طرزِ عمل
اس وقت آدمی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا ذاتی فائدہ اسی میں تھا کہ وہ مجموعی مفاد کا لحاظ کرتا
شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر مغلیہ خاندان کے دو بادشاہوں میں سے وہ واحد ایسے بادشاہ ہیں جن کے نام کے ساتھ ''اعظم'' یا ''دی گریٹ'' کے الفاظ لکھے جاتے ہیں اور انھیں تاریخ ''اکبر اعظم'' کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اکبر بادشاہ نے تقریباً نصف صدی تک بادشاہت کی۔
ایک دن شہنشاہ اکبر نے اپنے خاص درباری بیربل سے کہا: بیربل! اگر ایک بادشاہ کی بادشاہت ہمیشہ رہتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ بیربل نے جواب دیا: عالی جاہ! آپ نے بجا فرمایا، لیکن اگر ایسا ہوتا تو آج آپ بادشاہ کیوں کر ہوتے؟دراصل اکبر نے بادشاہت کو اپنی ذات سے شروع کیا۔
اس نے سوچا کہ اگر دنیا میں یہ اصول رائج ہو کہ ایک بادشاہ کی بادشاہت ہمیشہ باقی رہے تو میں ہمیشہ بادشاہ بنا رہوں گا۔ اکبر بھول گیا کہ بادشاہت کا سلسلہ تو دنیا میں اس وقت سے ہے جب کہ وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
ایسی صورت میں اگر اکبر کا پسندیدہ اصول دنیا میں رائج ہوتا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ اکبر بادشاہ بن کر تخت پر بیٹھے۔مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذات کو سامنے رکھ کر سوچتا ہے۔ وہ صرف ذاتی مفاد کے تحت اپنے گرد ایک خیالی نقشہ بنا لیتا ہے۔ پھر اس کے مطابق ہمیشہ سر بلند رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ یہ حقیقت بھول جاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں اکیلا نہیں ہے۔ چنانچہ بہت جلد خارجی حقیقتیں اس سے ٹکرانے لگتی ہیں اور بالآخر اس کے بنائے ہوئے نقشے کو توڑ ڈالتی ہیں۔
اس وقت آدمی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا ذاتی فائدہ اسی میں تھا کہ وہ مجموعی مفاد کا لحاظ کرتا۔ انفرادی مفاد کی خاطر اجتماعی مفاد کو قربان نہ کرتا۔اگر آپ اپنی ذات کا فائدہ چاہتے ہیں تو آپ کو سب کے فائدے کا سوچنا چاہیے۔ جن لوگوں کو اس دنیا میں کچھ کرنے کے مواقع ملتے ہیں تو وہ اکثر یہ غلطی کر جاتے ہیں کہ وہ صرف اپنی ذات کی بقا و استحکام کے لیے اصول اور قاعدے قانون بنانے لگتے ہیں۔
وہ جس طریقے سے اور جس زاویے سے صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اسی کے مطابق قوانین رائج کرنے لگتے ہیں تاکہ ہر صورت ان کا جھنڈا اونچا رہے۔ مگر یہ طریقہ اکثر الٹا ان کے گلے پڑ جاتا ہے۔ کیوں اس دنیا میں کوئی بھی شخص ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا۔ مواقع کبھی ایک شخص کے ہاتھ میں آتے ہیں تو کبھی دوسرے شخص کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں محض اپنی ذات کو سامنے رکھ کر قوانین بنانا دانش مندی نہیں۔ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ حالات بدلیں اور جو چیز پہلے آپ کو اپنے موافق نظر آتی تھی وہ بعد میں آپ کے مخالف بن جائے۔زندگی کا سب سے بڑا راز حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔
زمینی حقائق کا اعتراف کرنے والا آدمی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جس طرح اپنے ''ہے'' کو جانتا ہے اسی طرح وہ اپنے ''نہیں'' سے بھی واقف ہے۔
ایک طرف وہ اگر یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے تو اسی کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں ہے۔ وہ آغاز اور انجام دونوں کے فرق سے واقف ہوتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اپنا پہلا قدم اسے کہاں سے اٹھانا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جہاں وہ آخر کار اپنے آپ کو پہنچانا چاہتا ہے۔
جو شخص سامنے نظر آنے والی حقیقتوں کو تسلیم کرلے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سچائی کو قبول کرلیا کیونکہ وہ حقائق کی دنیا میں سانس لے رہا ہوتا ہے وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ رہا ہوتا ہے جیساکہ وہ فی الواقع ہیں۔ چیزوں کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا ہی دانش مندی ہے۔
جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت موجود ہو وہی کامیابی کے آخری زینے تک پہنچتا ہے اور جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو تو اول تو وہ اپنا سفر شروع نہ کرسکے گا دوم اگر اس کا سفر شروع ہو بھی گیا تب بھی وہ درمیان میں اٹک کر رہ جائے گا۔ وہ کبھی زمینی حقائق کا ادراک نہ کرسکے گا اور نہ ہی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
اس پس منظر میں آپ پاکستان کی قیادت و رہنمائی اور عوام کی مسیحائی کا دم بھرنے والے سیاسی اکابرین کے کردار و عمل اور قول و قرار کا جائزہ لیں تو انتہائی افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی سیاست اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے اور اپنی ذات پر ختم ہو جاتی ہے۔
یہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں، آئین کی پاسداری، پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے گیت گاتے ہیں لیکن یہ سب اندر سے اکبر بادشاہ کی طرح ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ ایسا اقتدار جس کو کبھی زوال نہ آئے۔
یہ جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے کے دل دادہ ہیں۔ یہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت کے نام پر موروثیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ باپ، بیٹا، بیٹی، سسر، داماد، چاچا اور بھتیجے پر آ کر ان کی جمہوریت ختم ہو جاتی ہے۔
پارٹی کے سینئر ترین رہنما بھی ہاتھ باندھے نوجوان و نوآموز قائدین کے پیچھے ادب و احترام سے نظریں جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی ''نعرہ حق'' بلند کردے۔ یہ بات کرتے ہیں عدل و انصاف اور آئین و قانون کی لیکن انھیں انصاف بھی اپنی مرضی کا چاہیے اور فیصلے بھی اپنی مرضی کے چاہئیں کہ جن سے ان کے مفادات کو تحفظ ملے۔
آئین کا کان مروڑنا بھی ان کے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ترامیم کے ہتھیار سے یہ اپنی مرضی کی قانون سازی کرکے پارلیمنٹ سے منظوری لے کر قانون بنا دیتے ہیں۔
عدالت سے آنے والا کوئی فیصلہ اگر ان کی مرضی و منشا کے خلاف ہو جس سے ان کے مفادات پر زد پڑتی ہو تو اسے نہ صرف یہ کہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں بلکہ فیصلہ سنانے والے محترم ججز پر الزامات کی بارش کردیتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کا یہ فیصلہ ہے کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرائے جائیں۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا شیڈول کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے پنجاب کی نگران حکومت اور وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہدایت کی ہے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ آئین کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کرائے جانے چاہئیں۔ لیکن وفاقی حکومت رقم کی عدم دستیابی، خراب معاشی صورت حال، سیکیورٹی کے خطرات، الیکشن کے لیے فورسز کی عدم دستیابی جیسے معاملات کو جواز بنا کر الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور اب انتہا یہ کہ 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔
تین پانچ اور چار تین کی تکرار کی جا رہی ہے۔ اس فیصلے کو ''انصاف کا قتل'' قرار دیا گیا ہے جب کہ نواز شریف نے فیصلے کو ہی ججز کے خلاف چارج شیٹ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ عدلیہ نے آئین کی حفاظت کی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ وفاقی حکومت بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی پنجاب میں فی الحال الیکشن کا انعقاد نہیں چاہتے۔
