دستور ساز اسمبلی کی حیثیت سے پارلیمان کا اقتدار اعلیٰ اور 1973 کے آئین کی تشکیل
تمام تنازعات اور اختلافات کے باوجود آئین کی تشکیل کو پارلیمان کی نمایاں ترین کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے
کسی بھی ادارے کے اقتدار اعلیٰ سے مراد اس ادارے کی طرف سے کسی بھی بیرونی دباؤ سے آزاد ہو کر فیصلے کرنا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ، اقتدار اعلیٰ کے ذریعے یہ ادارہ ریاست کے دیگر اداروں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیتا ہے۔ قومی اسمبلی نے 1972سے 1973تک اپنے ابتدائی دور میں بے حد فعال اور ریاست پاکستان جو اس وقت 1971کے صدمے کے اثرات سے باہر نکل رہی تھی ، کا نمایاں ترین ادارہ رہا۔ یہ 1970 کے انتخابات کے نتیجہ میں منتخب ہونے والی پاکستان کی پانچویں قومی اسمبلی کا ابتدائی دور بھی تھا۔قومی اسمبلی جواس وقت پاکستان کی ایک ایوان پر مشتمل پارلیمنٹ تھی۔
وہ سیاسی اور قانونی دونوں لحاظ سے اتنی خود مختار تھی کہ اس نے سرکاری پالیسی اور اداروں کی تشکیل کے شعبہ سے میں تخلیقی اقدامات کئے۔پاکستان کی پوری تاریخ میں سے اس دور میں ہم نے غیر منتخب اداروں پر پارلیمان کی حقیقی اور قانونی دونوں لحاظ سے واضح برتری کا مشاہدہ کیا۔ دستور سازی کا کام جو ارکان پارلیمان نے اسمبلی کے اندر پایہ تکمیل تک پہنچایا یا اسمبلی سے باہر سمجھوتے کئے گئے ،یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔
توقع یہ تھی کہ مشرقی حصے کی علیحدگی کے بعد نئے پاکستان کو دستور سازی میں کوئی خاص مشکلات یا مسائل درپیش نہیں ہوں گے۔ لیکن بنگلہ دیش کے برعکس1972-73میں پاکستان میں دستور سازی ایک پیچیدہ کام ثابت ہوا جس میں حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اسمبلی کے اندر اور باہر شدید مناقشے ہوئے۔وہی پرانے اور پیچیدہ مسائل جن کا سامنا پاکستان میں دستور سازوں کو درپیش رہا تھا، پھر سامنے آئے۔
ان میں اسلامی دستور کی تفصیلات پر تنازعہ، مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم، پاکستان کے لئے موزوں انتظامیہ جیسے مسائل شامل تھے۔
ان تمام پرانے مسائل پرملک کے دولخت ہونے کے بعد طویل اور گرما گرم مباحثے ہوئے جب پاکستان کی بقا کے لئے ملک میں اتحاد کی ازحد ضرورت تھی۔
اسلامی ریاست پر تنازعہ ، ایک ایسا مسئلہ جس کا ایک طویل ریکارڈ تھا، نے اس وقت ایک ڈرامائی موڑ لیا جب سیکولر نظریات رکھنے والے بنگالی اسمبلی میں موجود نہیں تھے اور ملک کے مغربی حصے میں موجود مذہبی عناصر ، اگرچہ ان کو 1970کے عام انتخابات میں شکست ہو چکی تھی، اسلامی اقدار اور روایات کے تحفظ کے لئے ایک بہادرانہ جدو جہد کے لئے متحد ہو گئے۔
اس اسمبلی نے خودمختاری کے ساتھ آئین تشکیل دیا اور یہ اس اسمبلی کا تقریباً ایسااتفاق رائے سے ہونے والا کام تھا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کے اتفاق سے ایک آئین تشکیل پا گیا۔ آخر کا ر 2 فروری 1973کو وزیر قانون نے دستور کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جہاں اس پر 17فروری تک بحث ہوئی اور10اپریل 1973کو اسے منظور کر لیا گیا۔اس وقت قومی اسمبلی نے دستور ساز اسمبلی کی حیثیت سے نئے مستقل آئین کی ایک ایک شق کا جائزہ لینا شروع کیا۔
