ادبی تنظیموں کی ترجیحات
پاکستان میں مجموعی طور پر ماضی کی نسبت ادبی سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔۔۔
HYDERABAD:
پاکستان میں پچھلے دو تین برس سے ادبی محاذ پر گہما گہمی نظر آتی ہے، آرٹس کونسل کراچی ہر سال ایک ادبی کانفرنس کے اہتمام میں مصروف ہے جس میں پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے ادیب اور شاعر شرکت کرتے ہیں۔ یہ ادبی میلہ بڑا پرکشش ہوتا ہے، دوسرے ملکوں کے معروف ادیبوں سے ملاقات کے مواقعے حاصل ہوتے ہیںاور آگہی ملتی ہے ان معلومات کے تناظر میں لکھنے والوں کو نئے نئے موضوعات ملتے ہیں۔ آرٹس کونسل ان سالانہ تقریبات کے علاوہ بھی تسلسل کے ساتھ ثقافتی پروگراموں کا اہتمام کرتی ہے، آرٹس کونسل بنیادی طور پر ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے لیکن یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ جتنا وقت جتنی اہمیت ثقافتی پروگراموں کو دیا جاتا ہے۔ جتنے وسائل ثقافتی پروگراموں پر لگائے جاتے ہیں ان کا عشر عشیر بھی ادبی پروگراموں پر نہیں لگایا جاتا۔
اس کمی یا نا انصافی کو وہ لوگ شدت سے محسوس کرتے ہیں جنھیں معاشرتی افرا تفری اور معاشرتی بگاڑ کے مضر اثرات اور اس حوالے سے ملک اور عوام کے مستقبل پر پڑنے والے منفی اثرات کا اندازہ ہے۔آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والے ادبی اور ثقافتی پروگراموں سے ایک مخصوص اور انتہائی محدود طبقہ استفادہ کرتا ہے جب کہ معاشرتی بگاڑ اور معاشرتی گھٹن سے عوام کو نکالنے کے لیے ان پروگراموں میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت یا ان پروگراموں کو عوام کی بستیوں تک لے جانا ضروری ہے۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی دور میں معروف ڈرامہ نگار اور ڈائریکٹر علی احمد نے بڑے بامعنی ڈرامے پیش کیے جن میں زرد بخار، آدھی روٹی ایک لنگوٹی اور امریکا تیرے چمچوں کا کیا ہوگا؟ جیسے ڈرامے شامل تھے۔
علی احمد یہ کھیل عموماً غریب بستیوں میں پیش کرتے تھے جہاں انھیں بے حد پذیرائی ملتی تھی اور یہ ڈرامے عوام میں شعور اجاگر کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوتے تھے، ثقافتی پروگراموں کو عوام تک لے جانے اور ان پروگراموں میں عوام کو شریک کرنے کا یہ ایک موثر ذریعہ اور وسیلہ تھا۔کراچی کے موجودہ حالات میں اور ڈرامے کی بدلی ہوئی ضروریات کے تناظر میں اگرچہ عام بستیوں میں ڈرامے پیش کرنا کافی مشکل کام ہے لیکن اگر ایک منظم منصوبہ بندی اور علاقائی عوام کے تعاون سے مختلف بستیوں میں ڈرامے کا اہتمام کیا جائے تو یہ ناممکن نہیں۔ ثقافتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک اور ہمارے عوام میں مشاعرہ بہت مقبول ادبی سرگرمی ہے۔ ڈرامے کے مقابلے میں مشاعرے کا اہتمام بہت آسان ہے۔
آرٹس کونسل میں اگرچہ مشاعروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے لیکن اس میں بھی سامعین کی شرکت بہت محدود ہوتی ہے، آرٹس کونسل کے منتظمین جن میں نامور شعراء اور ادیب شامل ہیں، اس حوالے سے عام بستیوں میں مشاعروں کے انعقاد کا پروگرام بنائیں تو نہ صرف عوام کی ایک بڑی تعداد ان سے استفادہ کر سکتی ہے بلکہ آرٹس کونسل کو اپنی چہار دیواری سے باہر نکلنے اور عوام تک رسائی کے مواقعے بھی حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے نظریاتی طور پر یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ادب اور ثقافتی سرگرمیاں کیا صرف ایک مٹھی بھر مخصوص طبقے کی ضرورت ہے یا عام عوام کی بھی ضرورت ہے؟
