کل ہماری نئی نسل کا کیا بنے گا
نہرو نے صحیح کہا تھا کہ چالیس کروڑ ہندوستانی، چالیس کروڑ مسائل ہیں
گزشتہ دنوں ہم ایک مضمون پڑھ رہے تھے جس کی ابتدا یوں ہوتی ہے '' 1960 کے آس پاس جب ہندوستان کی آبادی چالیس کروڑ تھی اور آنجہانی پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ چالیس کروڑ ہندوستانی، چالیس کروڑ مسائل ہیں۔''
دنیا کی آبادی گزشتہ دنوں آٹھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ آج مسائل سے صرف غریب ترین ممالک ہی دو چار نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں میں بھی مسائل سنگین ہیں، نہرو کے جملے کے تناظر میں آج آٹھ ارب آبادی والی دنیا کے مسائل کی تعداد کیا ہوگی؟ سب سے بڑا مسئلہ تو معاشی بحران ہے۔ جس سے ہم اور ہمارا ملک ہی نہیں امریکا بھی دوچار ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سامنے ایک ترقی یافتہ ملک اور قوم کے طور پر ہماری بہتر تصویر ہے مگر جب ذرا سنجیدہ ہو کر اپنی اور اپنے ملک کی اس تصویر کو دیکھتے ہیں تو یہ تصویر ہمیں پریشان کر دیتی ہے، ہم ممبئی جیسے مہا نگر (بڑے شہر) میں رہتے ہیں اور ہندوستان میں یہ مہا نگر ایک نہیں کئی ہیں۔ ہم اگر صرف ان مہانگروں کی (اندرونی ) صورت حال پر بغور نظر ڈالتے اور سوچتے ہیں تو جھرجھری سی محسوس ہوتی ہے کہ بیشمار گھروں میں بے روز گار نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھیں دس بیس ہزار تو جانے دیجیے پانچ چھ ہزار کی نوکری بھی نہیں مل رہی ہے۔
اسی طرح اسی معاشرے میں بیٹیاں اور بہنیں بھی گھر گھر مل جائیں گی، جو اپنے رشتوں کے انتظار میں اپنے بالوں کو چاندی ہوتے دیکھ رہی ہیں۔
بات لڑکیوں کے رشتوں کی آگئی ہے تو گزشتہ دنوں کا ایک واقعہ بھی ہمارے قارئین تک پہنچے۔ گزشتہ زمانے میں ہزاروں میں کہیں ایک دو ادارے ایسے ہوتے تھے جو رشتے ناتے کا ''کاروبار'' کرتے تھے اور خیر سے اب تو اخبارات اور اور انٹر نیٹ پر بھی '' تلاش رشتہ '' کا کاروبار عام ہے اور انھیں اب معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
اس کے علاوہ جیسے پہلے ہمارے گاؤں وغیرہ میں یہ کام ''نائن'' ( شادی بیاہ میں کام کرنے والی عورتیں جن کا تعلق باربر برادری سے ہوتا تھا) وغیرہ انجام دیتی تھیں، اب محلے محلے ایسی عورتیں عام ہوتی جارہی ہیں جو رشتے لگاتی ہیں بلکہ ان کے بارے میں ہمیں گمان ہے کہ وہ رشتوں کی ''کمیشن ایجنٹ'' بنی ہوئی ہیں۔ ممبرا ریلوے اسٹیشن پر ہمارے قریب سے گزرتی ہوئی ایک عورت اپنے کسی عزیز یا کسی پڑوسی کو دیکھ کر رک گئی اور اس سے سلام و کلام کا سلسلہ شروع ہوا۔
مرد : زلیخا ! کیسا چل رہا ہے تمہارا '' رشتے ناتے '' کا کاروبار؟
زلیخا کا جواب: '' ہاں ٹھیک ہے۔''
حال ہی میں ایک لڑ کی کا رشتہ کرایا ہے۔ لڑکی بیچاری غریب ماں کی اولاد تھی، باپ اس کا پہلے ہی مر چکا تھا۔ میں نے انور کے بیٹے سے اس کا رشتہ لگایا تھا، جس دن ہلدی مہندی کی رسم تھی، میں بھی گئی تھی۔ دیکھا تو یوسف ( یہ سارے نام فرضی ہیں) شراب کے نشے میں دھت تھا۔ لڑکی والوں نے بھی اس کی یہ حالت دیکھی تو پس و پیش میں مبتلا ہوئے، میں نے یوسف کو ( ممبیا بولی میں ) ڈانٹا کہ آج کے دن تو تیرے کو ذرا ٹھیک ٹھاک رہنا چاہیے تھا، تو یوسف نے میرے کو،کیا جواب دیا، معلوم ہے؟''
مرد : '' کیا بولا یوسف نے ؟''
''ارے زلیخا آنٹی ! تمہارے کو تمہارے دو ہزار مل گئے نا، ابھی چپ رہو نا۔''
وہ تو میں نے لڑکی والوں کو سمجھا بجھا کر نکاح کرا دیا کہ ہو سکتا ہے کہ لڑکا شادی کے بعد کل سدھر جائے۔!''