مسودہ آئین 278شقوں اور چھ شیڈولز پر مشتمل ہے۔ اس کے لئے کمیٹی کے کل 48 اجلاس ہوئے ، مجموعی طور پر 38 ایام کار کے دوران 175گھنٹے کام کیا گیا۔
اجلاسوں کے دوران ارکان کی اوسط حاضری 25 میں سے 18 رہی۔غور و فکر کے دوران کمیٹی نے متفقہ فیصلوں تک پہنچنے کی ہرایک کوشش کی اورجہاں تک ممکن ہو سکا آزادانہ اور کھلے ماحول میں اختلاف رائے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔
پاکستان کے مستقل آئین کے مسودے کی تیاری میں کمیٹی کے ارکان نے پاکستان میں معروضی حالات اور حقائق کو کماحقہ مد نظر رکھا۔ انہوں نے پاکستان کے لئے بنیادی قانون تجویز کرنے میں اللہ اور انسانوں کی طرف سے عائد ذمہ داریاں پوری کیں جس سے نہ صر ف ایک ترقی پسند اور مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل میں مدد ملنا تھی بلکہ اس نے ہر قسم کے استحصال سے بھی موثر تحفظ فراہم کرنا تھا۔
ایک سال کے اندر نئے آئین کی تشکیل اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے اس کی منظوری اور پھر اسمبلی سے اس کی متفقہ منظوری حکومت، خاص طور سے بھٹو اور ان کے وزیر قانون و پارلیمانی امورعبدالحفیظ پیرزادہ کے لئے کسی بھی لحاظ سے ایک بڑی کامیابی تھی۔
پارلیمان کی مضبوطی کے لئے حزب اختلاف کے تعاون کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے آئین کی تشکیل میں پارلیمان کے ادارے کے ساتھ تعاون جاری رکھا۔
یہ آئین تین امور پر اتفاق کا اظہار تھا؛ یہ امور سیاست میں اسلام کا کردار، وفاقی حکومت اور وفاق میں شامل صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور صدر اوروزیر اعظم کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم تھے۔
تمام تنازعات اور اختلافات کے باوجود آئین کی تشکیل کو پارلیمان کی نمایاں ترین کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پارلیمان کی طرف سے آئین کی منظوری نے پارلیمان کی طاقت کے امکانا ت کو بڑھا دیا۔ آئین کی تشکیل کے دوران اور خاص طور سے اس کی منظوری کے دن اسمبلی کے ایوان کی راہداریوں میں ہونے والی سرگرمیوں نے یہ طے کر دیا کہ اس عمل میں مرکز نگاہ پارلیمان ہی تھی ، کوئی اور ادارہ نہیں۔جب حکمران جماعت کی کوششوں سے حزب اختلاف کی رائے کو اس میں شامل کیا گیا تو اسمبلی کے ہر ایک رکن کی اہمیت اجاگر ہو گئی۔
آئین کے بل کو رائے شماری کے لئے پیش کیا گیا اور اسے 125 ارکان کی حمایت سے منظور کیا گیا جبکہ تین ارکان( محمود علی قصوری، احمد رضا قصوری اور شاہ احمد نورانی ) نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اس موقع پر وزیر قانون نے تحریک پیش کی کہ یہ اسمبلی اس عز م کا اظہار کرتی ہے کہ نیشنل میوزیم میں رکھنے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین پر تمام ارکان کے دستخط کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔
بعد ازاں آئین کی تاریخی دستاویز پر دستخط کرنے کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں 137ارکان نے آئین کے اصل مسودے پر دستخط کئے۔آٹھ ارکان اسمبلی جنہوں نے آئین کی منظوری کے لئے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا ، نے بھی آئین کی منظوری کے لئے دستخط کئے۔
اس سے یہ حقیقت ثابت ہو گئی کہ آئین کی منظوری میں اختلافات نہ ہونے کے برابر تھے۔تاہم آٹھ ارکان دستخطوں کے حوالے سے دستاویز سے علیحدہ رہے۔ ان میں علی احمد تالپور، عبدالحمید جتوئی، عبدالخالق، محمد علی قصوری ، احمد رضا قصوری، مخدوم نور محمد ، نواب خیر بخش مری اور عبدالحئی بلوچ شامل تھے۔
حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے آئین کی متفقہ منظوری کو اپنی معجزانہ خوش قسمتی تصور کیا۔یہ پانچواں مسودہ آئین تھااور بغیر کسی مخالف ووٹ کے منظور کیا جانے والا تیسر اآئین تھا۔ اس سوال پر کہ حکومت کی طرف سے غیر مناسب سلوک کے باوجود حزب اختلا ف نے آئین ساز ی میں حکومت سے کیوں تعاون کیا ، کے جواب میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی رائے میں آئین کے معیار کا سہرا آئین سازی اوراس کی منظوری میں حزب اختلاف کی شرکت کے سر ہے۔ اگر حز ب اختلاف دستورسازی میں مثبت اور متحرک کردار ادا نہ کرتی تو یہ ایک متنازعہ دستاویز رہتی۔ اس موقع پر حزب اختلاف نے اعلان کیا کہ انہوں نے آئین کے مسودے پر دستخط ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے کئے۔
دو دن بعد 12اپریل 1973 کو صدر نے آئین کی توثیق کردی۔ 14 اگست کو پاکستان کے یوم آزادی پر آئین نافذ ہو گیا۔ بھٹو نے وزیر اعظم بننے کے لئے اپنا عہدہ چھوڑ دیا اور قومی اسمبلی کے سپیکر چوہدری فضل الہی صدر پاکستان منتخب ہو گئے۔اس طرح پاکستان نے صدر ایوب کا متعارف کرایا گیا صدارتی نظام ترک کر دیا اور پارلیمانی روایت کی طرف پلٹ آیا جس کی مثال برطانیہ نے قائم کی تھی۔
نئے آئین کا نفاذ پاکستان کی تاریخ میں کئی لحاظ سے اہم موڑ ثابت ہوا۔ پہلی بار آئین کی تشکیل ملک کے منتخب نمائندوں نے رائے عامہ کے مطابق کی تھی۔یہ کہا جاتا ہے کہ 1973 کے آئین نے پاکستان کے طویل عرصہ سے حل طلب مسائل، خاص طور سے جو صوبوں اورمرکزکے درمیان تھے، حل کردیئے لیکن یہ خام خیالی تھی۔ مقابلتاً 1973کے آئین کو یہ امتیازی وصف حاصل تھا کہ اسے عوا م کے منتخب نمائندوں نے تشکیل دیا تھا۔اس کی بنیاد اتفاق رائے تھی اور اس نے تمام صوبو ں پر مشتمل وفاق کے قیام کے لئے اور انتخابات کی بالغ نظری پر مبنی بنیاد مہیا کر دی۔
نئے قانون کے نفاذ پر ملک گیر تقریبات منعقد ہوئیں۔ اپریل کی 12اور13کو سرکاری تعطیلات قرار دیا گیااور پاکستان کے بیرون ملک مشن بھی ان ایام کے دوران بند رہے۔ ملک بھر میں سرکاری کارکنوں کو دو دن کی بمعہ تنخواہ چھٹی دی گئی۔
ان قومی تقریبات کے دوران صدر ذوالفقار علی بھٹونے لاہور اور کراچی کے دورے کئے اور علامہ اقبال اور قائد اعظم کے مزارات پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں۔ اسمبلی کی اس شاندار کارکردگی نے بھٹو کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس پر فخر کریں اور اس کا اس طرح کریڈٹ لیں جیسے یہ ان کا ذاتی کارنامہ تھا۔بھٹو کی سوانح عمری کے مصنف سٹینلے وولپرٹ نے اس کامیابی پر لکھا کہ ذلفی کو یہ خوشگوار امید تھی کہ ان کی اب تک کی یہ شاندار سیاسی کامیابی ان کو طویل عرصہ تک اقتدار میں رکھے گی ، وہ یہ سوچ کر خوش تھے کہ کم از کم دس سال تو وہ اقتدار کے مزے لیں گے۔
