نیکیوں کا سفر
بدر کی جنگ کو ایمان کی طاقت اور امت مسلمہ کی طاقت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے
رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ شروع ہو چکا ہے اور جن کو اس ماہ مبارک کی قدر ہے ان کو اندازہ ہے کہ یہ قابل احترام ماہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔
مطلب اس کی عبادات کا شرف اور فیضیابی ہمیں بچپن سے ہی گھر میں اور باہر اسکول، اخبارات اور مختلف میڈیم سے اس مبارک ماہ کے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں مگر پھر بھی ہم اس کی برکات اور فیوض کو درست طور پر نہیں جان پاتے۔ چلیں تھوڑا سا جائزہ لیں کہ ہم اس ماہ مبارک کے ساتھ کتنا انصاف کر پا رہے ہیں۔
یہ اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن پاک کا نزول حضرت محمد ﷺ پر مکمل کیا گیا تھا، اس ماہ میں جب مسلمان صبح فجر سے غروب آفتاب تک اللہ کے لیے کھانے پینے اور دیگر جسمانی ضروریات سے پرہیز کرتے ہیں۔، مگر کافی عرصے سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ صرف کھانے پینے کو بند کیا جاتا ہے اور اندر کا ہمارا شیطان ویسے ہی باہر نکلا ہوتا ہے سڑک پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونا ،گالی گلوچ اور مغلظات بکی جاتی ہیں۔
ایک دوسرے سے عناد رکھنا گاڑی چلاتے ہوئے دوسرے کو کچل کر آگے نکل جانا ہمارا معمول بن گیا ہے۔یہ مہینہ خود کی عکاسی، روحانی صفائی اور خدا سے عقیدت کا وقت ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اسلامی تاریخ میں کئی اہم واقعات سے مزین ہے جس میں سر فہرست قرآن کا نزول ہے اسی مبارک ماہ میں لیلۃ القدر شب قدر بھی ہوتی ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے یعنی آخری دس روزوں میں ہوتی ہے جس میں ہم شاپنگ کرنے اور خریدنے بیچنے میں لگے ہوتے ہیں۔ دنیاوی چیزوں کو جب سے ہم نے فوقیت دینی شروع کی ہے ہم مسلسل تکلیفوں میں ہیں۔
یہ مقدس راتیں ہزار مہینوں سے بہتر ہیں اور ایک ایک لمحہ انمول مگر کیا ایک دن بیٹھ کر ہم سوچتے ہیں کہ سارا دن کر کیا رہے ہیں؟ رمضان میں جو بھی نیک اعمال کیے جائیں وہ ہزار گنا بڑھ جاتے ہیں مگر رمضان کی آمد سے پہلے ہی مہنگائی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
غیر مسلم ممالک میں رمضان میں خصوصی ڈسکاؤنٹ پیکیجز دیے جاتے ہیں جب کہ یہاں حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ حکمرانوں کے اللے تللے جاری و ساری رہتے ہیں ان کی بغیر روزے کی افطار پارٹیوں کو یہ فرق نہیں پڑتا کہ کون آج مفت آٹا لینے کے چکر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا یا کس کو راشن کی آس نے موت کی نیند سلا دیا۔
اہم واقعہ جو رمضان المبارک میں پیش آیا وہ جنگ بدر ہے۔ یہ جنگ اسلامی کیلنڈر کے دوسرے سال میں ہوئی اور یہ مسلمانوں کی اہم فتح تھی۔ بدر کی جنگ کو ایمان کی طاقت اور امت مسلمہ کی طاقت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ کس طرح ہمارے اسلاف نے روزہ رکھ کر کافروں کا مقابلہ کیا اور فتح حاصل کی۔
