فضائلِ رمضان المبارک

پھر روزہ رکھنے کا مقصد واضح کیا کہ تقویٰ کا حصول ہوتا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ

فوٹو : فائل

رمضان المبارک رحمتوں اور بخششوں کا مہینہ ہے۔ اس ماہِ مقدس کو نیکیوں کی فصلِ بہار قرار دیا جاتا ہے۔ روزے کی فرضیت، تاریخ اور مقصد کو سورہ بقرہ کی ایک مختصر مگر جامع آیت میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ مفہوم: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے امتوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔''


مذکورہ آیتِ کریمہ میں اﷲ تعالیٰ صرف ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرما رہا ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے، پھر روزے کی تاریخ کا تذکرہ کیا کہ تم سے پہلے بھی روزے فرض کیے گئے، یعنی روزہ ایک عالم گیر عبادت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ادوار میں بھی روزہ رکھا جاتا تھا۔

پھر روزہ رکھنے کا مقصد واضح کیا کہ تقویٰ کا حصول ہوتا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ تقویٰ کا حصول کیا ہے؟ تقویٰ دل کی وہ کیفیت اور خوفِ خدا کا وہ درجہ ہے جہاں پر انسان ہر وہ کام کرتا ہے جو اﷲ کی رضا کا باعث ہو اور ہر اس کام سے اجتناب کرتا ہے جو اﷲ کی ناراضی کا باعث ہو۔ یعنی تقویٰ ایک ایسا جامع وصف ہے کہ اس کے حصول کے بعد ایک مسلمان میں تمام اعمالِ قبیحہ سے اجتناب اور اعمالِ صالح کا شوق بیدار ہوتا ہے۔ یعنی تقویٰ اور پرہیز گاری روزے کی حقیقی روح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہِ رمضان المبارک میں مسلمانوں کے اندر دینی مزاج اور صبر و تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ایک مخصوص دینی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔

اب ہمیں چاہیے کہ اپنے رب کی رضا کے مطابق زندگی بسر کریں تاکہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں اور اپنے خالق و مالک، رب العالمین کے پسندیدہ بندے بن جائیں۔ بلاشبہ! روزے سے اخلاق کی حفاظت، روح کی پاکیزگی اور نفس کی تربیت ہوتی ہے۔ اس ماہِ مقدس کی مشق کے عادی بن کر انہیں اپنی زندگی کے لیل و نہار میں ہمیشہ کے لیے شامل کرلیں۔

ماہِ رمضان کی فضیلت کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ اسی مبارک ماہ میں قرآن نازل کیا گیا جو آخری الہامی کتاب ہے اور خاتم الانبیاء رحمۃاللعالمین حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا گیا، جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات پیش کرتا ہے۔

فرمان الہی کا مفہوم: ''اس ماہِ مبارک میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کھول کر رکھ دینے والی ہے۔'' (سورۃ البقرہ)

ماہِ رمضان کی فضیلت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اس ماہ میں لیلۃ القدر موجود ہے یعنی وہ رات جس میں عبادت کرنے کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔

مفہوم: ''ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا۔ تم کیا جانو شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔'' (سورۃ القدر)

روزہ بہ ظاہر ایک مشقت والی عبادت ہے لیکن حقیقت میں اپنے مقصد اور نتیجے کے لحاظ سے یہ دنیا میں موجبِ راحت اور آخرت میں باعثِ رحمت ہے۔ روزے کے علاوہ دوسری عبادات ظاہری حرکات سے ادا ہوتی ہیں مگر روزہ ایسی عبادت ہے جس کا تعلق باطن سے ہے، یہ ایک مخفی عبادت ہے جس کا علم سوائے رب العزت کے کوئی نہیں جانتا۔ روزے دار کے اس خلوص بھرے جذبے کو دیکھ کر ہی حدیث قدسی کے ذریعے یہ عظیم فیصلہ کردیا،

حضور پاکؐ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ''روزہ میرے لیے ہے، اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا۔'' حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے: ''جب رمضان کا مہینہ آتا ہے، رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنّم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔'' (صحیح بخاری)

