اسٹیل ملز کی نج کاری
پاکستان اسٹیل کے قائم ہونے کے پندرہ سال کے بعد اس کی اوور ہالنگ کروائی جانی تھی وہ کیوں نہ کروائی جاسکی؟
سپریم کورٹ آف پاکستان اور لیبر کورٹس میں یونائیٹڈ ورکرز فرنٹ جو کہ متحدہ قومی موومنٹ کی ایمپلائز یونین ہے کی جانب سے ایڈوکیٹ طارق منصور خان کی توسط سے ایک پٹیشن زیر سماعت ہے جس میں ان کا موقف ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ملکی مفاد کے خلاف ہو گا، لیکن نج کاری کمیشن اس بات پر بضد ہے کہ اسٹیل ملز کو بیچ دیا جائے کیونکہ یہ مسلسل خسارے میں جا رہی ہے۔
اس پٹیشن کی سماعت کے دوران طارق منصور ایڈووکیٹ نے ہوشربا انکشافات کیے جن میں بتایا گیا کہ جس اسٹیل ملز کو دیوالیہ قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے، درحقیقت اس کے تمام وسائل کو اب تک ظاہر ہی نہیں کیا گیا اور اسے مسلسل خسارے میں دکھا کر اس کی نج کاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان اسٹیل ملز کو پاکستان حکومت نے 1968 میں پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن لمیٹڈ کے نام سے رجسٹرڈ کروایا۔ یہ اسٹیل ملز پاکستان میں اسٹیل کی کمی اور ضروریات کو پورا کرنے اور پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کرنے کے ارادے سے بنائی گئی تھی۔
پاکستان اسٹیل ملز کے لیے 1973 میں 19000 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی اور اسٹاف کے لیے تقریبا 4500 گھر بنائے گئے 55 میگا واٹس کے 3 تھرمل پاور پلانٹس۔ دنیا کی تیسرے سب سے بڑی لوڈنگ اور ان لوڈنگ یونٹ کی سہولت، ڈھائی ایکڑ پر محیط انڈرگرائونڈ سرنگیں ہیں، ریلوے لائنز ہیں، اسپتال ہیں، شادی ہالز، اسکولز، کالجز ہیں۔
اس وقت پاکستان اسٹیل ملز کی 1913 ایکڑ زمین کی موجودہ محتاط قیمت 9 کروڑ سے لے کر 12 کروڑ روپے فی ایکٹر ہے۔ اس میں پاکستان اسٹیل ملز کے پلانٹ، مشینری اور دیگر قابل انتقال پراپرٹیز شامل نہیں ہیں۔ پاکستان اسٹیل کی موجودہ 1913 ایکڑ زمین کی موجودہ مارکیٹ ویلیو 19 کھرب روپے سے 24 کھرب روپے بنتی ہے۔ 2008 میں اسٹیل ملز کے بینک اکائونٹ میں 25 ارب روپے موجود تھے لیکن اسٹیل ملز کو مسلسل خسارے میں دکھایا جا رہا تھا۔
انھوں نے آڈیٹر جنرل پاکستان کی آڈٹ رپورٹ 2009-10 کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا تھا کہ اسٹیل ملز منافع میں جا رہی تھی۔ انھوں نے وطن پارٹی بمقابلہ وفاق، 2016 کی پیٹیشن کا حوالہ دیا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے سوموٹو ایکشن لیا اور پرائیوٹائزیشن کے عمل کو منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ کورٹ نے اپنے آرڈرمیں لکھا کہ اسٹیل ملز کے اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کیے بغیر ان کی تشخیص کم (undervaluation) کی گئی ہے۔
2009-10 میں پھر ایک بار دھوکا دہی کے ذریعے اسٹیل ملز کو خسارے میں دکھانے کی کوشش کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ازخود نوٹس کے ذریعہ پہلے ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا اور بعدازان تمام کیسز نیب کو ٹرانسفر کر دیے گئے۔ 2015 میں سوئی گیس کے بلز ادا نہ کرنے کو بنیاد بنا کر پاکستان اسٹیل ملز میں پروڈکشن کا عمل روک دیا گیا۔ جس کے بعد گیس کے بلز کی ادائیگی روک دی گئی اور جواز دیا گیا کہ چونکہ گیس ہی نہیں ہے اس لیے اب مزید پروڈکشن ممکن نہیں ہے اور تب سے اب تک بد دیانتی سے اسٹیل ملزکو بند قرار دیا جا رہا ہے۔
نہ تو پروڈکشن پلان بنایا گیا اور نہ ہی بلز کی ادائیگی جان بوجھ کر کی گئی بلکہ عوام کے فنڈز سے گورنمنٹ سے کروڑوں روپے کا بیل آوٹ پیکیج لیا جا رہا ہے، جب کہ ا سٹیل ملز کے کھربوں کے اثاثوں کو گروی رکھ کر قرض لیا جا سکتا تھا۔ اس وقت اسٹیل ملز کی پیمنٹ 284 ارب روپے ہے جب کہ اس پر قرضہ 229 ارب روپے ہے جب کہ اگر اثاثوں کی مالیت دیکھی جائے تو 20 کھرب سے لے کر 34 کھرب تک بنتے ہیں اور یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کیا جائے تو ان کی مالیت اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔
اس طرح اگر اسٹیل ملز کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا تو سی پیک جیسے منصوبے کے لیے لوہا کہاں سے لائیں گے؟ حکومت کے ریزرو میں ویسے ہی ڈالرز کا قحط پڑا ہوا ہے اگر لوہا امپورٹ کیا گیا تو اس کے ادائیگی کے لیے ڈالر کہاں سے لائیں گے؟ سی پیک پروجیکٹ کے لیے اسپیشل اکنامک زون بنانا ہو گا، گوادر میں آئل ریفائنری لگانی ہو گی، کوئلے کی کانوں کے لیے فیکٹریز بنانی ہوں گی، ان سب کے لیے لوہا کہاں سے ملے گا؟ اسٹیل ملزکی پیداوار کی گنجائش 1.1 ملین میٹرک ٹن بتائی جاتی ہے۔
حال ہی میں کیے گئے تجزیے کے مطابق اس کی گنجائش 2.2 ملین میٹرک ٹن ہے اور حیرت کی بات ہے کہ آج تک اسٹیل ملز نے اپنی پوری گنجائش کے مطابق پیداوار نہیں دی۔ اسٹیل ملز کی پیداواری استطاعت کو ہمیشہ سے کم ظاہر کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسٹیل ملز کی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت بدانتظامی، کرپشن اور اقرباء پروری کی ایک بد ترین مثال ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل کے اثاثوں میں دس ہزار اکسٹھ ایکڑ پر آئرن اور ریزور کی کانیں ہیں، جھمپیر میں 844 ایکڑ پر لائم اسٹون کی کانیں ہیں جو بلاسٹ فرنس میں کام آتا ہے جب کہ مکلی میں 9800 ایکڑ پر کانیں ہیں۔ یہ تمام پراپرٹیز حکومت پاکستان کے پبلک فنڈز سے بنیں جو تقریبا 17.56 ارب روپے ہے، اگر اس وقت بھی فارنزک آڈٹ کے ذریعے اسٹیل ملزکے کل اثاثوں کی مالیت کا اندازہ کیا جائے تو پلانٹس کی قیمت الگ کر کے جن کی مالیت 700 ملین ڈالرز بتائی گئی ہے کو الگ کر کے بھی اربوں میں بنتی ہے لیکن ایک سازش کے ذریعہ پاکستان اسٹیل کو مکمل خسارہ میں ظاہر کیا جا رہا ہے، جب کہ اس کے پلانٹس، زمین اور دیگر اثاثوں کی قیمت الگ الگ ہے۔
