وزیراعظم کا سفر کاکول
وزیراعظم کا کاکول اکیڈمی کا سفراتنا متنازع نہ ہوتا اگرپالیسیوں کو دہرے پن سے نجات دلا کرحقیقی اصولوں پراستوار کیا ہوتا
لاہور میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف (جو اِس وقت بھی وزیر اعلیٰ ہیں) کے ساتھ ایک غیر رسمی ملاقات میں تب کے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ موضوع گفتگو بنا تو جناب شہباز شریف نے اس اقدام کی بھر پور حمایت کی ۔ انھوں نے جنرل صاحب کو جمہوریت پسند ، عقل مند ، دانشور وغیرہ وغیرہ جیسے کئی تمغے چار چھ جملوں میں نواز دیے۔ جو اس سے کہیں زیادہ تھے جو شاید جنرل کیانی کبھی اپنے منہ سے مانگتے۔ وزیر اعلی پنجاب کی دوسری منطق یہ تھی کہ وہ صدر زرداری پر بھروسہ نہیں کرتے۔ نہ جانے نیا فوجی جنرل کس قسم کا آ جائے ، جنرل کیانی دیکھے بھالے تھے، نئی جمہوریت کی نشوونما میں حصہ ڈالنے پر فلسفیانہ طور پر راغب تھے۔ لہذا ان کی موجودگی سب کو قابل قبول تھی۔
نواز لیگ کے دوسرے سرکردہ لیڈران جیسے، چوہدری نثار علی خان، اسحاق ڈار وغیرہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی تھے۔ ظاہر ہے یہ سب اس قسم کی سوچ نہ اپناتے اگر قائد اول جناب میاں نواز شریف خود اس جانب مائل نہ ہوتے۔ نواز لیگ میں میاں نواز شریف کا دبدبہ اتنا ہے کہ ان سے ہلکی پھلکی اختلاف رائے تو جائز ہے مگر بڑے معاملات پر ان کی جنبش ابرو کی اطاعت تمام ایمانی قوت کے ساتھ کرتے ہیں۔ مگر میں اس وقت بہت حیران ہوا جب جنرل کیانی کو عملاً پورے عہدے کی مدت کے برابر توسیع ملی تو نواز شریف کی طرف سے رد عمل بالواسطہ ناگواری کا تھا۔ اگر مجھے یاد پڑتا ہے تو انھوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے بعد میاں نواز شریف کے قریبی حلقوں نے جنرل کیانی کو پیپلز پارٹی نواز جرنیل کے طور پر زیر بحث لانا شروع کر دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور فوج کے درمیان ہونے والی سرد جنگ میں نواز لیگ چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ اندر خانے چوہدری نثار اور شہباز شریف نے جنرل کیانی کے ساتھ مشاورت کا دروازہ بھی کھلا رکھا۔ جس کے بارے میں اخبارات میں درجنوں خبریں چھپنے کے باوجود کوئی تردید سامنے نہیں آئی۔ نواز لیگ نے سابق جنرل کی مدت ملازمت کی توسیع پر اندر خانے جو پالیسی بنائی ہوئی تھی وہ ان کے ذرایع ابلاغ میں چھپنے والے نقطہ نظر سے بالکل مختلف تھی۔
اندر کچھ اور باہر کچھ کے اس لائحہ عمل نے نواز لیگ کو ان بہت سے مسائل سے دوچار کر دیا ہے جن کا تعلق فوج کے ساتھ تعلقات سے ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کا معاملہ اس دہری پالیسی کا ایک عکس ہے۔ نواز لیگ کے اراکین یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے فوج سے اس قسم کا کوئی وعدہ کیا تھا۔ میرے علم کے مطابق نواز لیگ کی قیادت جنرل مشرف کے پاکستان واپس آنے کے بعد عمومی طور پر اور 2013ء کے الیکشن کے بعد خصوصی طور پر فوج کے ساتھ گہرے مذاکرات کرکے یہ پیغام دے چکی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے مسئلے کا حل باہمی اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔ اس باہمی اتفاق رائے میں مقدمہ بازی، سزا اور کھلی ہزیمت جیسے زاویے نہیں تھے۔ ایک موقع پر تو شاید نواز لیگ کی قیادت اسمبلی کے ذریعے قرارداد پاس کروا کے جنرل پرویز مشرف کی جان بخشی کا رستہ کھولنے کا بھی سوچ رہی تھی۔ اس قسم کے پیغامات با اثر بین الاقوامی قوتوں کو بھی دے دیے گئے تھے۔ اس بات چیت کے نتیجے میں اس معاملہ پر نواز لیگ کے اشارے آرمی کی تمام اعلی قیادت تک پہنچا دیے گئے۔ آرمی کی آدھی درجن کے قریب کور کمانڈرز کی میٹنگز میں یہ ممکنہ حل زیر بحث رہا۔ جس پر سب نے اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ مگر پھر یہ پالیسی یکدم تبدیل ہو گئی۔ معافی کو مواخذہ میں تبدیل کردیا۔ درگزر تعزیر میں تبدیل ہوگیا۔ باضابطہ حل، با ضابطہ استغاثہ کی شکل اختیار کرگیا۔
نواز لیگ کی پالیسی میں یہ تبدیلی شاید نئے آرمی سربراہ کے لیے حیران کن تھی۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی نئی تعیناتی کا آغاز انتہائی خوشگوار ماحول میں کیا۔ میاں نواز شریف نے ان کو سابق آرمی چیف کی طرف سے دی گئی فہرست میں اپنے فیصلے کے مطابق منتخب کیا۔ جس کی وجہ سے سابق چیف آف جنرل اسٹاف آرمی چیف بننے کے بجائے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔ جنرل راحیل شریف آرمی کی اس قیادت کا حصہ تھے جن کو جنرل مشرف کے مقدمے سے متعلق دی جانیوالی نواز لیگ کی ضمانتوں کا علم تھا۔ ان کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہ یہی فرض کرتا کہ یہ فائل اب جلد بند ہو جائے گی ۔ مگر حقیقت کچھ اور نکلی۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ فوج نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے عدالت میں پیش ہونے کو ان کے ملک سے چلے جانے سے مشروط سمجھا ہوا تھا۔ مگر عدالت میں پیش ہونے اور مقدمے کی کارروائی شروع ہوتے ہی نواز لیگ نے وہ تمام دروازے ، کھڑکیاں بند کردیں جن میں سے کسی ایک کا استعمال کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو یہاں سے پرواز کرجانا تھا۔ عدلیہ نے اپنی طرف سے جنرل مشرف کے ملک سے باہر جانے کے معاملے کو حل کر دیا۔ اب عدالت کے فیصلے کو سیدھا پڑھیں یا الٹا وہ واضح انداز میں کہہ رہا ہے کہ ہماری طرف سے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔
میں ذاتی طور پر اور اصولی طور پر جنرل پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کے بالکل خلاف ہوں۔ اگر ان پر مقدمہ بنا ہوا ہے تو انھیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طاقت ور حلقوں کا قانون کی گرفت سے نکل جانا عدل گستری کی روح کے خلاف ہے۔ یہ وہ ضابطہ ہے جو سب پر یکساں لاگو ہونا چاہیے۔ جب پاکستان کے چند ایک خود ساختہ آزاد خیال حلقے حسین حقانی کو ملک سے باہر بھجوانے میں اتنے ہی مصر تھے جتنے وہ آج جنرل پرویز مشرف کو عدالتی کارروائی کا سامنا کروانے پر ہیں۔ میں نے کھل کر ریاست کے خلاف مبینہ سازش کرنے والے ملزم کو چھوڑ دینے کی مخالفت کی تھی جب پنجاب اور مرکزی حکومت ملک کی عدالتیں اور ذرایع ابلاغ کے بڑے بڑے جمہوری ستون ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے بھیجنے کے خفیہ معاہدے کا حصہ بنے ہوئے تھے ۔ میں نے اس وقت بھی قانونی چارہ جوئی کی حمایت کی تھی۔
