روزے اور تقویٰ کا شعوری احساس

روزہ وہ واحد عبادت ہے کہ اس کی جزا کو اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک سے منسوب کیا ہے


راحیل گوہر April 07, 2023
فوٹو:فائل

حیاتِ دنیوی کے تمام شعبہ ہائے عبادات و معاملات میں ہر لحظہ یہ تصور قلب و ذہن میں مستحضر رہے کہ وہ علیم و خبیر ذات مجھے دیکھ رہی ہے۔ اگر انسان زمین کی پہنائیوں میں چھپ کر بھی کوئی بھی عمل کرے گا تو اﷲ وہاں بھی دیکھ لے گا۔

ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ''اور تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس کو دیکھ رہا ہے۔'' (الحدید) کیوں کہ اﷲ انتہائی قوت والا اور باریک بین ہے۔ وہ اس کائنات کے اسرار و رموز کو خوب جانتا ہے۔ یہ حقیقت جب انسان کے دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہوجائے تو اسی احساس کا نام تقویٰ ہے اور جو تقویٰ کی روش اختیار کرتا ہے اس خوش نصیب کے لیے اُس کے رب کی طرف سے بے شمار انعامات کا وعدہ ہے۔

خالق کائنات نے اپنے بندوں پر جہاں بے حد و شمار احسانات فرمائے ہیں، وہیں ایک عظیم احسان یہ بھی فرمایا کہ اپنی مخلوق پر سال میں ایک ایسا مبارک اور بے انتہاء برکتوں اور رحمتوں والا مہینا سایہ فگن فرما دیا جس کی ہر ساعت اور ہر لمحہ کو حصول ِ تقویٰ کے لیے آسان کردیا۔ اس ماہ میں اﷲ سبحانہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی موسلا دھار برسات ہوتی رہتی ہے۔

فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے: ''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے رکھنا فرض کر دیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، شاید کہ تم میں تقویٰ پیدا ہوجائے۔'' (البقرہ)

قرآنِ حکیم کا اسلوب یہ ہے کہ اکثر وہ حکم کی علت و حکمت بھی بیان کردیتا ہے۔ جس طرح سورۃ طہٰ میں نماز قائم کرنے کی علت یہ بیان فرمائی کہ یہ اﷲ کے ذکر کے لیے ہے، زکوٰۃ ادا کرنے کی حکمت مال کی صفائی اور طہارت ہے، اسی طرح روزہ کی حکمت یہ بیان ہوئی کہ انسان کے لیے تقویٰ کے حصول میں آسانی پیدا ہوجائے۔

تقویٰ کی روش اختیار کرنے میں منہیات کے اجتناب، نفسانی خواہشات کے منہ زور گھوڑے پر قابو پانا، اوامر کے التزام اور نواہی سے حتی الامکان بچنے کی سعی و جہد کرنا اور خیر ِ مطلق کے حصول کا شعوری ادراک اور اس کا عملی مظاہرہ تقویٰ کا اہم تقاضا ہے اور اس کو اپنی زندگی کے ہر عمل میں شامل کر لینے میں انسان کے لیے خیرِ کثیر موجود ہے۔ رمضان المبارک کے حوالے سے رسول مکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہ وہ مہینا ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ دوزخ سے نجات ہے۔''

(البیہقی فی شعب الایمان)

گویا رسول مکرم ﷺ ہمیں یہ مژدہ سنا رہے ہیں کہ ماہِ صیام کے آغاز ہی سے انسانوں پر اﷲ کی رحمت کا نزول شروع ہوجاتا ہے اور جب اس ماہِ مبارک کی مقدس و با برکت اور انعامات سے لبریز ساعتیں سمٹ رہی ہوتی ہیں تو ایمان اور احتساب کے ساتھ گزارے ہوئے دن کے روزوں اور قرآن کے سننے سنانے میں بسر کی ہوئی راتیں، انسان کے لیے اجر و ثواب کا باعث بنتی ہیں اور اس کے کیے ہوئے تمام گناہوں کی بساط لپیٹی جاچکی ہوتی ہے۔

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو اپنی ذات میں ایک ایسا عجیب احساس لیے ہوتا ہے کہ انسان خلوت میں بھی کسی قسم کی خیانت نہیں کرتا اور خور و نوش کی تمام اشیاء اور تمام جائز مرغوبات ِ نفس کے سہل الحصول ہونے کے باوجود ان کے استعمال سے اس طرح اجتناب کرتا ہے گویا اﷲ سامنے ہی موجود ہے۔

روزہ وہ واحد عبادت ہے کہ اس کی جزا کو اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک سے منسوب کیا ہے اور انسان کے لیے یہ انتہائی شرف و کرامت اور بہت بڑے اعزاز و توقیر کا مقام ہے۔ اسی رمضان المبارک کے مہینے میں خالق کون و مکاں کی جانب سے اس عظیم الشان رات کا بھی نزول ہُوا ہے جس نے اس ارض خاک کی قسمت میں چار چاند لگا دیے۔

