ہمیشہ دیر کردیتا ہوں

ہمارے ہاں حکومتیں آتی ہیں چلی جاتی ہیں اور جس انداز سے جاتی ہیں اس پر عدالتوں میں بھی چیلنج کردیا جاتا ہے۔۔۔۔


Shehla Aijaz April 18, 2014
[email protected]

ہم لکیریں پیٹنے کے عادی ہیں، جو چلا جاتا ہے اس کے پیچھے اتنے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں کہ اسی ادھیڑ بن میں وقت سرکتا چلا جاتا ہے، صرف یہی نہیں بہت سا قیمتی سرمایہ اور توانائی بھی صرف کی جاتی ہے اگر اس کو ملک میں ترقی کے کسی اہم کام میں لگا دیا جاتا تو۔۔۔۔لیکن ہم عادی نہیں ہیں، ہمیشہ دیر کردیتے ہیں۔

ہمارے ہاں حکومتیں آتی ہیں چلی جاتی ہیں اور جس انداز سے جاتی ہیں اس پر عدالتوں میں بھی چیلنج کردیا جاتا ہے یہ ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے ماسوائے اس گزشتہ حکومت کے جس نے خداخدا کرکے اپنی مدت مکمل کی اور عوام نے شکر ادا کیا کہ سب کچھ خیر خیریت سے گزر گیا، حکومتوں کے انقلاب میں تیسری دنیا میں پاکستان ایسا ملک ہے جہاں اس حوالے سے بہت کچھ ہوچکا ہے۔ بلکہ اسے اس معاملے میں قانونی مہم جوئی کی لیبارٹری کہا جاسکتا ہے، ہر روز ایک نئی بات سامنے آتی ہے۔

ایک کھینچا تانی کی سی کیفیت ہے پاکستان کی حالت ایک ایسے بھرے پرے کنبے کی سی ہے ،جہاں گھر کے بڑے ادھر ادھر بالکنیوں اور کھڑکیوں سے لٹکے چیخ چیخ کر اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں اور عوام گھر کے سہمے بچوں کی طرح ٹکر ٹکر سب کے منہ تک رہی ہے کہ آخر یہ بڑے اپنی تو تو میں میں ختم کرکے کب ہمارے لیے سوچیں گے کیا انھیں ہمارے مستقبل کی فکر نہیں ہے؟ اس لڑائی جھگڑے کا شکار کون بن رہا ہے ، عوام اور صرف عوام۔ عوام کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سامان کرتے کرتے ہلکان ہو رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے، پنجاب میں حالت کچھ بہتر ہے تو اس کی بھی فکر ہے کہ کیوں؟

دنیا بھر میں انقلابات زیادہ تر جنوبی امریکا میں آئے اور وہاں کسی انقلاب کو قانونی طور پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا وہاں کے آئین قانون میں اس کی گنجائش ہی نہیں۔ 1932 میں میکسیکو کے ایک سابق وزیر خارجہ نے ایک بیان دیا تھا اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''آئین کی بنیاد اور سہارا ہی طاقت اور قوت ہوتی ہے جب کوئی طاقت آئین کا یہ سہارا کھینچ لیتی ہے تو آئین غیر موثر ہوجاتا ہے۔'' میکسیکو کے وزیر خارجہ نے اس دلیل کی رو سے قرار دیا تھا کہ حکومت تبدیل کرنے کا معاملہ قانون کے تحت نہیں آتا اور قانونی مسئلہ نہیں بنتا بلکہ یہ ایک مکمل طور پر الگ سے سیاسی مسئلہ بنتا ہے۔

مغربی ممالک میں برسہا برس کے تجربات اور ریاضتوں کے بعد جمہوری نظام کو اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ ہر قسم کی طاقت اور وقت کو آئین اور قانون کے تابع کردیا گیا ہے وہاں کسی قسم کی انقلابی مہم جوئی کا تصور نہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے ممالک میں اپنے اپنے نظاموں کے تحت مستحکم حکومتیں چلانے والے تیسری دنیا کے ممالک میں جس جس انداز سے اثر انگیز ہوئے ہیں اسے ڈھکے چھپے لفظوں میں خفیہ ہاتھ کہہ لیں بڑی طاقت کہہ لیں لیکن چھوٹے گھروں کو غیر مستحکم کرنے میں کسی نہ کسی حوالے سے پیش پیش رہے ہیں ۔شاید اپنے ممالک میں سرد گرم تجربات کرنے کے بعد دوسرے ممالک میں تجرباتی چوہوں جیسے ریسرچ کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں افغانستان کی روس کی جارحیت کے بعد سے جس طرح کے اثرات مرتب ہوئے تھے اس کے بعد سے لے کر آج تک ہم اپنی سمت کا تعین نہیں کرسکے اور اس دوران اتنا وقت سرک گیا اور پاکستان کے خطہ ارض میں نئی نئی آبادیاں وجود میں آتی گئیں یہ آکاس بیل کی طرح خود بخود منڈھے نہیں چڑھتی گئی لیکن آتے جاتے کرسیوں کے مسافر بہت کچھ جانتے بوجھتے بھی بت بنے رہے۔ بڑھتی آبادی کے ساتھ مہنگائی، فرقہ واریت ، مذہبی منافرت اور لسانیت کا غبار جو پہلے کچھ کم تھا اب سر چڑھ کر بول رہا ہے، دہشت گردی اور دوسروں کو جنگی اثرات سے بچاتے بچاتے ہم خود اپنے ہاتھ لہو لہان کرچکے ہیں، جو ہو چکا ہے وہ ہوچکا ہے آگے کیا کرنا ہے اپنی سوچ کو مثبت انداز سے آگے بڑھانے میں ہی عافیت ہے۔