حالیہ تخمینے کے مطابق پاکستان اسٹیل کا قرضہ 229 ارب ہے جب کہ اس کے حالیہ اثاثوں کی قیمت ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 کھرب سے 34 کھرب کے درمیان ہے لیکن بددیانتی دیکھیں کہ اس کی بیلینس شیٹ میں اسے مکمل خسارہ میں دکھایا جا رہا ہے اور پھر 20 مارچ، 2023 کو سوئی سدرن گیس کارپوریشن نے اس کی بولی لگا دی کہ 1400 ایکڑ ہمیں صرف 43 ارب میں دے دی جائے جب کہ درحقیقت پاکستان اسٹیل کہ ٹوٹل زمین 19013 ایکڑ سے زیادہ ہے۔
سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن نمبر 367/2019 کے فیصلے کے مطابق، عدالت نے 18.11.2019 کو حکم جاری کیا کہ پاکستان اسٹیل ملزکے اثاثے عوام کی ملکیت ہیں لہٰذا حکومت ان اثاثوں کو بیچنے کا اختیار نہیں رکھتی، جب کہ حکومت اس پبلک پراپرٹی کو خسارے میں دکھا کر بیچنے پر تلی بیٹھی ہے اور ایک ایسی زمین جس کی موجودہ مارکیٹ ویلیو، اگر سیپرا رولز کے تحت انٹرنیشنل بولی کے ذریعے لگائی جائے تو نو کروڑ سے شروع ہو کر ساڑھے دس سے بارہ کروڑ روپے فی گز ہے جب کی ایک بار پھر بد دیانتی سے اس کی قیمت تین کروڑ سے ساڑھے تین کروڑ دکھائی جا رہی ہے۔ جب کہ اسٹیل ٹائون میں تقریبا ساڑھے چار ہزار گھر بنے ہوئے ہیں اور ایک گھر کی قیمت ہی صرف ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔
گلشن حدید فیز I, II, III, IV کی زمین اسٹیل ملز کی ملکیت ہے، عریبین کنٹری کلب اس کی زمین پر بنا ہوا ہے، ڈاون اسٹریم پروجیکٹس کی جتنی انڈسٹریزہیں وہ اسٹیل ملز کی زمین پر بنائی گئی ہیں جن سے یہ کرایہ لیتے ہیں، گرڈ اسٹیشنز سے یہ کرایہ لیتے ہیں، لیبر کالونی اور کے الیکٹرک سے یہ کرایہ لیتے ہیں جو کبھی کسی فورم پر بتایا ہی نہیں گیا۔ یہ عوام کے پیسے سے بنائی جانیوالی کمپنی ہے یہ کوئی پرائیویٹ کمپنی نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے بند کر دی جائے۔
گورنمنٹ آف پاکستان 12 فیصد شئیر ہولڈنگ 2008 میں پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو دے چکی ہے، لیکن بد دیانتی سے وہ شئیر 2021-22 کی رپورٹ میں دکھائے جاتے ہیں کیونکہ وہ شئیر ٹرانسفر ہی نہیں ہوئے۔ 20 نومبر، 2020کو 4,544 ملازمین کو بیک جنبش قلم یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ ہمارے پاس پروڈکشن نہیں ہے، جس کے بعد عدالت میں کیس داخل کیا کہ ہمیں باقی پچاس فیصد ملازمین کو بھی نکالنا ہے اور 31.01.2020 کو جب کہ یہ کیس عدالت میں زیر التوا تھا دوبارہ 220 ملازمین کو فارغ کر دیا۔
پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کی سیکشن 3 کے تحت انکوائری کمیشن بنایا جائے جو اس بات کی انکوائری کرے کہ پاکستان اسٹیل کے قائم ہونے کے پندرہ سال کے بعد اس کی اوور ہالنگ کروائی جانی تھی وہ کیوں نہ کروائی جاسکی؟ نیشنل کمیشن فار انکوائری بنائی جائے اور پاکستان اسٹیل کے 1968 سے لے کر آج تک کے تمام اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کروایا جائے۔