لہذا قضیہ میری یا پاکستان کے ہر اس شہری کی رائے کا نہیں ہے جو قانون کی سر بلندی چاہتا ہے۔ معاملہ یہ سمجھنے کا ہے کہ نواز لیگ نے جنرل پرویز مشرف کے مقدمے اور فوج کے ساتھ دوسرے معاملات پر کیسی پالیسی اپنائے رکھی ہے کہ اس وقت تمام ملک میں سیاسی چہ مگوئیوں اور افواہ سازی کی منڈی دوبارہ سے لگ گئی ہے۔ سویلین اداروں کی برتری اور ریاستی اداروں کا احتساب کرنے والوں کو اصولوں پر مسلسل کاربند ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اندر کچھ اور کہیں اور باہر کچھ اور کریں۔ ایک مقدمے پر محدب عدسے کے ذریعے توجہ اور توانائی مرکوز کریں اور اسی طرح کے دوسرے مقدمات پر قابل اعتراض لچک اختیار کریں۔ آج وزیراعظم نواز شریف کا کاکول اکیڈمی کا سفر کبھی اتنا متنازع نہ ہوتا۔ اگر انھوں نے اپنی پالیسیوں کو دہرے پن سے نجات دلا کر حقیقی اصولوں پر استوار کیا ہوتا۔
نواز لیگ کے دوسرے سرکردہ لیڈران جیسے، چوہدری نثار علی خان، اسحاق ڈار وغیرہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی تھے۔ ظاہر ہے یہ سب اس قسم کی سوچ نہ اپناتے اگر قائد اول جناب میاں نواز شریف خود اس جانب مائل نہ ہوتے۔ نواز لیگ میں میاں نواز شریف کا دبدبہ اتنا ہے کہ ان سے ہلکی پھلکی اختلاف رائے تو جائز ہے مگر بڑے معاملات پر ان کی جنبش ابرو کی اطاعت تمام ایمانی قوت کے ساتھ کرتے ہیں۔ مگر میں اس وقت بہت حیران ہوا جب جنرل کیانی کو عملاً پورے عہدے کی مدت کے برابر توسیع ملی تو نواز شریف کی طرف سے رد عمل بالواسطہ ناگواری کا تھا۔ اگر مجھے یاد پڑتا ہے تو انھوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے بعد میاں نواز شریف کے قریبی حلقوں نے جنرل کیانی کو پیپلز پارٹی نواز جرنیل کے طور پر زیر بحث لانا شروع کر دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور فوج کے درمیان ہونے والی سرد جنگ میں نواز لیگ چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ اندر خانے چوہدری نثار اور شہباز شریف نے جنرل کیانی کے ساتھ مشاورت کا دروازہ بھی کھلا رکھا۔ جس کے بارے میں اخبارات میں درجنوں خبریں چھپنے کے باوجود کوئی تردید سامنے نہیں آئی۔ نواز لیگ نے سابق جنرل کی مدت ملازمت کی توسیع پر اندر خانے جو پالیسی بنائی ہوئی تھی وہ ان کے ذرایع ابلاغ میں چھپنے والے نقطہ نظر سے بالکل مختلف تھی۔
اندر کچھ اور باہر کچھ کے اس لائحہ عمل نے نواز لیگ کو ان بہت سے مسائل سے دوچار کر دیا ہے جن کا تعلق فوج کے ساتھ تعلقات سے ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کا معاملہ اس دہری پالیسی کا ایک عکس ہے۔ نواز لیگ کے اراکین یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے فوج سے اس قسم کا کوئی وعدہ کیا تھا۔ میرے علم کے مطابق نواز لیگ کی قیادت جنرل مشرف کے پاکستان واپس آنے کے بعد عمومی طور پر اور 2013ء کے الیکشن کے بعد خصوصی طور پر فوج کے ساتھ گہرے مذاکرات کرکے یہ پیغام دے چکی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کے مسئلے کا حل باہمی اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔ اس باہمی اتفاق رائے میں مقدمہ بازی، سزا اور کھلی ہزیمت جیسے زاویے نہیں تھے۔ ایک موقع پر تو شاید نواز لیگ کی قیادت اسمبلی کے ذریعے قرارداد پاس کروا کے جنرل پرویز مشرف کی جان بخشی کا رستہ کھولنے کا بھی سوچ رہی تھی۔ اس قسم کے پیغامات با اثر بین الاقوامی قوتوں کو بھی دے دیے گئے تھے۔ اس بات چیت کے نتیجے میں اس معاملہ پر نواز لیگ کے اشارے آرمی کی تمام اعلی قیادت تک پہنچا دیے گئے۔ آرمی کی آدھی درجن کے قریب کور کمانڈرز کی میٹنگز میں یہ ممکنہ حل زیر بحث رہا۔ جس پر سب نے اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ مگر پھر یہ پالیسی یکدم تبدیل ہو گئی۔ معافی کو مواخذہ میں تبدیل کردیا۔ درگزر تعزیر میں تبدیل ہوگیا۔ باضابطہ حل، با ضابطہ استغاثہ کی شکل اختیار کرگیا۔
نواز لیگ کی پالیسی میں یہ تبدیلی شاید نئے آرمی سربراہ کے لیے حیران کن تھی۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی نئی تعیناتی کا آغاز انتہائی خوشگوار ماحول میں کیا۔ میاں نواز شریف نے ان کو سابق آرمی چیف کی طرف سے دی گئی فہرست میں اپنے فیصلے کے مطابق منتخب کیا۔ جس کی وجہ سے سابق چیف آف جنرل اسٹاف آرمی چیف بننے کے بجائے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ بن گئے۔ جنرل راحیل شریف آرمی کی اس قیادت کا حصہ تھے جن کو جنرل مشرف کے مقدمے سے متعلق دی جانیوالی نواز لیگ کی ضمانتوں کا علم تھا۔ ان کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہ یہی فرض کرتا کہ یہ فائل اب جلد بند ہو جائے گی ۔ مگر حقیقت کچھ اور نکلی۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ فوج نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے عدالت میں پیش ہونے کو ان کے ملک سے چلے جانے سے مشروط سمجھا ہوا تھا۔ مگر عدالت میں پیش ہونے اور مقدمے کی کارروائی شروع ہوتے ہی نواز لیگ نے وہ تمام دروازے ، کھڑکیاں بند کردیں جن میں سے کسی ایک کا استعمال کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو یہاں سے پرواز کرجانا تھا۔ عدلیہ نے اپنی طرف سے جنرل مشرف کے ملک سے باہر جانے کے معاملے کو حل کر دیا۔ اب عدالت کے فیصلے کو سیدھا پڑھیں یا الٹا وہ واضح انداز میں کہہ رہا ہے کہ ہماری طرف سے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔
میں ذاتی طور پر اور اصولی طور پر جنرل پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کے بالکل خلاف ہوں۔ اگر ان پر مقدمہ بنا ہوا ہے تو انھیں اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طاقت ور حلقوں کا قانون کی گرفت سے نکل جانا عدل گستری کی روح کے خلاف ہے۔ یہ وہ ضابطہ ہے جو سب پر یکساں لاگو ہونا چاہیے۔ جب پاکستان کے چند ایک خود ساختہ آزاد خیال حلقے حسین حقانی کو ملک سے باہر بھجوانے میں اتنے ہی مصر تھے جتنے وہ آج جنرل پرویز مشرف کو عدالتی کارروائی کا سامنا کروانے پر ہیں۔ میں نے کھل کر ریاست کے خلاف مبینہ سازش کرنے والے ملزم کو چھوڑ دینے کی مخالفت کی تھی جب پنجاب اور مرکزی حکومت ملک کی عدالتیں اور ذرایع ابلاغ کے بڑے بڑے جمہوری ستون ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے بھیجنے کے خفیہ معاہدے کا حصہ بنے ہوئے تھے ۔ میں نے اس وقت بھی قانونی چارہ جوئی کی حمایت کی تھی۔
لہذا قضیہ میری یا پاکستان کے ہر اس شہری کی رائے کا نہیں ہے جو قانون کی سر بلندی چاہتا ہے۔ معاملہ یہ سمجھنے کا ہے کہ نواز لیگ نے جنرل پرویز مشرف کے مقدمے اور فوج کے ساتھ دوسرے معاملات پر کیسی پالیسی اپنائے رکھی ہے کہ اس وقت تمام ملک میں سیاسی چہ مگوئیوں اور افواہ سازی کی منڈی دوبارہ سے لگ گئی ہے۔ سویلین اداروں کی برتری اور ریاستی اداروں کا احتساب کرنے والوں کو اصولوں پر مسلسل کاربند ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اندر کچھ اور کہیں اور باہر کچھ اور کریں۔ ایک مقدمے پر محدب عدسے کے ذریعے توجہ اور توانائی مرکوز کریں اور اسی طرح کے دوسرے مقدمات پر قابل اعتراض لچک اختیار کریں۔ آج وزیراعظم نواز شریف کا کاکول اکیڈمی کا سفر کبھی اتنا متنازع نہ ہوتا۔ اگر انھوں نے اپنی پالیسیوں کو دہرے پن سے نجات دلا کر حقیقی اصولوں پر استوار کیا ہوتا۔