''اور ایک پکارنے والا پکار کر کہتا ہے اے نیکیوں کے طالب! آگے بڑھ اور اے برائیوں کے طالب باز آ جا۔'' (سنن ترمذی) اب جو کوئی ایمان کے تقاضوں کی تکمیل اور بارگاہِ الٰہی سے ثواب کی امید کے ساتھ روزے رکھے اور ماہِ مقدس کی راتوں میں اپنے رب کے حضور قیام کرے، نفل نمازوں، تہجد اور تلاوتِ قرآن پاک اور بارگاہِ الٰہی کے حضور دعاؤں کا اہتمام کرے تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔


حضورِ پاکؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی اس کے افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔''

روزہ دار کے لیے جنت میں خصوصی دروازہ ہے۔ جیسا کہ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے:

''جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہا جاتا ہے، قیامت کے دن پکارا جائے گا روزہ رکھنے والے کہاں ہیں؟ چناں چہ جو شخص روزہ رکھنے والوں میں سے ہوگا وہ اس میں داخل ہو جائے گا اور جو اس میں داخل ہوگیا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔'' (سنن ابنِ ماجہ)

اس ماہِ مقدس میں جہاں ہم اعمالِ صالحہ زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں وہیں ہم اپنے اعمال کا محاسبہ بھی کریں کہ وہ کون سے اعمال ہیں جو اﷲ کو ناپسند ہیں۔

ان سے پرہیز کریں، بعض دفعہ ہم غلط کام کرتے جاتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا، مثلاً کوشش کریں کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، ہماری بات سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کو حقارت سے نہ دیکھیں، حسد نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں، بدگمانی اور غیبت نہ کریں، فالتو اور لغو باتوں سے پرہیز کریں۔ اپنے وقت کی قدر کریں اور اس کا درست استعمال کریں۔ یہ مقدس ماہ خیر خواہی کمانے کا ہے لہٰذا کوشش ہونی چاہیے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، جب ہی ہم رمضان کی برکات و ثمرات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

رسول کریمؐ نے اس ماہِ مقدس کو شہرالمواساۃ یعنی غم گساری کا مہینہ بھی فرمایا ہے۔ تمام عبادات روزہ، نماز، قیام اللیل اور انفاق فی سبیل اﷲ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیوں کہ ایک فرض ستّر فرائض کے برابر ہوتا ہے، اسی لیے اکثر اہلِ ایمان زکوٰۃ کی ادائی کے لیے اسی بابرکت ماہ کو منتخب کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ سکیں۔ حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضورؐ رمضان میں تیز آندھیوں سے بھی زیادہ صدقہ و خیرات فرمایا کرتے تھے۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم: ''قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہوگا تو صدقہ مومن پر سایہ بن جائے گا۔''

دورِ حاضر میں جب کہ ہر طرف معاشی بحران زور پکڑتا جا رہا ہے، ناصرف غرباء جو کہ زکوٰۃ کے حق دار ہیں بل کہ وہ سفید پوش لوگ بھی جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہیں ان کے لیے بھی زندگی بسر کرنا مشکل ہوگیا ہے، ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتے تم ان کو ان کے چہرے سے پہچان لو گے۔

وقت کی اشد ضرورت ہے کہ اصحابِ ثروت انفاق فی سبیل اﷲ کے ذریعے اس طرح مدد کریں کہ ان کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو۔ اگر معاشی بحران کی صورت پیدا ہو جائے تو اغنیا پر زکوٰۃ کے علاوہ انفاق فی سبیل اﷲ بھی بڑی نیکی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: ''بے شک! مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔'' ''جنہیں رزق میں فراخی عطا کی گئی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ مفلس اور محتاج لوگوں کی مدد کریں۔''

ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم: ''ان کے مال میں ضرورت مند سائل اور محروم کا حق ہے۔'' (الذاریٰت) اﷲ تبارک و تعالیٰ نیکی کے کاموں میں سبقت حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔

''نیک کاموں میں آگے بڑھنے کی کوشش کیا کرو۔'' (سورۃ البقرہ)

زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اﷲ کے ذریعے معاشرے کے محروم و مفلس لوگوں کی مدد ہو جاتی ہے اور اس طرح معاشرے میں ہم دردی و احترام اور باہمی محبت کے جذبات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمیں ماہِ رمضان کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق دے (آمین)۔ بارگاہِ الٰہی سے ہم سب کی دعا ہے کہ امتِ مسلمہ کی مشکلات کو دور فرما دے اور پاکستان کو استحکام، ترقی و خوش حالی سے ہم کنار فرما دے۔ (آمین)
Load Next Story