مقتدر اداروں کو چاہیے کہ اس قومی اثاثے کو مسلسل خسارے میں دکھانیوالے بیوروکریٹس اور ان کے پیچھے موجود کرپٹ عناصر کا پتہ لگا کر انھیں عوام کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو چاہیے کہ اسٹیل ملز کے اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کروائے تاکہ حقیقت کا علم ہو سکے۔
اس پٹیشن کی سماعت کے دوران طارق منصور ایڈووکیٹ نے ہوشربا انکشافات کیے جن میں بتایا گیا کہ جس اسٹیل ملز کو دیوالیہ قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے، درحقیقت اس کے تمام وسائل کو اب تک ظاہر ہی نہیں کیا گیا اور اسے مسلسل خسارے میں دکھا کر اس کی نج کاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان اسٹیل ملز کو پاکستان حکومت نے 1968 میں پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن لمیٹڈ کے نام سے رجسٹرڈ کروایا۔ یہ اسٹیل ملز پاکستان میں اسٹیل کی کمی اور ضروریات کو پورا کرنے اور پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کرنے کے ارادے سے بنائی گئی تھی۔
پاکستان اسٹیل ملز کے لیے 1973 میں 19000 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی اور اسٹاف کے لیے تقریبا 4500 گھر بنائے گئے 55 میگا واٹس کے 3 تھرمل پاور پلانٹس۔ دنیا کی تیسرے سب سے بڑی لوڈنگ اور ان لوڈنگ یونٹ کی سہولت، ڈھائی ایکڑ پر محیط انڈرگرائونڈ سرنگیں ہیں، ریلوے لائنز ہیں، اسپتال ہیں، شادی ہالز، اسکولز، کالجز ہیں۔
اس وقت پاکستان اسٹیل ملز کی 1913 ایکڑ زمین کی موجودہ محتاط قیمت 9 کروڑ سے لے کر 12 کروڑ روپے فی ایکٹر ہے۔ اس میں پاکستان اسٹیل ملز کے پلانٹ، مشینری اور دیگر قابل انتقال پراپرٹیز شامل نہیں ہیں۔ پاکستان اسٹیل کی موجودہ 1913 ایکڑ زمین کی موجودہ مارکیٹ ویلیو 19 کھرب روپے سے 24 کھرب روپے بنتی ہے۔ 2008 میں اسٹیل ملز کے بینک اکائونٹ میں 25 ارب روپے موجود تھے لیکن اسٹیل ملز کو مسلسل خسارے میں دکھایا جا رہا تھا۔
انھوں نے آڈیٹر جنرل پاکستان کی آڈٹ رپورٹ 2009-10 کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا تھا کہ اسٹیل ملز منافع میں جا رہی تھی۔ انھوں نے وطن پارٹی بمقابلہ وفاق، 2016 کی پیٹیشن کا حوالہ دیا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے سوموٹو ایکشن لیا اور پرائیوٹائزیشن کے عمل کو منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ کورٹ نے اپنے آرڈرمیں لکھا کہ اسٹیل ملز کے اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کیے بغیر ان کی تشخیص کم (undervaluation) کی گئی ہے۔
2009-10 میں پھر ایک بار دھوکا دہی کے ذریعے اسٹیل ملز کو خسارے میں دکھانے کی کوشش کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ازخود نوٹس کے ذریعہ پہلے ایف آئی اے کو انکوائری کا حکم دیا اور بعدازان تمام کیسز نیب کو ٹرانسفر کر دیے گئے۔ 2015 میں سوئی گیس کے بلز ادا نہ کرنے کو بنیاد بنا کر پاکستان اسٹیل ملز میں پروڈکشن کا عمل روک دیا گیا۔ جس کے بعد گیس کے بلز کی ادائیگی روک دی گئی اور جواز دیا گیا کہ چونکہ گیس ہی نہیں ہے اس لیے اب مزید پروڈکشن ممکن نہیں ہے اور تب سے اب تک بد دیانتی سے اسٹیل ملزکو بند قرار دیا جا رہا ہے۔