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ دوسرے کی لڑکی کے لیے تو ایسا فارمولہ اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے مگر جب اپنی بیٹی یا بہن کا معاملہ ہو تو دو ٹوک فیصلہ'' نہیں '' ... میں ہوجاتا ہے۔ آج ہم سب مہنگائی کی باتیں کرتے ہیں۔ در اصل عام آدمی کی شرح آمدنی اور مہنگائی کی شرح کا جو فرق ہے وہی سارے مسائل کی جڑ ہے۔
پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ہندوستانی پارلیمان کے رکن اور اپنے وقت کے مشہور ماہر معاشیات رام منوہر لوہیا نے ، پارلیمان میں جب وزیراعظم نہرو ہندوستانی شہریوں کی اوسط آمدنی بتا رہے تھے تو انھیں ٹوکا۔ ''پنڈت جی! آپ کے افسران نے جو اعداد و شمار آپ کو دیے ہیں وہ غلط ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت ایک عام ہندوستانی شہری کی اوسط آمدنی صرف تین آنے ہے۔''
اس اوسط آمدنی کو پانچ دہائی سے زیادہ مدت گزر چکی ہے، ہمارے ایک دوست کے خام اندازے کے مطابق اب اس ایٹمی ملک کے 45 فیصد لوگوں کی یومیہ آمدنی فی کس دس روپے ہے۔ یعنی تین سو روپے ماہانہ۔ یوں دیکھا جائے تو لوہیا کے تین آنے اب دس روپے میں بدل گئے ہیں یہ اور بات کہ اب دس روپے کی بھی کیا حیثیت ہے۔ ذرا سوچیے کہ سالانہ 36 سو روپے کمانے والا کیا کھائے، کیا کھلائے اور اپنے بچوں کی شادی بیاہ کیسے کرے؟
نہرو نے صحیح کہا تھا کہ چالیس کروڑ ہندوستانی، چالیس کروڑ مسائل ہیں۔ اس بیان کے حساب سے آپ اب ان مسائل کو آٹھ بلین کی آبادی والی دنیا میں دیکھیں اور مسائل کی تعداد کا اندازہ لگائیں۔ افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ہماری سرکار اور ہمارے حکمرانوں کو ان مسائل سے دلچسپی ہے ہی نہیں انھیں تو بس اقتدار چاہیے۔ ایسے میں ہم بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ کل اس دنیا کا اور ہماری نئی نسل کا کیا بنے گا؟... کیا یہاں بھی یہی کہہ کر بات ختم کردی جائے۔
'' ہو سکتا ہے کہ لڑکا شادی کے بعد کل سدھر جائے؟''
دنیا کی آبادی گزشتہ دنوں آٹھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ آج مسائل سے صرف غریب ترین ممالک ہی دو چار نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں میں بھی مسائل سنگین ہیں، نہرو کے جملے کے تناظر میں آج آٹھ ارب آبادی والی دنیا کے مسائل کی تعداد کیا ہوگی؟ سب سے بڑا مسئلہ تو معاشی بحران ہے۔ جس سے ہم اور ہمارا ملک ہی نہیں امریکا بھی دوچار ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سامنے ایک ترقی یافتہ ملک اور قوم کے طور پر ہماری بہتر تصویر ہے مگر جب ذرا سنجیدہ ہو کر اپنی اور اپنے ملک کی اس تصویر کو دیکھتے ہیں تو یہ تصویر ہمیں پریشان کر دیتی ہے، ہم ممبئی جیسے مہا نگر (بڑے شہر) میں رہتے ہیں اور ہندوستان میں یہ مہا نگر ایک نہیں کئی ہیں۔ ہم اگر صرف ان مہانگروں کی (اندرونی ) صورت حال پر بغور نظر ڈالتے اور سوچتے ہیں تو جھرجھری سی محسوس ہوتی ہے کہ بیشمار گھروں میں بے روز گار نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھیں دس بیس ہزار تو جانے دیجیے پانچ چھ ہزار کی نوکری بھی نہیں مل رہی ہے۔
اسی طرح اسی معاشرے میں بیٹیاں اور بہنیں بھی گھر گھر مل جائیں گی، جو اپنے رشتوں کے انتظار میں اپنے بالوں کو چاندی ہوتے دیکھ رہی ہیں۔
بات لڑکیوں کے رشتوں کی آگئی ہے تو گزشتہ دنوں کا ایک واقعہ بھی ہمارے قارئین تک پہنچے۔ گزشتہ زمانے میں ہزاروں میں کہیں ایک دو ادارے ایسے ہوتے تھے جو رشتے ناتے کا ''کاروبار'' کرتے تھے اور خیر سے اب تو اخبارات اور اور انٹر نیٹ پر بھی '' تلاش رشتہ '' کا کاروبار عام ہے اور انھیں اب معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