اس لیے وہ عدالتی فیصلے اور ججز کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اگر یہی تین رکنی بینچ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق 18 اکتوبر کو ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا حکم جاری کردیتا تو وفاقی حکومت پھر شادیانے بجانے لگتی۔ عدلیہ اور ججز قابل احترام قرار پاتے۔ آئین و قانون کی فتح ہو جاتی۔ یہ سوچ اور طرز عمل منافقانہ ہے باوقار نہیں۔
ایک دن شہنشاہ اکبر نے اپنے خاص درباری بیربل سے کہا: بیربل! اگر ایک بادشاہ کی بادشاہت ہمیشہ رہتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ بیربل نے جواب دیا: عالی جاہ! آپ نے بجا فرمایا، لیکن اگر ایسا ہوتا تو آج آپ بادشاہ کیوں کر ہوتے؟دراصل اکبر نے بادشاہت کو اپنی ذات سے شروع کیا۔
اس نے سوچا کہ اگر دنیا میں یہ اصول رائج ہو کہ ایک بادشاہ کی بادشاہت ہمیشہ باقی رہے تو میں ہمیشہ بادشاہ بنا رہوں گا۔ اکبر بھول گیا کہ بادشاہت کا سلسلہ تو دنیا میں اس وقت سے ہے جب کہ وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
ایسی صورت میں اگر اکبر کا پسندیدہ اصول دنیا میں رائج ہوتا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ اکبر بادشاہ بن کر تخت پر بیٹھے۔مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذات کو سامنے رکھ کر سوچتا ہے۔ وہ صرف ذاتی مفاد کے تحت اپنے گرد ایک خیالی نقشہ بنا لیتا ہے۔ پھر اس کے مطابق ہمیشہ سر بلند رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ یہ حقیقت بھول جاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں اکیلا نہیں ہے۔ چنانچہ بہت جلد خارجی حقیقتیں اس سے ٹکرانے لگتی ہیں اور بالآخر اس کے بنائے ہوئے نقشے کو توڑ ڈالتی ہیں۔
اس وقت آدمی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا ذاتی فائدہ اسی میں تھا کہ وہ مجموعی مفاد کا لحاظ کرتا۔ انفرادی مفاد کی خاطر اجتماعی مفاد کو قربان نہ کرتا۔اگر آپ اپنی ذات کا فائدہ چاہتے ہیں تو آپ کو سب کے فائدے کا سوچنا چاہیے۔ جن لوگوں کو اس دنیا میں کچھ کرنے کے مواقع ملتے ہیں تو وہ اکثر یہ غلطی کر جاتے ہیں کہ وہ صرف اپنی ذات کی بقا و استحکام کے لیے اصول اور قاعدے قانون بنانے لگتے ہیں۔
وہ جس طریقے سے اور جس زاویے سے صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں اسی کے مطابق قوانین رائج کرنے لگتے ہیں تاکہ ہر صورت ان کا جھنڈا اونچا رہے۔ مگر یہ طریقہ اکثر الٹا ان کے گلے پڑ جاتا ہے۔ کیوں اس دنیا میں کوئی بھی شخص ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا۔ مواقع کبھی ایک شخص کے ہاتھ میں آتے ہیں تو کبھی دوسرے شخص کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں محض اپنی ذات کو سامنے رکھ کر قوانین بنانا دانش مندی نہیں۔ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ حالات بدلیں اور جو چیز پہلے آپ کو اپنے موافق نظر آتی تھی وہ بعد میں آپ کے مخالف بن جائے۔زندگی کا سب سے بڑا راز حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔
زمینی حقائق کا اعتراف کرنے والا آدمی اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جس طرح اپنے ''ہے'' کو جانتا ہے اسی طرح وہ اپنے ''نہیں'' سے بھی واقف ہے۔
ایک طرف وہ اگر یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے تو اسی کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں ہے۔ وہ آغاز اور انجام دونوں کے فرق سے واقف ہوتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اپنا پہلا قدم اسے کہاں سے اٹھانا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جہاں وہ آخر کار اپنے آپ کو پہنچانا چاہتا ہے۔
جو شخص سامنے نظر آنے والی حقیقتوں کو تسلیم کرلے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سچائی کو قبول کرلیا کیونکہ وہ حقائق کی دنیا میں سانس لے رہا ہوتا ہے وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ رہا ہوتا ہے جیساکہ وہ فی الواقع ہیں۔ چیزوں کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا ہی دانش مندی ہے۔
جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت موجود ہو وہی کامیابی کے آخری زینے تک پہنچتا ہے اور جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو تو اول تو وہ اپنا سفر شروع نہ کرسکے گا دوم اگر اس کا سفر شروع ہو بھی گیا تب بھی وہ درمیان میں اٹک کر رہ جائے گا۔ وہ کبھی زمینی حقائق کا ادراک نہ کرسکے گا اور نہ ہی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
اس پس منظر میں آپ پاکستان کی قیادت و رہنمائی اور عوام کی مسیحائی کا دم بھرنے والے سیاسی اکابرین کے کردار و عمل اور قول و قرار کا جائزہ لیں تو انتہائی افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی سیاست اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے اور اپنی ذات پر ختم ہو جاتی ہے۔
یہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں، آئین کی پاسداری، پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے گیت گاتے ہیں لیکن یہ سب اندر سے اکبر بادشاہ کی طرح ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ ایسا اقتدار جس کو کبھی زوال نہ آئے۔
یہ جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے کے دل دادہ ہیں۔ یہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت کے نام پر موروثیت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ باپ، بیٹا، بیٹی، سسر، داماد، چاچا اور بھتیجے پر آ کر ان کی جمہوریت ختم ہو جاتی ہے۔
پارٹی کے سینئر ترین رہنما بھی ہاتھ باندھے نوجوان و نوآموز قائدین کے پیچھے ادب و احترام سے نظریں جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی ''نعرہ حق'' بلند کردے۔ یہ بات کرتے ہیں عدل و انصاف اور آئین و قانون کی لیکن انھیں انصاف بھی اپنی مرضی کا چاہیے اور فیصلے بھی اپنی مرضی کے چاہئیں کہ جن سے ان کے مفادات کو تحفظ ملے۔
آئین کا کان مروڑنا بھی ان کے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔ ترامیم کے ہتھیار سے یہ اپنی مرضی کی قانون سازی کرکے پارلیمنٹ سے منظوری لے کر قانون بنا دیتے ہیں۔
عدالت سے آنے والا کوئی فیصلہ اگر ان کی مرضی و منشا کے خلاف ہو جس سے ان کے مفادات پر زد پڑتی ہو تو اسے نہ صرف یہ کہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں بلکہ فیصلہ سنانے والے محترم ججز پر الزامات کی بارش کردیتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کا یہ فیصلہ ہے کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرائے جائیں۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا شیڈول کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت نے پنجاب کی نگران حکومت اور وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہدایت کی ہے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ آئین کے تحت اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کرائے جانے چاہئیں۔ لیکن وفاقی حکومت رقم کی عدم دستیابی، خراب معاشی صورت حال، سیکیورٹی کے خطرات، الیکشن کے لیے فورسز کی عدم دستیابی جیسے معاملات کو جواز بنا کر الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور اب انتہا یہ کہ 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے۔
تین پانچ اور چار تین کی تکرار کی جا رہی ہے۔ اس فیصلے کو ''انصاف کا قتل'' قرار دیا گیا ہے جب کہ نواز شریف نے فیصلے کو ہی ججز کے خلاف چارج شیٹ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ عدلیہ نے آئین کی حفاظت کی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ وفاقی حکومت بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی پنجاب میں فی الحال الیکشن کا انعقاد نہیں چاہتے۔
اس لیے وہ عدالتی فیصلے اور ججز کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اگر یہی تین رکنی بینچ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق 18 اکتوبر کو ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا حکم جاری کردیتا تو وفاقی حکومت پھر شادیانے بجانے لگتی۔ عدلیہ اور ججز قابل احترام قرار پاتے۔ آئین و قانون کی فتح ہو جاتی۔ یہ سوچ اور طرز عمل منافقانہ ہے باوقار نہیں۔