فارمولا
تیمر کے جنگلات سمندری حیات کے لیے نہایت ضروری اور سود مند ہوتے ہیں ۔۔۔
شیر شاہ سوری مغل افواج کا وہ جرات مند اور بہادر سردار تھا جس نے مغل خاندان کے سلسلہ حکمرانی کو ابتداء میں ہی بریک لگادیا تھا اور دوسرے مغل حکمران نصیر الدین ہمایوں کو اقتدار سے بے دخل کر کے ایران بھاگنے پر مجبور کردیا تھا ۔ اس کا اصل نام فرید خان تھا وہ شیر شاہ کا لقب اختیار کر کے ہندوستان کا بادشاہ بنا ۔ شیر شاہ سوری نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عوامی فلاح و بہبود کے اتنے منصوبے مکمل کیے، جتنے شاید پورا مغل خاندان اپنی تقریباً سوا تین سو سالہ مدت اقتدار میں بھی مکمل تو کیا متعارف بھی نہ کرا پایا ۔ بدقسمتی سے شیر شاہ سوری زیادہ عرصہ نہ جی سکا اور اس کے وارث بھی نااہل ثابت ہوئے لیکن شیر شاہ سوری کے جیتے جی نصیر الدین ہمایوں دہلی کے تخت پر دوبارہ قابض ہونے کی جرات نہ کرسکا۔
موجودہ جی ٹی روڈ اور دہلی سے ملتان تک کی شاہراہ شیر شاہ سوری کی ہی بنوائی ہوئی ہیں۔جو آج بھی زبان حال سے اپنے معمار کی عظمت کی کہانیاں سناتی ہیں ۔ شاہراہوں کے کنارے گھنے درخت اور مسافر خانے ، ڈاک کا تیز ترین نظام اور فوج میں کی جانے والی اصلاحات کے علاوہ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ امن و امان اور فراہمی انصاف کے لیے اس نے ایسا فارمولا وضع کیا تھا کہ شیر و بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے ۔ حصول انصاف کے لیے رعایا کو ہزاروں میل کا سفر طے کر کے کسی بادشاہ کے محل کے باہر نصب زنجیر عدل کھینچنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ یہ انصاف اسے اپنے گھر کی دہلیز پر یا اپنی گلی میں ہی مل جایا کرتا تھا ، لیکن مجرم کو قانون کی فوری گرفت میں لانے کے لیے اس نے ایک مفید اور عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا تھا ۔
شیر شاہ کے اختیار کردہ طریقہ کار کے مطابق اگر کسی علاقے میں کوئی جرم کی واردات ہوجاتی اور مجرم یا ملزم گرفت میں نہ آتا تو شیر شاہ اس علاقے کے کوتوال کو ایک نہایت مختصر مدت کی چھوٹ دیا کرتا جو عموماً تین دن سے زیادہ کی نہ ہوتی ، کوتوال کو آپ آج کے زمانے کا ایس پی یا ایس ایس پی سمجھ لیں اور ساتھ ہی یہ وارننگ بھی کوتوال کو دی جاتی کہ اگر مطلوبہ چور ، ڈاکو یا قاتل دی گئی مدت میں گرفتار نہ ہوا تو کوتوال کو حوالات میں ڈال دیا جائے گا اور ایسا کیا بھی جاتا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر کوتوال ہمہ وقت اپنے علاقے کی کڑی نگرانی کرتا اور اپنے ماتحت عملے کو ہر وقت فعال رکھتا کہ وہ علاقے میں اول تو جرم ہونے ہی نہ دیں اور بالفرض کوئی واردات ہو بھی جائے تو مجرم کو فوری طور پر قانون کی آہنی گرفت میں لایا جائے۔
کیونکہ کوئی بھی کوتوال مجرم کی جگہ خود جیل کی ہوا کھانا ہرگز پسند نہیں کرتا تھا ۔ اس طریقہ کار کے باعث پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال مثالی تھی اور عوام سونے کے سکے اچھالتے ہوئے سنسان راستوں پر بھی بے کھٹکے سفرکیا کرتے تھے ۔ کوتوال صاحب اس وقت تک حوالات کے اندر محبوس رہتے جب تک ان کا عملہ اصل مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہوجاتا ۔ آپ خود ہی سوچئیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ آج کے دور میں کیا یہی طریقہ کار اختیار کر کے ملک میں مثالی امن اور جرائم کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا ؟ مختلف تھانوں کی حدود میں قائم جوئے اور منشیات اڈے قائم کرنے کی کیا کوئی جرات کرسکتا ہے ؟ سب جانتے ہیں کہ بغیر پولیس اور متعلقہ سرکاری محکموں کے اہلکاروں کے تعاون ، ان کی مدد اور ان کا '' حصہ '' ادا کیے بغیر نہ تو جرائم کے اڈے چل سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی مافیا اور قبضہ گروپ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں اسمبلی کے اندر مناسب قانون سازی کر کے شیر شاہ سوری کے اس قدیم فارمولے کو آزمایا جاسکتا ہے ۔ لیکن بادی النظر میں ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ اس لیے کہ ہر شخص کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ہم تو گزشتہ نصف صدی سے فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کو ان کا حق نہیں دلوا سکے ، کیونکہ شہر کے ہر فٹ پاتھ پر پتھارہ مافیا نے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں اور کسی مائی کے لعل میں آج تک اتنی جرات بھی پیدا نہ ہوسکی کہ اس مافیا کو للکارنا تو دور کی بات اس کے بارے میں کوئی '' بھرتی '' کا بیان ہی دے سکے ۔ جس کسی نے اس کی جرات کی ، چند دنوں کے لیے تو یہ فٹ پاتھ خالی ہوئے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ '' جرات مند ''کسی ریگستانی علاقے میں اپنے فرائض انجام دیتا ہوا نظر آیا اور فٹ پاتھ پھر سے '' پر رونق '' نظر آنے لگے۔
لیکن اگر کسی بھی علاقے کے ذمے دار ہائی آفیشل کو قانونی طور پر پابند کر کے شیر شاہ سوری کے فارمولے کو اس پر لاگو کردیا جائے تو وہ آفیسر اپنی بھاری تنخواہ ، سرکاری مراعات اور سرکاری اختیار کو بچانے کے لیے ہر قسم کی مافیا کی جانب سے کی جانے والی پر کشش پیشکش کو لازماً ٹھکرا دے گا کیونکہ اگر سرکاری اختیار یا نوکری ہی نہ رہی اور جیل مقدر بن گئی تو پھر کہاں کی مافیا اور کہاں کی دو نمبر کمائی ؟ ہم شیر شاہ کے فارمولے پر عمل درآمد تو کیا کرتے صرف '' بھرتی '' کے بیانات دیکر خود بھی ان بیانات کو بھول جاتے ہیں اور عوام نے بھی ان بیانات پر اب ہنسنا چھوڑ دیا ہے ۔ ورنہ یہ بیانات تو '' زندہ لطیفوں '' سے کم نہیں ہوتے مثلاً '' وزیر اعلیٰ نے شہر میں ہونے والے ٹریفک جام کا نوٹس لے لیا '' ۔ پھر سی ایم صاحب کی جانب سے ہدائیت جاری ہوتی ہے کہ '' ٹریفک کی روانی کوقائم رکھنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں ۔''
نہ جانے یہ ہدایات کسے دی جا رہی ہوتی ہیں ، ظاہر ہے ڈی آئی جی ٹریفک کو ۔اگر ڈی آئی جی ٹریفک کو یہی نہیں معلوم کہ ان کی ذمے داریاں کیا ہیں ؟تو اس عہدے کا فائدہ؟ اس کی بجائے اگر ڈی آئی جی ٹریفک کو معطل کرکے وہ اپنے سامنے پیش ہونے اور ایک غیر جانبدار اور تیز رفتار انکوائری کرواکر ڈی آئی جی صاحب کو ان کی غفلت پر قرار واقعی سزا دے کر برطرف کرنے کے احکامات صادر فرمادیں ۔ تو نیا ڈی آئی جی یقینا پیک ٹائم میں بجائے اپنے آفس کے شہر کی مصروف ترین شاہراہ پر بہ نفس نفیس خود موجود ہوگا اور ان کی موجودگی میں مجال ہے کہ ایک منٹ کے لیے بھی ٹریفک جام ہوجائے ۔ کیا ڈی آئی جی ٹریفک کو علم نہیں کہ ان کا تقرر کس لیے کیا گیا ہے اور ان کی ڈیوٹی کیا ہے ؟ اسی طرح سمندر میں موجود تیمر کے درخت جب ایک مافیا نے کاٹنے شروع کیے تو وزیر اعلیٰ سندھ نے نوٹس لے کر مجرموں سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ہدایت جاری کردی ۔
تیمر کے جنگلات سمندری حیات کے لیے نہایت ضروری اور سود مند ہوتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ان جنگلات کی حفاظت اور ان کی دیکھ بھال جس محکمے کو سونپی گئی ہے کیا یہ سرکاری محکمہ اور اس کا سربراہ غفلت کا مرتکب نہیں ہوا ؟ اگر سی ایم صاحب کو میڈیا کے ذریعے یہ اطلاع مل ہی گئی کہ کوئی مافیا ان جنگلات پر ہاتھ صاف کر رہی ہے تو ان کی حفاظت کے ذمے دار محکمہ کا احتساب کرنے کے بجائے اسے مجرموں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ہدایت جاری کرنا کیا یہ زندہ لطیفہ نہیں ہے ؟ اور اسے شیر شاہ سوری کے بالکل برعکس فارمولے کا نام نہیں دیا جاسکتا ؟لیکن جس پارلیمنٹ میں جعلی ڈگری رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کی بھرمار ہو وہ بھلا کیا جانیں کہ تاریخ کس چڑیا کا نام ہے اور شیر شاہ سوری کون تھا؟