یہ درست ہے کہ ہم میکسیکو کی طرح بار بار آئین کی کتابیں نہیں بدلنا چاہتے اور نہ ہی بلاول بھٹو کی طرح کوئی خواب دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک قوم کی طرح برتاؤ کرنا چاہیے ایک ایسی قوم جو سڑسٹھ برس گزر جانے کے بعد بھی اپنی بنیادوں پر گرفت مضبوط نہ کرسکی، حد تو یہ ہے کہ فرقہ واریت دہشت گردی اور اسی طرح کے شیطانی منصوبے کرنے والے بھی کرکرکے تھک گئے اور اب انٹرنیٹ کے ذریعے عام عوام تک یہ پیغام پہنچایا جا رہا ہے کہ جناب اس طرح کرتے ہیں ہم کارروائی۔ ذرا دیکھیے تو ہم یوں بنتے ہیں جال اپنے ملک کے خلاف ذرا سمجھیے تو۔ بہرحال سفر تو جاری ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کرنا ہمارے ملک کی ایک روایت بن چکا ہے، آئے دن اخبارات و ٹی وی نیوز چینلز پر اسی قسم کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن اس سلسلے میں بہت بھاگ دوڑ کے بعد بھی نتیجہ خاص نہ نکلا۔ شادی کی تقریب میں رشتے دار نوجوانوں کے رقص اور لڑکیوں کے تالی بجانے کے عمل پر انھیں غیرت، عزت کے نام پر دنیا سے رخصت کردینا ایک دردناک داستان تھی لیکن سابق وزیر میر ظفر اللہ جمالی کے حوالے سے ہی غیرت کے نام پر بیوی، سالی اور ساس کا قتل ایک سوالیہ نشان بن کر ابھرتا ہے۔

اب اسے جرگہ کارروائی کہیں یا کچھ اور لیکن لاکھوں روپے جرمانے کے بعد بھی ان کے دامن سے یہ داغ دھل نہ پائے گا۔ ہم بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، جمہوری اور آمرانہ دور کی کہانیاں سنتے ہیں تنقیدیں کرتے ہیں، تضحیک اڑاتے ہیں لیکن جب اپنے گھر سے چنگاری ابھرتی ہے تو اسے صرف میرا اپنا مسئلہ سمجھ کر جس طرح بھی چاہے سلوک کرتے ہیں۔ اس وقت تمام قوانین گھر کی لونڈی بن جاتے ہیں، چاہے کوئی وزیر ہو، سفیر ہو، جرنل ہو یا جج سابقہ کے حوالے سے ہی کہانیاں ابھرتی ہیں کیونکہ کرسی کرسی ہوتی ہے جس کے پائے زمین کے اندر تک تکبر، خودغرضی اور بے ضمیری کے عناصر کے گارے سے مضبوط ہوچکے ہوتے ہیں۔

پاکستان سمیت بہت سے اسلامی ممالک تجرباتی لیبارٹریز بنتے جا رہے ہیں۔ تجربوں کی نوعیت مختلف ہے لیکن اس کا نتیجہ دیکھنے والے ایک جیسا ہی نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں، مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ ایک پلیٹ فارم ایک مضبوط طاقت کا کھلم کھلا اعلان کرسکتا ہے۔ وہ اعلان اور احساس برتری کے اس خوف کو دور کرنے کے لیے کوئی اور تو کیا ہم خود اپنے لیے جال بن رہے ہیں۔ قومیتوں اور مذہبی تعصب نے ہماری ترقی کی راہ مسدود کر دی ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا ملک ان بہت سے خاموش محب وطن لوگوں کی دعاؤں سے بار بار الجھ الجھ کر بھی حوادث سے نکل جاتا ہے جس میں الجھا کر ہمیشہ کے لیے ہماری آزادی، اتحاد، ایمان، جوش و جذبات کو سلا دینے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔

پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسائل سامنے نظر آتے تھے لیکن اب دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کی ایمانی اور جذباتی وابستگی کے حوالے سے ایسی بدترین تصاویر سامنے آچکی ہیں جسے دیکھ کر ایک عام انسان بھی رو پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی، سود خوری، کرپشن، اقربا پروری، اپنے اختیارات کا غلط استعمال اور غیر ذمے داری اب ترقی کے نئے ایڈیشن میں درج کیے جاچکے ہیں لیکن کیا اس نئے ایڈیشن سے ہم مشکلات کے دریا کو عبور کرسکیں گے کہیں ایسا نہ ہو کہ... ہمیشہ دیر کردیتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں