دنیا دیوانی ہے یا ہم سرپھرے ہیں

دنیا کو کیا بتائیں کہ ہماری ترجیحات اس وقت کیا ہیں؟

ان عالمی اداروں کو خدا ہی سمجھے ، لگتا ہے انھیں کوئی کام دھندہ نہیں ہے یا پھر ہماری خبر گیری ہی ان کا دھندہ ہے۔

ہماری سیاست ہماری مرضی، ہماری معیشت ہماری مرضی۔ کہاں یہ کہ ہم پورا ملک آج کل اس تجزیاتی کمال پر ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں بلکہ سپریم کورٹ کے انتظامی طریقہ ہائے کار پر ڈگری یافتہ قانون دانوں سے کہیں آگے کی نکتہ دانیوں اور نکتہ آفرینیوں کے دبستان لکھ رہے ہیں، اور کہاں یہ کہ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یو این ڈی پی دھڑا دھڑ رپورٹیں جاری کر کے کہ ' پاکستان فلاں میدان میں پیچھے رہ گیا، فلاں دوڑ میں لغزیدہ قدم ہے' کہہ کر ہمارے منہ کا مزہ کرکرا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

آئی ایم ایف کے قرض کی قسط کی شدید طلب نے مروت سے باندھ رکھا ہے ورنہ ہم ان اداروں کو منہ توڑ جواب دیتے کہ ہمارا ملک ہماری مرضی!

قوم سپریم کورٹ میں بنچ کی تعداد کے رموز و اثرات پر ہلکان ہورہی ہے۔ فیصلہ تین رکنی بنچ نے سنایا جو متفقہ تھا لیکن حکومتی حساب کتاب کے مطابق اصلاً یہ فیصلہ تین چار کا ہوا ہے جو کہ حکومت کے موقف کی جیت ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے مطابق '' تین ہی بہت ہیں ''۔

اس دوران ایک اور بنچ نے بھی فیصلہ سنایا کہ سوموٹو بنتا ہی نہیں تھا لہٰذا ایسی تمام شنوائیاں فوراٌ بند کر دی جائیں۔

ایک سرکلر کے ذریعے چیف نے اس فیصلے پر انتظامی اسپیڈ بریکر لگا دیا۔ حکومت نے رات گئے فیصلہ کیا کہ حسب حکم عدالت رجسٹرار واپس اپنی وزارت میں ٹرانسفر سمجھیں۔ ابھی اس اعلان کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ چیف نے تبدیلی کے اس پروانے کے پر کاٹ دیے۔

اس قدر دلچسپ اور ہر لمحہ بدلتی ہوئی سنگین کیفیت میں مصروف قوم کو سر کھجانے کی فرصت ہے نہ سیاستدانوں اور میڈیا کو کچھ اور سوجھ رہا ہے لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک باز نہیں آیا۔ گو کسی نے لکھ تو نہیں دیا کہ پپو سانوں تنگ نہ کر مگر ایشیائی بینک نے عین سسپنس بھرے ان دنوں اپنی رپورٹ پاکستان ڈیویلپمنٹ اپ ڈیٹ 2023 جاری کرکے ہمیں تنگ ہی تو کیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کی 6%شرح نمو کم ہو کر اس سال فقط 0.4% رہنے کا امکان ہے۔ وجوہات اس کمی کی یہ بیان ہوئیں ؛ سیاسی عدم استحکام، سیلاب سے ہونے والے نقصانات، فارن ایکسچینج کا جاری بحران اور کٹھن بیرونی ماحول وغیرہ۔

اس رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی قیمتوں اور معاشی مسائل کی وجہ سے عوام کی قوت خرید اور آمدن میں کمی کے نقصانات سے تحفظ کا کوئی سماجی پالیسی فریم ورک موجود نہیں۔ اس پس منظر میں لوئر مڈل انکم غربت کی شرح میں سال 2023 کے دوران 37.2% اضافے کا امکان ہے ، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال لگ بھگ مزید چالیس لاکھ لوگ غربت کے حصار میں جکڑے جائیں گے۔


