73ء کا آئین بھٹو کا وہ کارنامہ جسے مخالفین بھی مانتے ہیں
یہ تاثر عام ہے کہ آئین کے آرٹیکل۔6 کے خوف سے جنرل ضیاء الحق نے سابق وزیر اعظم کو پھانسی دلوائی
آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی پر خصوصی معلوماتی تحریر۔ فوٹو : فائل
بقیہ حصہ
اسی طرح اس میں دونوں ملکوںمیں اثاثوں کی تقسیم فوجی سازوسامان کی تقسیم اور انڈین سنٹرل بنک کا سرمایہ جو چار ارب روپے تھا اس کی تقسیم بھی تھی ۔14 اگست1947 ء کو پاکستا ن آزاد ہوگیا اور قائداعظم پہلے گورنر جنرل اور نوابزادہ لیاقت علی خان پہلے وزیر اعظم ہو ئے۔ ہمارا آئین 1935 ء کا قانون ِ ہند تھا۔
بھارت نے جلداپنا آئین بنا لیا مگر ہم 1956 ء تک اپنا آئین نہ بنا سکے، اس دوران جتنے بھی وزیراعظم اور دیگر حلف اٹھا تے رہے وہ اس قانون کے مطابق بادشاہ اور بعد میں ملکہ بر طانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھا تے تھے۔ اس دوران ہماری قانون ساز اسمبلی نے قرارداد ِ مقاصد بھی منظور کی، ون یو نٹ بوگرا فار مولہ بھی نا فذ العمل ہوا۔
مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست بھی ہوئی اور پھر اس شکست کے بعد شیر بنگال فضل حق کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر اسمبلی تحلیل کر کے گورنر راج بھی نافذ کیا گیا۔
1951 ء میں لیا قت علی خان کی شہادت کے بعد ملک غلام محمد نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا کر خود گورنر جنرل بن گئے اور پھر خواجہ ناظم الدین کو1935 ء کے آئین کے تحت ہٹا دیا اس کے بعد 1956 ء تک پہلے غلام محمد اور پھر اسکندر مرز یہی کرتے رہے۔
1956 ء میں وزیراعظم چوہدری محمدعلی نے آئین بنا دیا۔ ابھی اس آئین کے تحت ملک میں پہلے انتخاب ہو نے والے تھے کہ 7 اکتوبر 1958 ء کو صدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نا فذ کر دیا اور پھر فلیڈ مارشل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو بھی اقتدار سے فارغ کر کے اقتدار سمبھال لیا اور 1956 ء کا ایک ایوانی پارلیمانی آئین منسوخ کردیا۔
یوں 1956 ء کے بعد سے 1962 ء تک ملک آئین سے محروم رہا اور1962 ء میں صدر جنرل محمد ایوب خان نے عدلیہ کے تعاون اور ماہرین قانون سے مشاورت کے بعد 1962 ء کا صدراتی آ ئین نافذ کر دیا۔ اس صدرتی آئین میں بھی بوگرا فارمولہ کے تحت 1956 ء کے آئین کی طرح مغربی پاکستان کے مقابلے میںتقریباً 8% زیادہ آبادی اور 80 فیصد کم رقبے کے صوبے مشرقی پا کستا ن کو مغربی پاکستان کے برابر پارلیمنٹ میں نشستیں دینے کے اصول کو اپنا یا گیا۔
اس طرح مشرقی پا کستان کے عوام کو بھی اس پر اعتراض تھا اور مغربی پاکستان کو بھی، جہاں تمام صوبوں کو ملاکر ون یونٹ بنا دیا گیا تھا۔ یہاں پنجاب کے مقابلے سندھ ، خیبر پختونخوا، اور بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی بڑھنے لگا۔
صدرایوب خان کے صدارتی آئین میں صدر کے پا س امریکی صدر سے زیادہ اختیارات تھے لیکن جمہوری اقدار اور جوابدہی کا کو ئی قانونی اور اخلاقی طریقہ کار نہیں تھا اس آئین کے تحت ملک میں جمہوریت کی بجائے بنیادی جمہوریت کے تصور کو سامنے لا یا گیا اور انتخابات کا طریقہ کار یوں بنایا گیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں صوبوں میں چالیس ، چالیس ہزار بی ڈی ممبر ہوتے تھے۔
یعنی بنیادی جمہوریت کے اراکین میونسپل کمیٹی کے کو نسلر جتنے انتخابی حلقہ سے انتخاب میں شریک ہو تے تھے۔ انتخاب کے بعد یہی چالیس ،چالیس ہزار بی ڈی ممبر اپنے اپنے صوبے یعنی مشرقی پا کستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کرتے۔ پھر یہی اسی ہزار بی ڈی ممبران قومی اسمبلی کے اراکین کو منتخب کرتے اور یہی اسی ہزار اراکین پھر صدر کا انتخاب کرتے اور اس کے بعد اِن کا کردار ایک کو نسلر کا رہ جا تا۔ صدر پارلیمنٹ پر بھاری تھا اور اس کے اختیارت کوچیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اب جہاں تک تعلق صدر جنرل ایوب خان کا تھا تو وہ سابق کمانڈ ر انچیف اور چیف مارشل لا ایڈ مینسٹر بھی رہے تھے اور یوں اِن کے بعد جب جنرل محمد موسیٰ کمانڈر انچیف ہوئے تو اِن کی پوری سپورٹ بھی صدر ایوب خان کو تھی، یوں ایوب خان انتہائی طاقتورصدر مملکت تھے۔
1962 ء کے آئین پر ہی عوامی انقلابی شاعر حبیب جالب نے مشہور نظم کہی تھی ( ایسے دستور کو صُبح ِ بے نور کو میں نہیں مانتا۔ میں نہیں جا نتا) اور جب پہلی مرتبہ یہ نظم اُنہوں نے مری کے آل پاکستان مشاعرے میں پڑھی تو اُن کو گرفتار کر لیا گیا۔
اس دستور 1962 ء کے تحت انتخابات ہو ئے بعد میں بی ڈی ممبران کی تعداد کو دگنا کر دیا گیا تھا۔ جنوری 1965 ء میں صدارتی انتخابات میں صدر ایوب خان کے مقابلے میں قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کومتحد ہ حزب ِ اختلاف نے بطور صدارتی امیدوار کھڑا کیا اور اِن انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو شکست ہوئی۔
صدر ایوب خان پر مشرقی پاکستان اور کراچی میں اِن صدراتی انتخابات میں دھندلی کے الزامات عائد ہوئے۔ 1965 ء میں پا ک بھارت جنگ ہو ئی اور 1966 ء میں معاہدہ تاشقند پر وزیرِ خارجہ ذولفقار علی بھٹو اور ایوب خان کے درمیان اختلافات بڑھ گئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے استعفیٰ دے دیا اور پیپلز پارٹی کی تشکیل کے بعد صدر ایوب خان کی حکومت اور 1962 ء کے آئین کے خلاف اور پارلیمانی جمہوریت کے حق میں احتجاج شروع کیا جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا چلا گیا اور اس کے نتیجے میں 25 مارچ 1969 ء کو کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔
وہ 20 دسمبر1971 ء تک ملک کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈ منسٹیٹر رہے 16 دسمبر 1971 ء کو مشرقی پا کستان ، بنگلہ دیش بن گیا ، جیسا کہ میں نے آغاز میں لکھا کہ اگر 1970 ء میں ہمارے پاس کو ئی آئین ہو تا تو ہمارا ملک دو لخت نہ ہو تا۔ 25 مارچ 1969 ء کو مارشل لا نافذ کر نے کے بعد یٰحیی خان نے 1962 ء کا صدراتی آئین منسوخ کردیا تھا اور1970 ء کے انتخابات کے لیے LFO لیگل فریم ورک آڈر جاری کیا تھا۔
انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی اور اس کے بعد لیگل فریم ورک آڈر کے تحت قومی اسمبلی بلوانے اور 90 دن کے اندر ملک کے لیے نئے آئین بنانے کے مسائل الجھتے ہی گئے۔
بھٹو کا موقف یہ تھا کہ شخ مجیب الرحمن مغربی پا کستان میں اکثریت حاصل کر نے والی پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کا خیال رکھیں اور ساتھ ہی قومی سلامتی کے پیش نظر اپنے چھ نکات میں سے تین نکا ت سے دستبردار ہو جا ئیں یا صدر ایل ایف او میں 90 دن کے اندر آئین بنانے کی مدت کو ختم کر دیں مگر اسی دوران تاخیر کی وجہ سے معاملات الجھتے گئے اور مشرقی پا کستان میں فوجی ایکشن لینے کی وجہ سے بھارت کو پا کستان پر فوج کشی کا موقع مل گیا۔
جب بھارت سے جنگ جاری تھی تو اس دوران بھٹو کو فوری طور پر وزیر خارجہ بنا کر اقوام متحدہ بھیجا گیا تھا جہاں سے وہ واپس آئے تو 20 دسمبر 1971 ء کو اُنہیں فوری طور پر صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر اقتدار اُن کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ اس لیے تھا کہ اُس وقت ملک میںآئینی خلا تھا اس لیے مارشل لا ہی کے قوانین کے تحت بھٹو نے نظام حکومت چلا یا اور پھر ذولفقار علی بھٹو نے 1972 ء میں عبوری آئین بنا کر فروری میں ملک سے مارشل لا کا خاتمہ کر دیا اور خود وزیراعظم بن گئے۔
چوہدری فضل الہی کو صدر بنایا گیا۔ بھٹو نے اپنے دیرینہ ساتھی عبدالحفظ پیر زادہ اور دیگر قانون دانوں کے ساتھ مل کر دن رات محنت کرکے 1973 ء کا پارلیمانی آئین 10 اپریل 1973 ء کو بنا دیا اور اس کو 14 اگست 1973 ء کو نافذ کر دیا۔ 1973 ء کے تحت یہ دو ایوانی پارلیمانی نظام تھا ایوان بالا یعنی سینٹ اورایوان زرین یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیاں تھیں ، اس آئین کے بنانے میں بھی بہت احتیاط سے کام لیا گیا تھا۔