کیا اتنی نہ سہی مگر معمولی ہی سہی ایمان کی گرمی ہمارے اندر موجود ہے؟ یقینا نہیں، ہم اپنے مسئلوں میں اتنے غرق ہوگئے ہیں کہ امت مسلمہ یا ملی وحدت کی خواہش نے دم توڑ دیا ہے یا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنی غیرت اور حمیت کو بالائے طاق رکھ کر اغیار کے رحم و کرم پر ہیں۔
رمضان میں روزہ رکھنے کے علاوہ اس ماہ مبارک میں زکوۃ اور خیرات بھی دی جاتی ہے، جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ دیکھ بھال کردی جائے۔
رمضان میں ویسے بھی فقیروں اور پیشہ ور گدا گروں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور بڑے شہروں میں خاص طور پر تو دور دور سے فقیر آکر کمائی کرتے ہیں جو انتہائی شرم کی بات ہے ایسے بھولے بھالے لوگ جو اپنے نیک کاموں کے ساتھ دوسروں کی مدد کرنا چاہیں تو خدا کے لیے اپنے خاندان یا رشتے داروں کو دیں جو ضرورت مند ہیں۔
جن کو آپ جانتے ہیں انجان اور پیشہ ور لوگوں سے بچیں جن کے بینک بیلنس آپ سے زیادہ ہوں گے اور کچھ تنظیمیں بھی جان بوجھ کر رقمیں بٹور رہی ہوتی ہیں۔ اس ماہ مبارک میں صرف پیسوں سے نہیں بلکہ اپنی خدمات دے کر بھی ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے کوئی نیکی کر کے، کسی کی مدد کر کے ،کسی کا دکھ سن کر کوئی اچھا مشورہ دے کر کسی کا دل رکھ کر یا مسکرا کر یہ بھی صدقہ ہے۔
اس کے علاوہ اپنی زبان کی حفاظت کر کے بھی ہم بہت ساری برائیوں سے بچ سکتے ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ روزہ رکھ کر روزہ بہلا رہے ہوتے ہیں کبھی ٹی وی دیکھ کر کبھی گھنٹوں سوشل میڈیا پر وقت بتا کر وقت تو گذر جاتا ہے مگر وہ بوجھ اور گناہوں کو اور زیادہ بڑھا دیتا کیا آپ نے کبھی غورکیا ہے کہ یہ جو تراویح کی نماز ہے یہ ایک مسلمان میں اکٹھے ہونے اور مضبوط ہونے کا احساس پیدا کرتی ہے۔
اس کے علاوہ رات کی یہ نماز اللہ کے حضور کھڑے ہونے اس کی وحدت بیان کرنے اور اپنے آرام کو تیاگ دینے کے بعد ایک نرمی اور محبت کا جذبہ جگاتی ہے ۔ایک ایسا سچا مسلمان جو روزے رکھ کر اپنے رب کی خوشنودی کے لیے تمام احکامات بجا لاتا ہے۔
اس کے لیے دنیا اور آخرت میں بے پناہ انعامات اور مسرتیں ہیں اللہ تو اپنے وعدے کے مطابق روزے دار کو عیدالفطر کے دن ہی اس کی مغفرت کر کے اپنی رحمتوں سے نواز دیتا ہے مگر ہم لوگ اس بڑے انعام کو چھوڑ کر معمولی فائدوں کی خاطر کیا کیا نہیں کرتے ؟ کبھی پھلوں کو مہنگا کردیا جاتا ہے ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے، آٹا غائب ،دال سبزی بھی پہنچ سے دور اور روزے میں یہ سب کرنے کا کیا انجام ہوگا؟ اس کی فکر نہیں ہوتی اور ہمارے اعمال کی وجہ سے لوگ بھی ہم پر ایسے ہی مسلط ہوتے ہیں۔
کیا آج آپ یہ بیٹھ کر سوچیں گے کہ اگر ہم اس مبارک مہینے کی فضیلتیں اور برکتیں سمیٹیں اور اپنے عمل اور باتوں کو بہتر کریں۔
اس ماہ کے تقدس میں اپنے آپ کو بدلیں اور پھر عید جیسے کو بصورت تحفے کو جو ہمارے رب نے دیا ہے سب میں بانٹ کر منائیں کسی کا چولہا جلا دیں کسی کی زندگی میں روشنی کردیں تو کیسا رہے گا؟ سوچیے گا ضرور میں دعا کرتی ہوں کہ سوچنے اور نیکیاں کرنے کا یہ سفر چلتا رہے۔ (آمین)