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سربراہ احمد شاہ ایک نہایت محترک اور زیرک انسان ہیں اپنی شاندار کارکردگی کی وجہ سے وہ کئی سال سے آرٹس کونسل کی سربراہی کے لیے چنے جا رہے ہیں اور یہ چنائو ہمیشہ اس قدر ٹرانسپئرنٹ ہوتا ہے کہ کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہم نے محترم شاہ کو ان ہی کالموں کے ذریعے بار بار یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ پاکستان خصوصاً کراچی میں کتاب کلچر کو زندہ کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات ہونے چاہئیں کیوں کہ موجودہ انتشار انارکی اور جرائم کی بھرمار سے نمٹنے کے لیے محض قانون اور انصاف کی کوشش کافی نہیں بلکہ فکری تبدیلی کے ایک منظم پروگرام کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے کتاب کلچر کا احیاء انتہائی موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں مجموعی طور پر ماضی کی نسبت ادبی سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے، لاہور اور کراچی میں تسلسل کے ساتھ ادبی میلے سجائے جا رہے ہیں، اس حوالے سے شہر قائد کا سالانہ عالمی مشاعرہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ لاہور میں بھی تسلسل کے ساتھ ادبی محفلیں برپا کی جا رہی ہیں، جن کی تفصیل ہمیں انتظار حسین کے کالموں سے مل جاتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی ابتری فکری تبدیلی کے بغیر ختم نہیں ہو سکتی جیسا کہ ہم نے آرٹس کونسل کراچی کے پروگراموں کی محدودیت کا ذکر کیا ہے لاہور کے ادبی اور ثقافتی پروگراموں کی صورت حال آرٹس کونسل کراچی سے مختلف نہیں ہے۔
جو لوگ ان محدود پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں، فکری تبدیلی ان کا مسئلہ نہیں ہے معاشرے کی اجتماعی بگاڑ پر قابو پانے کے لیے عوام میں فکری تبدیلی کی ضرورت ہے اس کے دو موثر طریقے ہیں ایک یہ کہ کتاب کلچر کو زندہ کیا جائے دوسرے یہ کہ ثقافتی پروگراموں خصوصاً بامقصد ڈراموں کو الیکٹرانک میڈیا کے تعاون سے پیش کیا جائے، الیکٹرانک میڈیا آج ایک ایسا ہمہ گیر میڈیم ہے کہ اس کی رسائی گائوں گائوں تک ہے کوئی علاقہ، کوئی شہر، کوئی گائوں اس کی پہنچ سے دور نہیں اگر الیکٹرانک میڈیا کا تعاون حاصل کیا جائے تو ایسے بامقصد بامعنی ڈرامے عوام کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں جو ان میں فکری تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔
ہمارے چینلز پر اگرچہ مقابلے کی فضا کی وجہ سے ڈراموں کی بھرمار ہے جن میں غیر ملکی ڈرامے بھی شامل ہیں لیکن یہ ڈرامے عام طور پر مکر و فریب، جرائم اور لو اسٹوریز پر مبنی ہوتے ہیں جو عوام میں فکری تبدیلی لانے کے بجائے محض تفریحی طبع کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمارے یہاں بہت سارے تھیٹر گروپ موجود ہیں اور بامقصد طنزیہ ڈرامے بھی پیش کر رہے ہیں لیکن یہ کام ایک تو کمرشل بنیاد پر کیا جا رہا ہے دوسرے یہ پروگرام چند ہالوں کی چہار دیواری تک محدود ہیں جب کہ ان کی ضرورت ملک کے ہر علاقے کو ہے۔ ملک میں عوامی تھیٹر کی ضرورت ہے۔ کتاب کلچر کی ضرورت اور اہمیت سے تو کوئی با شعور اور سنجیدہ شخص انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کے احیاء کا طریقہ کار کیا ہو۔؟
اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ادب لکھا جا رہا ہے افسانے میں جدت بھی آ رہی ہے موضوع میں تنوع بھی ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ عوام تک رسائی کا کوئی نظام نہیں ہے بڑے بڑے لکھاری مشکل سے 500کی تعداد میں ایک کتاب چھپواتے ہیں جو یا تو بک اسٹالوں پر پڑی سڑتی رہتی ہیں یا مصنف کے اسٹور کی زینت بنی رہتی ہیں یا دوست احباب میں مفت تقسیم ہو جاتی ہیں کیوں کہ نہ عوام کو ان کے شایع ہونے کا پتہ ہوتا ہے نہ عوام تک ان کی رسائی کا کوئی نظام موجود ہے، اس تناظر میں کیا یہ ممکن نہیں کہ آرٹس کونسلز دوسری ادبی تنظیمیں اپنے پبلشنگ ہائوس قائم کریں اور ایسی ادبی کمیٹیاں بنائیں جو قومی اور بین الاقوامی ادب کی منتخب کتابوں کے سستے ایڈیشن اپنے پبلشنگ ہائوسز میںچھاپیں۔
الیکٹرانک میڈیا پر ان کا تعارف کرائیں اور عوام تک ان کتابوں کی رسائی کے لیے جگہ بک اسٹالز قائم کریں یا اخباری ہاکرز کے تعاون سے ان کی فروخت کا اہتمام کریں۔ اس حوالے سے ہم نے کیبن لائبریریز کی ایک اسکیم کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ 60ء،70 ء اور 80ء کی دہائیوں میں ہر علاقے میں کیبن لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں برصغیر کے معروف ادیبوں کی کتابیں کرائے پر دستیاب ہوتی تھیں اور عام آدمی آسانی سے یہ کتابیں حاصل کر کے ان کا مطالعہ کرتا تھا، ہم نے اپنے اندھے بہرے اور گونگے حکمرانوں کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ یہ لائبریریاں قائم کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قرضوں کی ایک اسکیم شروع کی جائے جس کا استعمال صرف لائبریریوں کے قیام میں کیا جائے۔ اس اسکیم سے ہر علاقے میں کیبن لائبریریاں قائم ہو جائیں گی اور عوام آسانی سے اپنی پسند کی کتابیں حاصل کر سکیں گے۔ کیا یہ اسکیم کتاب کلچر کے احیاء میں معاون ثابت نہیں ہو سکتی ؟ لیکن سوال ادبی تنظیموں کی ترجیحات کا ہے۔
پاکستان میں پچھلے دو تین برس سے ادبی محاذ پر گہما گہمی نظر آتی ہے، آرٹس کونسل کراچی ہر سال ایک ادبی کانفرنس کے اہتمام میں مصروف ہے جس میں پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے ادیب اور شاعر شرکت کرتے ہیں۔ یہ ادبی میلہ بڑا پرکشش ہوتا ہے، دوسرے ملکوں کے معروف ادیبوں سے ملاقات کے مواقعے حاصل ہوتے ہیںاور آگہی ملتی ہے ان معلومات کے تناظر میں لکھنے والوں کو نئے نئے موضوعات ملتے ہیں۔ آرٹس کونسل ان سالانہ تقریبات کے علاوہ بھی تسلسل کے ساتھ ثقافتی پروگراموں کا اہتمام کرتی ہے، آرٹس کونسل بنیادی طور پر ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے لیکن یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی ہے کہ جتنا وقت جتنی اہمیت ثقافتی پروگراموں کو دیا جاتا ہے۔ جتنے وسائل ثقافتی پروگراموں پر لگائے جاتے ہیں ان کا عشر عشیر بھی ادبی پروگراموں پر نہیں لگایا جاتا۔
اس کمی یا نا انصافی کو وہ لوگ شدت سے محسوس کرتے ہیں جنھیں معاشرتی افرا تفری اور معاشرتی بگاڑ کے مضر اثرات اور اس حوالے سے ملک اور عوام کے مستقبل پر پڑنے والے منفی اثرات کا اندازہ ہے۔آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والے ادبی اور ثقافتی پروگراموں سے ایک مخصوص اور انتہائی محدود طبقہ استفادہ کرتا ہے جب کہ معاشرتی بگاڑ اور معاشرتی گھٹن سے عوام کو نکالنے کے لیے ان پروگراموں میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت یا ان پروگراموں کو عوام کی بستیوں تک لے جانا ضروری ہے۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی دور میں معروف ڈرامہ نگار اور ڈائریکٹر علی احمد نے بڑے بامعنی ڈرامے پیش کیے جن میں زرد بخار، آدھی روٹی ایک لنگوٹی اور امریکا تیرے چمچوں کا کیا ہوگا؟ جیسے ڈرامے شامل تھے۔