یہ وہ رات ہے جو ایک ہزار مہینوں (تراسی سال) سے افضل اور فیوض و برکات سے مزین ہے، جس کو لیلۃ القدر اور لیلۃ المبارک کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ ارشاد الٰہی کا مفہوم ہے: ''ہم نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ روح (جبریل امین) اور فرشتے اس رات اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔ (وہ رات) سراسر سلامتی ہے، طلوع ِ فجر تک۔'' (القدر)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دوسرے بیش بہا انعام و اکرام کے ساتھ اپنے دامن میں قرآن حکیم جیسی انمول کتاب لائی جس میں نسل انسانی کے لیے کامل ہدایت نامہ ہے۔ دنیا و آخرت میں فوز و فلاح سے ہم کنار کر کے اور تمام خباثتوں اور آلودگیوں سے منزہ کر کے ایک دل آویز انسان بنانے کے لیے یہ نسخہ کیمیا ہے۔

اس حقیقت کو اﷲ نے تعالیٰ نے یوں بیان کیا، مفہوم: ''حٰم، اس واضح کتاب کی قسم کہ ہم نے اسے ایک خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے کیوں کہ ہمیں بلاشبہ خبردار کرنا مقصود تھا۔ اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہ ہمارا حکم ہی ہوتا ہے اور ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں۔ یہ آپ کے رب کی رحمت ہے، بلاشبہ! وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔'' ( الدخان)

انسان روح اور بدن کا مرکب ہے اور ان دونوں عناصر کا بناؤ بگاڑ اس کے اپنے طرزِ عمل پر منحصر ہوتا ہے۔ روح امرِ رب ہے جب کہ انسان کے بدن کو خالقِ الحب و النویٰ نے ناپاک پانی کے ایک حقیر قطرے سے تخلیق کیا ہے اور اسی خاکی وجود میں اﷲ نے روح کے جوہرِ اعلیٰ کو شامل کرکے فرشتوں سے فرمایا، مفہوم: ''پس جب میں اسے درست کرچکوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا۔'' (الحجر)

فرشتوں کا یہ سجدہ انسان کے خاکی وجود کو نہیں بلکہ اس روح کے سبب تھا جس نے اس کے بدن میں اتر کر انسان کو اشرف المخلوقات کا بلند مقام عطا کیا تھا۔ اب انسان اگر اپنے اس خاکی اور کثافت زدہ قطرہ حقیر ہی کی سیوا کرتا رہے تو روح کی شفافیت پر ایک غبار سا آجاتا ہے اور آئینہ روح دھندلانے لگتا ہے، کیوں کہ جس طرح انسان اپنے مادی تن و توش کو توانا اور صحت مند رکھنے کے لیے غذا کا سہارا لیتا ہے اور اس کے حصول کے لیے شب و روز سعی و جہد کرتا رہتا ہے۔

اسی طرح روح کی بقا و سلامتی کے لیے بھی بھرپور غذا کی فراہمی ناگزیر ہے اور اس غذا کا مرکز و منبع صرف ذکر الٰہی ہے۔ ازروئے قرآن حکیم، مفہوم: ''آگاہ ہوجاؤ کہ دلوں کو سکون اور قرار صرف اﷲ کی یاد میں ملتا ہے۔'' (الرعد) روزہ بہ ظاہر ایک ایسا عمل ہے جس میں آدمی کھانے پینے اور بعض دوسرے فطری تقاضوں کو پورا کرنے سے پورا دن اپنے آپ کو روکے رکھتا ہے، جن پر عام حالات اور مہینوں میں کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ آخر اس عمل میں ایسی کیا افادیت ہے جس کی وجہ سے ناصرف امت مسلمہ پر بلکہ ہم سے پہلے گزرنے والی تمام امتوں پر بھی اس عبادت کو فرض کردیا گیا تھا! سوچنے کا مقام ہے کہ آخر ہمارے بھوکے پیاسے رہنے سے اﷲ تعالیٰ کو کیا دل چسپی ہے؟

جائز اور فطری تقاضوں پر پابندی لگا کر وہ ہمیں کس مقصد کی بجا آوری کے لیے مستعد کرنا چاہتا ہے، اور اس عمل میں ہمارے لیے کون سے فوائد پوشیدہ ہیں؟ اس کا واضح جواب وہی ہے جو سورۃ البقرہ میں بتا دیا گیا ہے، یعنی صرف اور صرف تقویٰ کی جڑیں انسان کے فکر و عمل میں مضبوط ہوجائیں۔ یہ زندگی چوپایوں کی مانند بے سمجھے بوجھے نہیں، بلکہ عقل و شعور کی نعمت سے بہرہ مند مخلوق کی حیثیت سے اور احساسِ ذمے داری کے ساتھ بسر کرنے کے لیے عطا کی گئی ہے۔

قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اہلِ تقویٰ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ دنیا میں اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہیں گزارتے بلکہ ہر لمحے اپنے عقل و شعور کا استعمال کرتے ہیں، اس وسیع و عریض کائنات میں ہر سُو بکھری ہوئی اﷲ کی نشانیوں پر غور و تدبر کرتے رہتے ہیں اور یہ غور و فکر اس کائنات ِ رنگ و بُو میں اپنی حیثیت اور اپنے مقام کا عرفان بھی عطا کرتا ہے۔ اسی طرح روزہ انسان کی سیرت و کردار میں تقویٰ کی آب یاری کا بہترین ذریعہ بھی بنتا ہے ، لیکن اس روزہ کو محض دکھاوے اور رسم و رواج کے طور پر نہ رکھا جائے۔

یہاں یہ بھی ایک مقام فکر ہے کہ روزوں کے لیے ماہِ رمضان ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا، اس میں کیا حکمت و مصلحت ہے؟ تو اس گتھی کو بھی سورۃ البقرہ میں سلجھا دیا گیا۔ مفہوم: ''رمضان وہ مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور یہ ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں، لہٰذا اب تم میں سے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ اس (پورے مہینے) کے روزے رکھے۔''

اس آیت مبارکہ میں کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ روزوں کے لیے رمضان کے مہینے کا انتخاب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ نزولِ قرآن کا عظیم الشان مہینا ہے۔ اور اس مقدس و مبارک مہینے میں روزوں کی فرضیت کا اہم مقصد اور اس کی غرض و غایت امت مسلمہ کے اندر روحانی پاکیزگی، ترفع اور کردار و عمل کی فکری بلندی پیدا کرنا ہے۔ روزے جیسی عبادت سے گزر کر بھی اگر انسان کی روح شاد کام نہ کوئی تو یہ روزہ نہ ہوا بلکہ اس کی کیفیت وہی ہوگی جس کا نقشہ رسول مکرم ﷺ کے اس فرمان مبارک میں کھینچا گیا ہے، مفہوم: ''کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کے پلے اس مشقت سے رت جگے کے سوا کچھ نہیں پڑتا۔'' (الدارمی)

ایک اور حدیث مبارکہ کے الفاظ یوں ہیں، مفہوم: ''جس شخص نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اﷲ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔'' (رواہ البخاری، ابوداؤد و الترمذی)

سیرت دراصل ان تصورات سے بنتی ہے جو شعور خفی میں پیوستہ ہوتے ہیں۔ شعور کی گہرائی میں جو تصور اتر جاتا ہے وہی حقیقت میں مستحکم ہوتا ہے اور اسی سے مستقل فضائل اور اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ اسلام چوں کہ صرف عقائد و عبادات ہی کا داعی نہیں ہے بلکہ وہ پوری انسانی زندگی کی تنطیم، خدا پرستی اور روحانیت و مادیت کے صحیح توازن کی بنیاد پر کرنے کا علم بردار ہے۔ یہ انسانی عقل اور شعور ذات ہی ہے جس سے انسان رشد و ہدایت اور گم راہی و ضلالت کے درمیان فر ق کرسکتا ہے۔

عقل کا یہ جوہرِ لطیف نہ ہو تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ عقل انسانی ہدایت کے لیے ایک وسیلہ ہے اسی سے وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے اور دینی نظام کے عمل سے متعارف ہوتا ہے۔ خدا ہماری نظروں کے دائروں سے اوجھل ہے مگر اس کی تمنا نے اسے ہمارے اندر موجود بنا رکھا ہے، اﷲ کی یہ شان ہے کہ وہ دکھائی نہ دے تب بھی ہمارے شعور و ادراک میں موجود رہتا ہے۔

انسان جب مادیت کی سطح سے بلند ہوکر اپنی عبادتوں، ریاضتوں اور اپنے معاملات میں تقویٰ کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کے وجود میں روحانیت بیدار ہونے لگتی ہے، دنیوی لذتیں اور عیش و نشاط کی حلاوتیں نیم جان ہوجاتی ہیں اور اس کی بے چین و بے قرار روح کو آسودگی اور ایک احساسِ طمانیت حاصل ہوتا ہے اور یہ وہ زادِ راہ ہے جو اس بھٹکے ہوئے انسان کو اپنے رب اور اپنے تخلیق کار کے بہ تدریج قریب کرتا جاتا ہے۔

تقویٰ ہی وہ قصد السبیل ہے جو اسے تقربِ الٰہی تک پہنچاتی دیتی ہے۔ روزہ میں تقویٰ کی روح اپنے پورے تقاضوں کے ساتھ کار فرما ہوتی ہے اور اس عبادت کو نیک نیتی، اخلاص اور خود احتسابی کے عمل کے ساتھ پورا کرنے پر اﷲ سبحانہ تعالیٰ کا حقیقی قرب حاصل ہوجاتا ہے اور یہی انسان کی قدر و منزلت کی معراج ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں