MDGs اور چند نوری سال

ملینیم ڈویلپمنٹ گولز وہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ منزلیں ہیں جن سے ملک کی ترقی کا حقیقی اندازہ لگایا جا سکتا ہے

raomanzar@hotmail.com

MIRPURKHAS:
یہ اَمر مستحکم ہے کہ حکمران طبقہ اپنے ماضی اور اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھتا۔ بار بار آگ میں انگلیاں جلا جلا کر ناز کرتا ہے کہ اس دفعہ آگ گلزار بن جائے گی۔ وہ اپنی ذات اور اپنے ارد گرد کے افراد کا تجزیہ کرنے سے یکسر محروم رہتا ہے جو اس کے نام پر خلق خدا سے نا انصافی روا رکھتے ہیں۔ سبق سیکھنا تو عبث! عمالِ خاص تو آج بھی لوگوں کو سبق سکھا رہے ہیں۔ صاحبان فہم! کونسا نظام کیسی جمہوریت، سب کچھ ایک معمولی سے تنائو پر ڈھیر نظر آتی ہے۔ کمی لوگوں کے اخلاص میں نہیں، اُنکی فکر میں بھی نہیں، مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ ہر حکومت کا امتحان صرف ایک ہے کہ وہ عام آدمی کی تکلیف کو کتنا کم کرتی ہے یا اُس کے برعکس جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر ان کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے۔

لوگ تو صرف یہ گریہ کرتے ہیں، کہ ان میں آسانیاں تقسیم کی جائیں۔ قرآن حکیم کا موضوع سخن"انسان" ہے اور مقصد رشد و ہدایت۔ مگر زور ایک دوسرے میں آسانیاں تقسیم کرنے پر ہے۔ میں ایسے ایسے واقعات کا چشم دید گواہ ہوں جس میں ایذاپہنچانے والے افسروں کو چن چن کر عہدوں پر براجمان کیا گیا ہے۔ عام آدمی کی تکلیف رفع کرنے کی بات تو دور کا قصہ، وہ اپنے اردگرد محض آگ اور غصہ کے ابال کو فروغ دیتے ہیں۔ ہاں اپنے ہر ناجائز کام اور انتقام کو میرٹ کا نام دیتے ہیں۔ میں مسلسل لکھ رہا ہوں کہ جمہوریت اور غیر جمہوری نظام صرف اور صرف رویہ کا دوسرا نام ہے۔ الیکشن تو دونوں ادوار میں مسلسل برپا ہوتے ہیں، تو پھر فرق کیسا؟۔

میری دانست میں جمہوریت زخموں پر مرہم رکھنے کا نام ہے۔ اور کچھ بھی نہیں۔ اگر ساری پارلیمنٹ اور نظام صرف کچھ اشخاص کے چشم ابرو کا مرہون منت ٹھہرے، تو پھر آپ لباس تو جمہوریت کا پہن سکتے ہیں۔ مگر مورخ اسے صرف اور صرف شخصی آمریت کا نام دیگا۔ اور پھر سرکاری عمالِ خاص کا ذکر، دربار میں مکمل موم اور خوشبودار، اور باہر نکل کر سیاسی حکمرانوں کا نام اس بے دردی سے استعمال کرتے ہیں، کہ خدا کی پناہ! غیر جانبدار سرکاری بیوروکریسی تو کب کی درگور ہو چکی، اب تو دَور ہے دوستوں کا، مصاحبین کا، رشتہ داروں کا اور طبلہ بجانے والوں کا۔ کون ان میں سے قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود اور شیخ منظور الہی جیسے جواہر نکال سکتا ہے۔ جو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے لازماً پتھر کا ہو جاتا ہے۔

انسانی ترقی کا انڈکس(H.D.I) تعلیم، صحت اور معاشی ترقی پر مرکوز ہوتا ہے۔ عالمی سطح کے ماہرین کسی بھی ملک کے ان ا ہم شعبوں میں حکومتی وسائل کی فراہمی اور ان کے خرچ کرنے کی شرح کا بغور تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ عالمی انڈیکس کسی طرح بھی جانبدار نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں کوئی ملک اس کی ساکھ پر شک نہیں کرتا۔ دنیا کے 187 ممالک میں پاکستان پست ترین سطح پر ہے۔ بخدا! بات کرتے ہوئے بھی حجاب ہے۔ ہم تمام ممالک میں146 ویں نمبر پر ہیں۔یہ رپورٹ U.N.D.P جو اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے، شایع کرتی ہے۔ ہم بنگلہ دیش، کینیا، کانگو اور مصر سے بھی نیچے ہیں۔

ملینیم ڈویلپمنٹ گولز (M.D.G's) وہ سکہ بند بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ منزلیں ہیں جن سے کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی کا حقیقی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ وہ ملاح ہیں جو سمندر میں بحری جہاز کو صحیح راستے پر رواں دواں رکھتے ہیں۔ میرا ضمنی سا استفسار ہے کہ اگر ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتیں اتنی تن دھی سے لوگوں کے مسئلے حل کرنے کے لیے دن رات برسر پیکار ہیں تو ہمارا جہاز ڈوب کیوں رہا ہے؟ لوگ اتنی کثیر تعداد میں سرمایہ ملک سے باہر کیوں لے جا رہے ہیں؟ ملک سے مجبوراً ہجرت کا رجحان کیوں فروغ پذیر ہے؟ بہرحال بات کہاں سے شروع کی تھی مگر کہاں جا پہنچی۔ ایم۔ڈی۔جیز۔ ہر دم مختلف ذرایع سے پرکھے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی ساکھ کے ادارے ہر حکومت کے ساتھ ملکر ایک مربوط اور منظم طریقے سے انکو چیک کرنے کے بعد لکھ کر اُس حکومت کی فعالیت اور اس کے طریقہ کار پر رپورٹ مرتب کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ اس پورے نظام کی ضامن ہے۔ سروے، موقعہ پر ہر طبقہ کے ساتھ بات چیت اور ہر وہ دیگر طریقہ اپنایا جاتا ہے جس سے حکومت کی کارگردگی کے اہم پہلوئوں کو اجاگر کیا جا سکے۔ یہ ایم۔ ڈی۔ جیز تعداد میں آٹھ ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے قدرتی آفات، دہشتگردی، سیاسی انتظامی تبدیلیاں، معاشی ڈھانچے میں تبدیلی کی کوشش، ملک کے بین الاقوامی تعلقات اور عام شہریوں سے حکومت کی قربت، یعنی کسی بھی پہلو سے صَرفِ نظر نہیں کیجاتی۔ پاکستان کیا، ہر ترقی پذیر ملک کے معروضی حالات کو ہر صورت سامنے رکھا جاتا ہے۔ میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی یہ رپورٹ ہر لحاظ سے معتبر تصور کی جاتی ہے اور حکومتی ادارے اس رپورٹ کو مرتب کرنے میں ایک فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور ہر شخص اُس سے استفادہ کر سکتا ہے۔


آپ غربت اور بھوک کے خاتمہ کی جانب نظر ڈالیے۔ ہمارے بارہ فیصد افراد قطعی غربت کی لکیر سے بہت نیچے حیوانوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ عالمی ادارے تو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح چالیس فیصد سے بھی اوپر رکھتے ہیں۔ پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی اکثریت غذا کی قلت کی وجہ سے بہت کم وزن کے مالک ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پاکستان میں بے روزگاری اور آبادی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے یہ تیس فیصد ہے جب کہ اسے بیس فیصد ہونا چاہیے۔ اس جزو پر ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔

آپ تعلیم پر نظر دوڑائیں تو صورت حال بہت مخدوش معلوم ہو گی۔ عرصے سے جاری پروپیگنڈے اور ڈھول بجا بجا کر تعلیم کے فروغ کا اعلان کرنے سے حقیقت میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ 100 بچوں میں سے صرف57 بچے پرائمری اسکول میں نام درج کرواتے ہیں۔ میں صرف داخلہ کا عرض کر رہا ہوں۔ پہلی کلاس سے پانچویں جماعت تک ان میں پچاس فیصد سے زیادہ بچے اسکول چھوڑ کر کوئی شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کیا کرتے ہیں؟ کہاں جاتے ہیں؟ کسی حکومتی ادارے کو کوئی علم نہیں۔ ہماری بیان کردہ شرح خواندگی58 فیصد ہے۔

اول تو ہماری اس شرح کو بین الاقوامی سند حاصل نہیں کیونکہ ہم نے خواندہ ہونے کی تعریف کو اتنا کم تر کر دیا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ صرف نام لکھنے والا بھی اس میں شامل ہے۔ دلچسپ اَمر یہ ہے کہ اس شرح خواندگی میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ خواتین اس میں صرف 47% ہیں۔ مردوں کی شرح خواتین سے بہت زیادہ ہے۔ سو فیصد بچوں کا پرائمری اسکول میں داخلہ اور ان کا اپنی ابتدائی تعلیم کو مکمل کرنا محض ایک خواب ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک تیزی سے تعلیم اور معیار تعلیم میں ترقی کر رہے ہیں۔ ہم ابھی اس میں گھٹنوں کے بل چل رہے ہیں۔ مگر بیانات کی حد تک حشر برپا ہے۔

خواتین کو برابری کے حقوق، ان کی معاشی ترقی اور تعلیم کے میدان میں یکساں مواقع اگلی اہم سیڑھی ہے۔ خواتین کو زراعت کے علاوہ مختلف شعبوں میں روزگار فراہم کرنے میں ہم ٹارگٹ سے چودہ فیصد پیچھے ہیں۔ پرائمری اور سیکنڈری میں بچیوں کی تعلیم کے مواقع خوفناک حد تک کم ہیں۔ مختلف صوبوں میں بذات خود تفریق، مناسب شرح سے بہت زیادہ ہے۔ بلوچستان اس معاملے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کے متعلق بھی صورت حال تشویش ناک ہے۔ ایک ہزار میں سے74 بچے پیدا ہونے کے تھوڑے عرصے میں غیر مناسب صورت حال کی بدولت زندہ نہیں رہتے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں89 بچے بھی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ تمام آبادی کو طبی سہولیات تو دور کی بات، مشورہ تک دے سکیں۔ اب اس تناسب کی طرف نظر دوڑائیے جس میں ماں کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے۔

ایک لاکھ حاملہ مائوں میں سے276 مائیں مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کی بدولت زندہ نہیں رہ پاتیں۔ بچوں کی پیدائش آج بھی غیر تربیت یافتہ دائیوں کے توسط سے ہوتی ہے۔ لیڈی ڈاکٹر تو بڑی دور کی بات! ہماری حاملہ خواتین کی اکثریت کو برائے نام طبی امداد بھی حاصل نہیں۔ آپ اب مہلک بیماریوں کے عنصر پر نظر دوڑائیے۔ ہم آج تک ٹی بی سے مکمل نجات نہیں حاصل کر سکے۔ کسی سطح پر ہماری کسی بھی حکومت کو ایڈز کے مریضوں کی قطعی تعداد کا کوئی ادراک نہیں۔ ملیریا جیسی بیماری جو دنیا کے چند انتہائی پسماندہ ملکوں میں رہ گئی ہے، آج بھی ہمارے عظیم ملک میں بالکل عام ہے۔ ملیریا سے کتنی جانیں ضایع ہوتی ہیں، آپ یقین فرمائیے، ہمیں کوئی علم نہیں۔ اب آپ ماحولیاتی عنصر اور اس کی حفاظت کی طرف آئیے۔ ہم علم دشمن تو پختہ ہیں مگر ہم درخت دشمنی میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ جنگلات کا تناسب عالمی سطح سے شرمناک حد تک کم ہے۔

پرندوں اور جانوروں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ آبی آلودگی نے ماحول کو اور پراگندہ کر ڈالا ہے۔ ہماری دی گئی شرح فیصد پر نہ کوئی یقین کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی بات کرنے کو۔ میں عام لوگوں کو پینے کے معیاری پانی کی فراہمی کا ذکر تک نہیں کرنا چاہتا۔ لوگوں کو معیاری سیوریج کی فراہمی میں بھی ہم کافی پیچھے رہ چکے ہیں۔ M.D.G's کا آخری عنصر کسی بھی ملک کا پوری دنیا میں ترقی کے لیے نیٹ ورکنگ ہے۔ اس میں کیونکہ ہمیں مالی امداد ملنے کی بھر پور توقع ہوتی ہے لہذٰا ہم فقیروں کی طرح ہر ترقی یافتہ ملک کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور دیکھتے رہینگے۔ اس میں طاقتور طبقوں کے بیرونی دورے بھی شامل ہیں، لہذٰا خدا کے فضل سے اس میں ہم دن دوگنی ترقی کر رہے ہیں۔

آپ کسی بھی حکومت کے بیانات نکال کر دیکھئے۔ آپکو ترقی کا سیلاب امڈتا ہوا نظر آئیگا۔ آپ کو لگے گا کہ پاکستان دنیا کا وہ سورج ہے جس کے ارد گرد تمام ممالک گھومنے پر مجبور ہیں۔ عظیم الشان سرکاری اجتماعات، بے سر و پا کیبنٹ میٹنگز اور کانفرنسوں کی چکا چوند روشنی سے آپ دنگ رہ جائینگے۔ آپ کو لگے گا کہ پاکستان چند سال میں امریکا کو امداد دینے والے ملک بن جائیگا۔ کوئی آپ کو یہ بتانے کی جرات نہیں کر پائے گا کہ آٹھM.D.G's میں سے کسی ایک پر بھی ہم پورے نہیں اترتے۔ لوگ اپنی بے توقیری اور مسلسل غربت پر خوشی سے تالیاں بجاتے نظر آئینگے! اگر دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کا وزیر پروپیگنڈا گوئیبلز پاکستان آ جائے تو اسے احساس ہو گا کہ اُس کو اصل میں پاکستان میں کسی سیاسی دکان پر کام کرنا چاہیے تھا! اور اُس نے جرمنی میں زندگی ضایع کر دی ہے! وہ ٹی وی چینلز پر آ کر آپ کو یقین دلائے گا کہ پاکستان اپنی عظیم الشان ترقی کا سفر اب صرف چند سالوں میںطے کر لے گا! مگر اصل میں وہ کچھ سال صرف چند نوری سال ہونگے؟ سیکڑوں سالوں پر محیط؟
Load Next Story