اگست 1945 ء میں جب اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا تو اس کے یواین چارٹر اور بعد میں ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے حوالے سے کچھ بنیادی اور انسانی حقوق اِس چارٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلریشن میں شامل ہیں اِ ن کو دنیا کے ملکوں نے اپنے تہذیبی ، تمدنی ، ثقافتی ، اخلاقی اور مذہبی بنیادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے شقیں شامل کی ہیں۔
ہمارے آئین 1973 ء میں شق 7 سے28 تک اِن بنیادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ 1973 کا ہمارا یہ آئین دنیا کے بہترین اور متوازن دساتر میں شمار ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا کمال یہ تھا کہ اُنہوں نے اس آئین پر تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دے کراتفاق رائے سے اس آئین کو منظور کر وایا ،اس کے لیے اُن کے سامنے مشکل یہ تھی کہ پا کستان پیپلز پارٹی کا منشور اسلامی سوشلزم کی ترجمانی کرتا تھا اورر بھٹو خود بھی ایک لبرل مسلمان تھے۔
اس لیے مذہبی جماعتوں کو 1973 ء کے آئین کے مسودے پر آماد کر کے دستخط کروانا مشکل تھا۔ چونکہ پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی اس لیے اکثر لوگوںکا خیال تھا کہ وہ شائد حزب اختلاف اور خصوصاً مذہبی جماعتوں کی باتیں تسلیم کر نے کے بجائے اپنی دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر آئین بنا کر نافذ کر دیں گے مگر اُنہوںنے ایسا نہیں کیا۔ وہ یہ جا نتے تھے وہ ایک ایسا آئین بنا رہے ہیں جو طویل عرصے تک ملک میں نافذ العمل رہے اس لیے اُنہوں نے اپنی انا کو بالاطاق رکھتے ہوئے مذہبی جماعتوں کے اُن نکات کو تسلیم کیا۔
جن کا مقصد دین اسلام کی سر بلندی اور نظریہ پاکستان کی بالادستی تھا۔ یوں تما م سیاسی جماعتوں کی جانب سے 1973 ء کے آئین کو متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ۔ 1973 ء کے آئین میںملک کانام اسلامی جمہوریہ پا کستان ہے جس میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور وزیراعظم اور دیگر اہم عہداران اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے بخشی ہوئی امانت سمجھتے ہو ئے استعمال کر یں گے۔
وزیر اعظم کا مسلمان ہو نالازمی قرار پایا اسلام کے منافی قوانین کو رد کر نے اور اسلا م کے مطابق بنا نے کے لیے اسلامی شریعت کو نسل کا قیام عمل آیا بھٹو کے دور اقتدار میں آئین میں سات ترامیم ہو ئیں جس میں پہلی ترمیم میں بنگلہ دیش کے بن جا نے کے بعد پا کستان کے نقشے میں اور اِس کی سرحد وں کی وضاحت کی گئی اور مشرقی پا کستان کا لفظ حذف کر دیا گیا۔
بھٹو عہد کی دوسری اورسب سے اہم آئینی ترمیم وہ تھی جس میں مرزائیوں ، قادنیوں ،احمدیوں کو اقلیت قراد دیا گیا اور مسلمان کی تعر یف آئین میں واضح کر دی گئی ( اور کہا گیا کہ ایسا شخص مسلمان ہے جو اللہ واحد لاشریک ہو نے پر اور حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہو نے پر ایمان رکھتا ہو ) اس آئین میں اختیارات کے اعتبار سے سب سے سپریم ادارہ پارلیمنٹ کو قرار دیا گیا ہے۔ یہی مقننہ قانون سازی کر تی ہے دوتہا ئی اکثریت کے ساتھ 1973 ء کے اس آئین میں ترمیم کر نے کا حق رکھتی ہے بلکہ اگر چاہیے تو دو تہائی اکثریت کے ساتھ نیا آئین بھی بنا سکتی ہے۔
اکثرتی جماعت حکومت بناتی ہے اور اسی طرح اس کے مقابل حزب اختلاف ہو تی ہے۔ صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں صوبوں کی نما ئندگی آبادی کی بنیاد پر ہے جب کہ سینٹ میں نمائندگی چاروں صوبوں کی یکساں ہے ،یہ آ ئین جو لا ئی 1977ء تک کافی حد تک جمہوری انداز میں نافذالعمل رہا اس کے بعد ملک میں آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے مارشل لا نافذ کر دیا اور اگر چہ آئین منسوخ نہیں کیا مگر اس کو معطل کر دیا پھر پھر بہت سی تبدیلیاں آئین میں کی گئیں۔
1985 ء میں جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی اور وزیراعظم محمد خان جونیجو نے وہ تمام تبدیلیوں جو صدر ضیا الحق نے 1977 ء سے 1985 ء تک کی تھیں اِ ن کو قانونی طور پر قومی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے 11 نومبر 1985 ء کو اس آئین میں ترمیم کی صورت شامل کرلیں۔
1973 ء کا یہ آئین اِس 8 ویں ترمیم کے بعد مکمل پارلیمانی آئین سے نیم صدارتی آئین میں تبدیل ہو گیا۔ اسی ترمیم میں 1935 ء انڈیا ایکٹ کی وہ شق بھی شامل کردی جس کے تحت گورنر جنرل کو یہ اختیار تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے وزیر اعظم اور اُس کی حکو مت کو برخاست کرسکتا تھا ۔ اب یہ اختیار صدر کو مل گیا تھا۔
اس کے بعد 1997 ء میں مسلم لیگ ن کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثر یت ملی تو وزیر اعظم نوازشریف نے دیگر جماعتوں کی حمایت سے 13 ویں آئینی ترمیم کر دی جس کے تحت صدر پاکستان کے اس اختیار کو ختم کردیا گیا کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کرکے حکو مت کو برخاست کر سکے ۔ اکتوبر 1999 ء میں ایک بار پھر وزیر اعظم کو برخاست کرکے منتخب حکومت کو ختم کر دیا گیا اور اسمبلی تحلیل کردی گئی۔
آرمی چیف جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آگئے اور پھر 2002 ء میں انتخابات کے بعد2003 ء میں آنے والی پارلیمنٹ نے 17 ویں آئینی ترمیم کر کے پرا نی8 ویں ترمیم کو ختم کر دیا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد 2008 ء کے الیکشن ہو ئے اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بنے جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری منتخب ہو ئے۔ 8 اپریل 2010 ء کو ہونے والی 18 ویں ترمیم کے ذریعے ایک بار پھر پارلیمان کو تحلیل کر نے کا اختیار صدر سے واپس لے لیا گیا مزید یہ کہ وسیع بنیادوں پر صوبائی خود مختاری بھی دی گئی۔ 2013 ء کے انتخابات تک 20 ویں ترمیم ہوئی۔
انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی۔ مئی 2018 ء تک 25 ویں آئینی ترامیم ہو ئیں ، 2018 ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی مگر اس کے پا س دو تہائی اکثریت نہیں تھی اور نہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے کسی آئینی ترمیم کے لیے تحریک انصاف سے رابطہ یا تعاون کیا ، یوں آج ہمارا 1973 ء کا یہ آئین 50 برس کا سفر طے کرچکا ہے ( یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ) اسی طرح سینٹ کا ایوان بھی اپنی 50 ویں سالگر ہ منا رہا ہے۔
اس گولڈن جو بلی کے دوران ہمارا یہ آئین آمریت کے ادوار میں زخمی بھی ہو تا رہا اور اس میں پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور منتخب وزرا عظم کو برخاست کرنے کے اختیارات صدور کو دئیے جا تے رہے اور پھر منتخب پارلیمنٹ اس غیر جمہوری اختیارات کو ترامیم کر کے واپس بھی لیتی رہیں اس لیے بھٹو کا دیا ہو ایہ آئین آج بھی برقرار ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ اب بھی تمام جماعتیں اس آئین پر متفق ہیں مگر 1973 ء کے آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر جو غالباً10 اپریل 2023 ء سے 14 اگست2023 ء تک منائی جائے گی بد قسمتی سے ایک بار پھر ملک میں آئینی بحران ہے۔
اگر چہ آج اس دستور کو بنانے والے اور اسے زخمی کرنے والے دونوں دنیا میں موجود نہیں ہیں مگر سیاسی جماعتیں اور قائد ین موجود ہیں جنہوں نے اس آئین کی حرمت اور صحت کو مختلف ادوار میں درست کیا اس لیے اُمید ہے کہ ہم جلد اس آئینی بحران سے ملک کو نکال لیں گے۔