نہ تو پروڈکشن پلان بنایا گیا اور نہ ہی بلز کی ادائیگی جان بوجھ کر کی گئی بلکہ عوام کے فنڈز سے گورنمنٹ سے کروڑوں روپے کا بیل آوٹ پیکیج لیا جا رہا ہے، جب کہ ا سٹیل ملز کے کھربوں کے اثاثوں کو گروی رکھ کر قرض لیا جا سکتا تھا۔ اس وقت اسٹیل ملز کی پیمنٹ 284 ارب روپے ہے جب کہ اس پر قرضہ 229 ارب روپے ہے جب کہ اگر اثاثوں کی مالیت دیکھی جائے تو 20 کھرب سے لے کر 34 کھرب تک بنتے ہیں اور یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کیا جائے تو ان کی مالیت اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔
اس طرح اگر اسٹیل ملز کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا تو سی پیک جیسے منصوبے کے لیے لوہا کہاں سے لائیں گے؟ حکومت کے ریزرو میں ویسے ہی ڈالرز کا قحط پڑا ہوا ہے اگر لوہا امپورٹ کیا گیا تو اس کے ادائیگی کے لیے ڈالر کہاں سے لائیں گے؟ سی پیک پروجیکٹ کے لیے اسپیشل اکنامک زون بنانا ہو گا، گوادر میں آئل ریفائنری لگانی ہو گی، کوئلے کی کانوں کے لیے فیکٹریز بنانی ہوں گی، ان سب کے لیے لوہا کہاں سے ملے گا؟ اسٹیل ملزکی پیداوار کی گنجائش 1.1 ملین میٹرک ٹن بتائی جاتی ہے۔
حال ہی میں کیے گئے تجزیے کے مطابق اس کی گنجائش 2.2 ملین میٹرک ٹن ہے اور حیرت کی بات ہے کہ آج تک اسٹیل ملز نے اپنی پوری گنجائش کے مطابق پیداوار نہیں دی۔ اسٹیل ملز کی پیداواری استطاعت کو ہمیشہ سے کم ظاہر کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسٹیل ملز کی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت بدانتظامی، کرپشن اور اقرباء پروری کی ایک بد ترین مثال ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل کے اثاثوں میں دس ہزار اکسٹھ ایکڑ پر آئرن اور ریزور کی کانیں ہیں، جھمپیر میں 844 ایکڑ پر لائم اسٹون کی کانیں ہیں جو بلاسٹ فرنس میں کام آتا ہے جب کہ مکلی میں 9800 ایکڑ پر کانیں ہیں۔ یہ تمام پراپرٹیز حکومت پاکستان کے پبلک فنڈز سے بنیں جو تقریبا 17.56 ارب روپے ہے، اگر اس وقت بھی فارنزک آڈٹ کے ذریعے اسٹیل ملزکے کل اثاثوں کی مالیت کا اندازہ کیا جائے تو پلانٹس کی قیمت الگ کر کے جن کی مالیت 700 ملین ڈالرز بتائی گئی ہے کو الگ کر کے بھی اربوں میں بنتی ہے لیکن ایک سازش کے ذریعہ پاکستان اسٹیل کو مکمل خسارہ میں ظاہر کیا جا رہا ہے، جب کہ اس کے پلانٹس، زمین اور دیگر اثاثوں کی قیمت الگ الگ ہے۔
حالیہ تخمینے کے مطابق پاکستان اسٹیل کا قرضہ 229 ارب ہے جب کہ اس کے حالیہ اثاثوں کی قیمت ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 کھرب سے 34 کھرب کے درمیان ہے لیکن بددیانتی دیکھیں کہ اس کی بیلینس شیٹ میں اسے مکمل خسارہ میں دکھایا جا رہا ہے اور پھر 20 مارچ، 2023 کو سوئی سدرن گیس کارپوریشن نے اس کی بولی لگا دی کہ 1400 ایکڑ ہمیں صرف 43 ارب میں دے دی جائے جب کہ درحقیقت پاکستان اسٹیل کہ ٹوٹل زمین 19013 ایکڑ سے زیادہ ہے۔
سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن نمبر 367/2019 کے فیصلے کے مطابق، عدالت نے 18.11.2019 کو حکم جاری کیا کہ پاکستان اسٹیل ملزکے اثاثے عوام کی ملکیت ہیں لہٰذا حکومت ان اثاثوں کو بیچنے کا اختیار نہیں رکھتی، جب کہ حکومت اس پبلک پراپرٹی کو خسارے میں دکھا کر بیچنے پر تلی بیٹھی ہے اور ایک ایسی زمین جس کی موجودہ مارکیٹ ویلیو، اگر سیپرا رولز کے تحت انٹرنیشنل بولی کے ذریعے لگائی جائے تو نو کروڑ سے شروع ہو کر ساڑھے دس سے بارہ کروڑ روپے فی گز ہے جب کی ایک بار پھر بد دیانتی سے اس کی قیمت تین کروڑ سے ساڑھے تین کروڑ دکھائی جا رہی ہے۔ جب کہ اسٹیل ٹائون میں تقریبا ساڑھے چار ہزار گھر بنے ہوئے ہیں اور ایک گھر کی قیمت ہی صرف ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔
گلشن حدید فیز I, II, III, IV کی زمین اسٹیل ملز کی ملکیت ہے، عریبین کنٹری کلب اس کی زمین پر بنا ہوا ہے، ڈاون اسٹریم پروجیکٹس کی جتنی انڈسٹریزہیں وہ اسٹیل ملز کی زمین پر بنائی گئی ہیں جن سے یہ کرایہ لیتے ہیں، گرڈ اسٹیشنز سے یہ کرایہ لیتے ہیں، لیبر کالونی اور کے الیکٹرک سے یہ کرایہ لیتے ہیں جو کبھی کسی فورم پر بتایا ہی نہیں گیا۔ یہ عوام کے پیسے سے بنائی جانیوالی کمپنی ہے یہ کوئی پرائیویٹ کمپنی نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے بند کر دی جائے۔
گورنمنٹ آف پاکستان 12 فیصد شئیر ہولڈنگ 2008 میں پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو دے چکی ہے، لیکن بد دیانتی سے وہ شئیر 2021-22 کی رپورٹ میں دکھائے جاتے ہیں کیونکہ وہ شئیر ٹرانسفر ہی نہیں ہوئے۔ 20 نومبر، 2020کو 4,544 ملازمین کو بیک جنبش قلم یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ ہمارے پاس پروڈکشن نہیں ہے، جس کے بعد عدالت میں کیس داخل کیا کہ ہمیں باقی پچاس فیصد ملازمین کو بھی نکالنا ہے اور 31.01.2020 کو جب کہ یہ کیس عدالت میں زیر التوا تھا دوبارہ 220 ملازمین کو فارغ کر دیا۔
پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کی سیکشن 3 کے تحت انکوائری کمیشن بنایا جائے جو اس بات کی انکوائری کرے کہ پاکستان اسٹیل کے قائم ہونے کے پندرہ سال کے بعد اس کی اوور ہالنگ کروائی جانی تھی وہ کیوں نہ کروائی جاسکی؟ نیشنل کمیشن فار انکوائری بنائی جائے اور پاکستان اسٹیل کے 1968 سے لے کر آج تک کے تمام اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کروایا جائے۔
مقتدر اداروں کو چاہیے کہ اس قومی اثاثے کو مسلسل خسارے میں دکھانیوالے بیوروکریٹس اور ان کے پیچھے موجود کرپٹ عناصر کا پتہ لگا کر انھیں عوام کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو چاہیے کہ اسٹیل ملز کے اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کروائے تاکہ حقیقت کا علم ہو سکے۔