسن طریقے سے چلتے رہے۔ ناصر زیدی جب علیل ہوتے تو '' ادبِ لطیف'' کی پروف ریڈنگ اور مواد کی سلیکشن تک وسیم عالم کرتے۔ ماہنامہ ارض و سماء ، روزنامہ '' نیوز ڈے گزٹ'' اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ وہ اکادمی ادبیات اطفال کے سیکریٹری بھی رہے۔
وسیم عالمؔ میری زندگی کے کٹھن راستوں کے ہمراز بھی تھے، میرے کھوکھلے جسم میں شاعری کی روح پھونکنے والی پہلی شخصیت وسیم عالمؔ ہی تھے۔ جن کا میرے ساتھ تعلق کسی دوست ، بھائی سے بڑھ کر تھا۔
اُن کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ اولاد کی محرومی تھی، جس پر اکثر وہ پریشانی کے عالم میں مبتلا رہتے، اُن کی زندگی کے زیادہ تر شب و روز مجھ خاکسار کے ساتھ گزرے۔ وہ مجھے اپنا شاگرد نہیں بلکہ بیٹا مانتے تھے۔ ہم دونوں کا دُکھ سکھ مشترک تھا ۔ وہ جب بھی لاہور سے گوجرانوالہ آتے تو مجھ سے ضرور ملتے۔
وسیم عالم کی شخصیت و فن میں ایک ایسا عالم بولتا تھا جو اس دنیا کا نہیں بلکہ کسی اور ہی دنیا کا تھا۔ اُن سے میری وابستگی ان کے بچپن کے کلاس فیلواور میرے ہر دلعزیز بھائی خواجہ آفتاب عالم کے توسط سے قائم ہوئی۔ وفات سے قبل اُن کی جب مجھ سے ملاقات ہوئی تو ہم شیرانوالہ باغ پارک میں بیٹھ گئے اُن کا موٹاپا جسمانی کمزور کے باعث بہت کم ہو چکا تھا۔
اُن کی زرد رنگت بتا رہی تھی کہ طبیعت ٹھیک نہیں۔ پوچھنے پر بھی اپنے اندر کی بیماری کو ہلکی سی مسکراہٹ اور شاعرانہ مزاج سے چھپا لیتے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد پتہ چلا کہ وسیم عالمؔ سول اسپتال گوجرانوالہ میں زیرِ علاج ہیں۔
جس پر میں اور خواجہ آفتاب عالم اُن کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچے۔ جہاں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں بے حال پڑے تھے۔ تب اُن کی زندگی کے اس کٹھن وقت میں اُن کے ہم عصروں میں سے کوئی بھی اُن کے کام نہ آیا۔ جنازے پر بھی چند گنتی کے شعراء موجود تھے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس معصوم شخص کی تخلیقی ، قلمی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے والے نقلی چہرے کہاں ہیں؟ جو خود کو شاعر تو کہتے ہیں مگر اُن کے زورِ قلم سے وسیم عالم کا نشاں ملتا ہے۔ اُن کے اس شعر کے مصداق:
تمہارے پاس آ کر لفظ بولیں گے
میری تحریر سے تصویر جاگے گی
محبت کی خوشبو کو شعروں میں سمو کر بیان کرنے والے منفرد لب و لہجے کے شاعر وسیم عالم کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا لیکن ان کے الفاظ آج بھی ہزاروں دلوں میں اپنے زندہ ہونے کا احساس دلا رہے ہیں۔ جو اس مقبول شاعر کے ہمارے درمیان ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔
اُن کی وفات پندرہ رمضان المبارک کو ہوئی اور انھیں ان کے آبائی گاؤں مقبول شہید آباد میں دفن کیا گیا۔ آخر میں ان اشعار کے سوا اور کیا کہا جائے۔
مری آنکھیں بھی نم آلود ہو جاتی ہیں پل بھر میں
جو پھر جاتا ہے آنکھوں میں کوئی روتا ہُوا چہرہ
مجھے تو موت سے پہلے ہی عالمؔ مار ڈالے گا
تری بدلی ہوئی آنکھیں ترا بدلا ہُوا چہرہ