اس کے علاوہ جیسے پہلے ہمارے گاؤں وغیرہ میں یہ کام ''نائن'' ( شادی بیاہ میں کام کرنے والی عورتیں جن کا تعلق باربر برادری سے ہوتا تھا) وغیرہ انجام دیتی تھیں، اب محلے محلے ایسی عورتیں عام ہوتی جارہی ہیں جو رشتے لگاتی ہیں بلکہ ان کے بارے میں ہمیں گمان ہے کہ وہ رشتوں کی ''کمیشن ایجنٹ'' بنی ہوئی ہیں۔ ممبرا ریلوے اسٹیشن پر ہمارے قریب سے گزرتی ہوئی ایک عورت اپنے کسی عزیز یا کسی پڑوسی کو دیکھ کر رک گئی اور اس سے سلام و کلام کا سلسلہ شروع ہوا۔
مرد : زلیخا ! کیسا چل رہا ہے تمہارا '' رشتے ناتے '' کا کاروبار؟
زلیخا کا جواب: '' ہاں ٹھیک ہے۔''
حال ہی میں ایک لڑ کی کا رشتہ کرایا ہے۔ لڑکی بیچاری غریب ماں کی اولاد تھی، باپ اس کا پہلے ہی مر چکا تھا۔ میں نے انور کے بیٹے سے اس کا رشتہ لگایا تھا، جس دن ہلدی مہندی کی رسم تھی، میں بھی گئی تھی۔ دیکھا تو یوسف ( یہ سارے نام فرضی ہیں) شراب کے نشے میں دھت تھا۔ لڑکی والوں نے بھی اس کی یہ حالت دیکھی تو پس و پیش میں مبتلا ہوئے، میں نے یوسف کو ( ممبیا بولی میں ) ڈانٹا کہ آج کے دن تو تیرے کو ذرا ٹھیک ٹھاک رہنا چاہیے تھا، تو یوسف نے میرے کو،کیا جواب دیا، معلوم ہے؟''
مرد : '' کیا بولا یوسف نے ؟''
''ارے زلیخا آنٹی ! تمہارے کو تمہارے دو ہزار مل گئے نا، ابھی چپ رہو نا۔''
وہ تو میں نے لڑکی والوں کو سمجھا بجھا کر نکاح کرا دیا کہ ہو سکتا ہے کہ لڑکا شادی کے بعد کل سدھر جائے۔!''
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ دوسرے کی لڑکی کے لیے تو ایسا فارمولہ اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے مگر جب اپنی بیٹی یا بہن کا معاملہ ہو تو دو ٹوک فیصلہ'' نہیں '' ... میں ہوجاتا ہے۔ آج ہم سب مہنگائی کی باتیں کرتے ہیں۔ در اصل عام آدمی کی شرح آمدنی اور مہنگائی کی شرح کا جو فرق ہے وہی سارے مسائل کی جڑ ہے۔
پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ہندوستانی پارلیمان کے رکن اور اپنے وقت کے مشہور ماہر معاشیات رام منوہر لوہیا نے ، پارلیمان میں جب وزیراعظم نہرو ہندوستانی شہریوں کی اوسط آمدنی بتا رہے تھے تو انھیں ٹوکا۔ ''پنڈت جی! آپ کے افسران نے جو اعداد و شمار آپ کو دیے ہیں وہ غلط ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت ایک عام ہندوستانی شہری کی اوسط آمدنی صرف تین آنے ہے۔''
اس اوسط آمدنی کو پانچ دہائی سے زیادہ مدت گزر چکی ہے، ہمارے ایک دوست کے خام اندازے کے مطابق اب اس ایٹمی ملک کے 45 فیصد لوگوں کی یومیہ آمدنی فی کس دس روپے ہے۔ یعنی تین سو روپے ماہانہ۔ یوں دیکھا جائے تو لوہیا کے تین آنے اب دس روپے میں بدل گئے ہیں یہ اور بات کہ اب دس روپے کی بھی کیا حیثیت ہے۔ ذرا سوچیے کہ سالانہ 36 سو روپے کمانے والا کیا کھائے، کیا کھلائے اور اپنے بچوں کی شادی بیاہ کیسے کرے؟
نہرو نے صحیح کہا تھا کہ چالیس کروڑ ہندوستانی، چالیس کروڑ مسائل ہیں۔ اس بیان کے حساب سے آپ اب ان مسائل کو آٹھ بلین کی آبادی والی دنیا میں دیکھیں اور مسائل کی تعداد کا اندازہ لگائیں۔ افسوس اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ہماری سرکار اور ہمارے حکمرانوں کو ان مسائل سے دلچسپی ہے ہی نہیں انھیں تو بس اقتدار چاہیے۔ ایسے میں ہم بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ کل اس دنیا کا اور ہماری نئی نسل کا کیا بنے گا؟... کیا یہاں بھی یہی کہہ کر بات ختم کردی جائے۔
'' ہو سکتا ہے کہ لڑکا شادی کے بعد کل سدھر جائے؟''