اب دنیا کو کیا بتائیں کہ ہماری ترجیحات اس وقت کیا ہیں؟ ہم لوگ تو اس جذبے کے جانشین ہیں کہ جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آئے، اس رزق سے موت اچھی ۔ یہ رپورٹ ہمیں کیا ڈرائے گی کہ مزید چالیس لاکھ خطِ غربت میں جا سکتے ہیں جب کہ ہمارے ایک رہنما کا جذبہ پکار رہا ہے کہ سیاسی لڑائی کے نتیجے میں ڈالر پانچ سو روپے بھی ہوجائے لیکن مخالفت مشن ادھورا نہیں چھوڑنا۔ ان کے مخالف فریق کا بھی یہی جذبہ ہے کہ میدان نہیں چھوڑنا چاہے جو بھی ہو۔

اب ایسی صورت حال میں جب قوم کے مسیحا اپنی اپنی اہم مہمات میں شبانہ روز ہلکان ہیں UNDPہمارا دامن کھینچ کھینچ کر بتانے کے درپئے ہے کہ حضور آپ کی یہ مصروفیات اپنی جگہ مگر اس دوران میں پاکستان ہیومن کیپیٹل انڈکس میں مزید نیچے لڑھک گیا ہے۔ پاکستان کا اسکور 0.41 ہے جو ہر لحاظ سے بہت کم اور مایوس کن ہے۔

اس اسکور کا تقابل اگر جنوبی ایشیاء کے ممالک کے ساتھ کریں تو یہ سب سے کم ہے ۔ جنوبی ایشیاء کا اوسط اسکور 0.48 ہے جہاں بنگلہ دیش کا اسکور 0.46 ہے اور نیپال کا 0.49 ہے۔

اس رپورٹ میں تو اور بھی پریشان کن نکات ہیں مثلاٌ دس سال تک کے بچے تعلیمی سکت میں کمی یعنی learning poverty کا شکار ہیں کہ وہ اپنی عمر کے مطابق سادہ کہانی تک پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اور یہ بھی کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے 40% جسمانی بڑھوتری میں پیچھے ہیں یعنی stunted ہیں ۔

رپورٹ اس بات کا اعادہ کرنا نہیں بھولی کہ اسکول جانے کے عمر کے باوجود دو کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

خلاصہ ان اعدادوشمار کا یہ توجہ دلانا ہے کہ جس نوجوان اکثریت یعنی youth bulge کا ہم ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اس کے خدوخال کچھ یوں ترتیب پا رہے ہیں جو بجائے خود ایک خوفناک بحران کی تیاری کی وارننگ ہے۔

اب یو این ڈی پی کو کون بتلائے کہ خدا کے بندو، اس وقت نقار خانے میں یہ طوطی کوئی بھی سننے کو تیار نہیں۔ اس وقت حکومت کی ترجیح مفت آٹا تقسیم پروجیکٹ ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں اس ملک میں غرباء اور مالی امداد کے حق داروں کا ایک وسیع ڈیٹا بیس موجود ہے۔

گزشتہ حکومت نے احساس راشن پروگرام کے تحت اس ڈیٹا بیس کو مزید بہتر اور وسیع کیا ، تاہم مفت آٹے کی تقسیم میں جاری بد نظمی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے پہلے سے موجود ڈیٹا بیس اور سسٹم کو نظر انداز کرکے نیکی برباد گناہ لازم کرنا مناسب سمجھا۔ بھگدڑ اور بد نظمی کی نذر درجن بھر زندگیاں الگ قربان ہوئیں۔

دنیا ہمیں سمجھانے کے درپئے ہے کہ ہماری توجہ غربت کم کرنے اور ہیومن کیپیٹل ڈیولیپمنٹ کی طرف نہیں ہے لیکن دنیا کو کون سمجھائے کہ ہماری توجہ ' جہاں ' ہے وہاں اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ یہ سب دیکھ کر سوال ذہن میں آتا ہے کہ یا تو دنیا دیوانی ہے یا ہم سرپھرے ہیں!
Load Next Story