بھٹو کا یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں تھااور بھٹو کے اس دعوے کی تائیدکے باوجود پارلیمان کی اس کامیابی کی اہمیت کم نہیں ہو سکتی۔ اس کے برعکس اس سے اس نظریئے کو تقویت ملتی ہے کہ بھٹو نے آئین کی تشکیل اور اس کی منظوری کے لئے اسمبلی کو طاقتور بنایا اور پارلیمنٹ کی مدد نے بھٹو کے لئے یہ ممکن بنایا کہ وہ اس کام کا کریڈٹ لے سکیں جو اسمبلی نے کیا تھا۔ 1973 کا آئین قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کی مصالحت سے منظور ہوا تھا۔ بلا شبہ کوئی بھی آئینی دستاویز مثالی قرار نہیں دی جا سکتی۔
یہ مختلف سیاسی جماعتوں اور آئین ساز ادارے میں موجود مختلف قوتوں کے درمیان مصالحت کا نتیجہ تھا۔پارلیمان کی طرف سے منظور کئے جانے والے آئین کو ملک کے کونے کونے سے سراہا گیا۔ تقریباً تمام اخبارات نے پاکستان کے منتخب نمائندوں کے اس شاندارکارنامے کی بھرپور تعریف کی۔ 11اپریل کو تمام اردو اور انگریزی اخبارات نے قومی اسمبلی کی طرف سے آئین کی منظوری کی خبریں نمایاں انداز میں شائع کیں۔
ملک کے نائب صدر نورالامین جن کا تعلق دو سال قبل علحدہ ہونے والے حصے مشرقی پاکستان سے تھا ،نے علیحدگی کے پس منظر میں ملک کی تعریف کی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ آئین کی منظوری سے ملک کی مزید تقسیم کے امکانا ت معدوم ہو گئے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اسمبلی آئین کی تشکیل کے قابل نہ ہوتی تو ملک کی مزید تقسیم کے خطرات موجود تھے لیکن اسمبلی نے ان خطرات کا بروقت خاتمہ کر دیا۔جہاں تک مذکورہ بالا دور میں اسمبلی کے اقتدار اعلیٰ کا تعلق ہے ، یہ نتیجہ باآسانی اخذ کیا جا سکتاہے کہ کم از کم پاکستان کی تاریخ کے اور خود اپنے اس نتیجہ خیز دور میں اسمبلی نے خود کو ایک خودمختار ادارہ ثابت کیا۔
اس اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کی جو امنگیں تھیں ، ان کو پورا کرنے میں یہ اسبملی کامیاب رہی۔ حتیٰ کہ حزب اختلاف کی خواہشات کا بھی بڑی حد تک احترام کیا گیا۔ یہ اسمبلی اس لحاظ سے بھی حقیقی معنوں میں ایک کامیابی تھی کہ اس نے اپنے بنائے گئے آئین میں ریاست پاکستان کے تمام اداروں کی قسمت کا فیصلہ کردیا۔یہ وہ اسمبلی تھی جس نے ریاست کے تمام اداروں بشمول انتظامیہ، فوج اور عدلیہ کو آئینی شناخت دی یہاں تک کہ خود ریاست نے اپنی خود مختاری اس وقت اس اسمبلی کی خودمختاری سے حاصل کی جب موخرالذکر نے آئین کی تشکیل کی اور اس کی منظوری دی۔
اس اسمبلی نے جہان دیگر اداروں کے کردار کا تعین کیا وہیں پاکستان میں مستقبل میں ہونے والے قانون سازی کے حوالے سے اپنے کردار کا بھی تعین کیا۔
اس موقع پر دستورساز اسمبلی جو ملک کو اس کے دو لخت ہونے کے بعد قانونی جواز او ر سیاسی حمایت فراہم کررہی تھی تو اسی وقت وہ نئے پاکستان کے ادارو ں کا سنگ بنیاد بھی رکھ رہی تھی۔مستقبل کا پاکستان اس طرح یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے منتخب نمائندوں جن کو پارلیمان کا نام دیا جاتا ہے، کی طرف سے تشکیل دیئے گئے آئین کے ذریعے اس کا دوبارہ قیام عمل میں لایا گیا۔مضمون نگار پنجاب یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔
[email protected]