علی احمد یہ کھیل عموماً غریب بستیوں میں پیش کرتے تھے جہاں انھیں بے حد پذیرائی ملتی تھی اور یہ ڈرامے عوام میں شعور اجاگر کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوتے تھے، ثقافتی پروگراموں کو عوام تک لے جانے اور ان پروگراموں میں عوام کو شریک کرنے کا یہ ایک موثر ذریعہ اور وسیلہ تھا۔کراچی کے موجودہ حالات میں اور ڈرامے کی بدلی ہوئی ضروریات کے تناظر میں اگرچہ عام بستیوں میں ڈرامے پیش کرنا کافی مشکل کام ہے لیکن اگر ایک منظم منصوبہ بندی اور علاقائی عوام کے تعاون سے مختلف بستیوں میں ڈرامے کا اہتمام کیا جائے تو یہ ناممکن نہیں۔ ثقافتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک اور ہمارے عوام میں مشاعرہ بہت مقبول ادبی سرگرمی ہے۔ ڈرامے کے مقابلے میں مشاعرے کا اہتمام بہت آسان ہے۔
آرٹس کونسل میں اگرچہ مشاعروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے لیکن اس میں بھی سامعین کی شرکت بہت محدود ہوتی ہے، آرٹس کونسل کے منتظمین جن میں نامور شعراء اور ادیب شامل ہیں، اس حوالے سے عام بستیوں میں مشاعروں کے انعقاد کا پروگرام بنائیں تو نہ صرف عوام کی ایک بڑی تعداد ان سے استفادہ کر سکتی ہے بلکہ آرٹس کونسل کو اپنی چہار دیواری سے باہر نکلنے اور عوام تک رسائی کے مواقعے بھی حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے نظریاتی طور پر یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ادب اور ثقافتی سرگرمیاں کیا صرف ایک مٹھی بھر مخصوص طبقے کی ضرورت ہے یا عام عوام کی بھی ضرورت ہے؟
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سربراہ احمد شاہ ایک نہایت محترک اور زیرک انسان ہیں اپنی شاندار کارکردگی کی وجہ سے وہ کئی سال سے آرٹس کونسل کی سربراہی کے لیے چنے جا رہے ہیں اور یہ چنائو ہمیشہ اس قدر ٹرانسپئرنٹ ہوتا ہے کہ کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہم نے محترم شاہ کو ان ہی کالموں کے ذریعے بار بار یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ پاکستان خصوصاً کراچی میں کتاب کلچر کو زندہ کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات ہونے چاہئیں کیوں کہ موجودہ انتشار انارکی اور جرائم کی بھرمار سے نمٹنے کے لیے محض قانون اور انصاف کی کوشش کافی نہیں بلکہ فکری تبدیلی کے ایک منظم پروگرام کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے کتاب کلچر کا احیاء انتہائی موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں مجموعی طور پر ماضی کی نسبت ادبی سرگرمیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے، لاہور اور کراچی میں تسلسل کے ساتھ ادبی میلے سجائے جا رہے ہیں، اس حوالے سے شہر قائد کا سالانہ عالمی مشاعرہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ لاہور میں بھی تسلسل کے ساتھ ادبی محفلیں برپا کی جا رہی ہیں، جن کی تفصیل ہمیں انتظار حسین کے کالموں سے مل جاتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی ابتری فکری تبدیلی کے بغیر ختم نہیں ہو سکتی جیسا کہ ہم نے آرٹس کونسل کراچی کے پروگراموں کی محدودیت کا ذکر کیا ہے لاہور کے ادبی اور ثقافتی پروگراموں کی صورت حال آرٹس کونسل کراچی سے مختلف نہیں ہے۔
جو لوگ ان محدود پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں، فکری تبدیلی ان کا مسئلہ نہیں ہے معاشرے کی اجتماعی بگاڑ پر قابو پانے کے لیے عوام میں فکری تبدیلی کی ضرورت ہے اس کے دو موثر طریقے ہیں ایک یہ کہ کتاب کلچر کو زندہ کیا جائے دوسرے یہ کہ ثقافتی پروگراموں خصوصاً بامقصد ڈراموں کو الیکٹرانک میڈیا کے تعاون سے پیش کیا جائے، الیکٹرانک میڈیا آج ایک ایسا ہمہ گیر میڈیم ہے کہ اس کی رسائی گائوں گائوں تک ہے کوئی علاقہ، کوئی شہر، کوئی گائوں اس کی پہنچ سے دور نہیں اگر الیکٹرانک میڈیا کا تعاون حاصل کیا جائے تو ایسے بامقصد بامعنی ڈرامے عوام کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں جو ان میں فکری تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔
ہمارے چینلز پر اگرچہ مقابلے کی فضا کی وجہ سے ڈراموں کی بھرمار ہے جن میں غیر ملکی ڈرامے بھی شامل ہیں لیکن یہ ڈرامے عام طور پر مکر و فریب، جرائم اور لو اسٹوریز پر مبنی ہوتے ہیں جو عوام میں فکری تبدیلی لانے کے بجائے محض تفریحی طبع کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمارے یہاں بہت سارے تھیٹر گروپ موجود ہیں اور بامقصد طنزیہ ڈرامے بھی پیش کر رہے ہیں لیکن یہ کام ایک تو کمرشل بنیاد پر کیا جا رہا ہے دوسرے یہ پروگرام چند ہالوں کی چہار دیواری تک محدود ہیں جب کہ ان کی ضرورت ملک کے ہر علاقے کو ہے۔ ملک میں عوامی تھیٹر کی ضرورت ہے۔ کتاب کلچر کی ضرورت اور اہمیت سے تو کوئی با شعور اور سنجیدہ شخص انکار نہیں کر سکتا لیکن اس کے احیاء کا طریقہ کار کیا ہو۔؟
اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ادب لکھا جا رہا ہے افسانے میں جدت بھی آ رہی ہے موضوع میں تنوع بھی ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ عوام تک رسائی کا کوئی نظام نہیں ہے بڑے بڑے لکھاری مشکل سے 500کی تعداد میں ایک کتاب چھپواتے ہیں جو یا تو بک اسٹالوں پر پڑی سڑتی رہتی ہیں یا مصنف کے اسٹور کی زینت بنی رہتی ہیں یا دوست احباب میں مفت تقسیم ہو جاتی ہیں کیوں کہ نہ عوام کو ان کے شایع ہونے کا پتہ ہوتا ہے نہ عوام تک ان کی رسائی کا کوئی نظام موجود ہے، اس تناظر میں کیا یہ ممکن نہیں کہ آرٹس کونسلز دوسری ادبی تنظیمیں اپنے پبلشنگ ہائوس قائم کریں اور ایسی ادبی کمیٹیاں بنائیں جو قومی اور بین الاقوامی ادب کی منتخب کتابوں کے سستے ایڈیشن اپنے پبلشنگ ہائوسز میںچھاپیں۔
الیکٹرانک میڈیا پر ان کا تعارف کرائیں اور عوام تک ان کتابوں کی رسائی کے لیے جگہ بک اسٹالز قائم کریں یا اخباری ہاکرز کے تعاون سے ان کی فروخت کا اہتمام کریں۔ اس حوالے سے ہم نے کیبن لائبریریز کی ایک اسکیم کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ 60ء،70 ء اور 80ء کی دہائیوں میں ہر علاقے میں کیبن لائبریری ہوا کرتی تھی جہاں برصغیر کے معروف ادیبوں کی کتابیں کرائے پر دستیاب ہوتی تھیں اور عام آدمی آسانی سے یہ کتابیں حاصل کر کے ان کا مطالعہ کرتا تھا، ہم نے اپنے اندھے بہرے اور گونگے حکمرانوں کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ یہ لائبریریاں قائم کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے قرضوں کی ایک اسکیم شروع کی جائے جس کا استعمال صرف لائبریریوں کے قیام میں کیا جائے۔ اس اسکیم سے ہر علاقے میں کیبن لائبریریاں قائم ہو جائیں گی اور عوام آسانی سے اپنی پسند کی کتابیں حاصل کر سکیں گے۔ کیا یہ اسکیم کتاب کلچر کے احیاء میں معاون ثابت نہیں ہو سکتی ؟ لیکن سوال ادبی تنظیموں کی ترجیحات کا ہے۔